Express News:
2025-04-25@09:24:16 GMT

صوابی بہ مقابلہ نارووال جلسہ

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

آٹھ فروری کو تحریک انصاف نے بطور یوم سیاہ منایا تھا۔ ویسے تو تحریک انصاف پورے ملک میں احتجاج کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ تاہم صوابی میں جلسہ ہوا۔ آج کل جلسوں کی تصاویر اور ویڈیوز سے جلسوں کی کامیابی اور ناکامی کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ رات کی ویڈیوز لائٹ سب چھپا دیتی ہیں۔ اس لیے سب جلسے ہی اچھے لگتے ہیں۔ اسی لیے رات کا انتظار بھی کیا جاتا ہے۔ دن کے جلسے اسی لیے ختم ہو گئے ہیں۔

بہر حال فروری میں دو جلسے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے گڑھ صوابی میں جلسہ کیا ہے۔ جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے گڑھ نارووال میں جلسہ کیا ہے۔ ہم کسی حد تک دونوں جلسوں کا تقابلی جائزہ کر سکتے ہیں۔ ویسے تو صوابی جلسہ میں صرف کے پی سے لوگوں کو نہیں لایا گیا تھا بلکہ پنجاب کے بھی شمالی دس اضلاع کے لوگوں کو بھی صوابی پہنچنے کا کہا گیا تھا۔ آٹھ فروری کے صوابی جلسہ کے لیے تحریک انصاف نے بہت محنت کی، ساری قیادت وہاں پہنچی، پنجاب کی قیادت بھی وہاں پہنچی۔

بہر حال ہمیں اب تجزیہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مارکیٹ میں کے پی ، کے تحریک انصاف کے صدر جنید اکبر کی ایک آڈیو زیر گردش ہے۔ جس میں وہ صوابی جلسہ کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔

وہ بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنما لوگوں کو نہیں لائے۔ بلکہ جب ان سے لوگ لانے کا ثبوت مانگا گیا تو انھوں نے اسلام آباد احتجاج کی ویڈیوز اور تصاویر بھجوا دی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے انھیں بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بیوقوف نہیں بنیں گے۔ سب کی رپورٹ بانی تحریک انصاف کو دیں گے۔ ویسے تو غیر جانبدار اندازے بھی یہی تھے کہ صوابی جلسہ ناکام ہو گیا ہے۔ لیکن اب تو صوبائی صدر نے ناکامی تسلیم کر لی ہے، اس لیے جلسہ کی ناکامی پر مہر لگ گئی ہے ۔

دوسری طرف نارووال میں چند سڑکوں کے افتتاح پر مریم نواز نے بھی ایک جلسہ سے خطاب کیا ہے۔ یہ جلسہ دن میں کیا گیا ہے۔ اس کی ویڈیوز میں رات کی لائٹنگ کا سہارا نہیں لیا گیا۔ اگر مریم نواز کے جلسے اور صوابی جلسے کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو نارووال میں نارووال کے ہی لوگ تھے۔ کوئی باہر سے لوگوں کو مدعو نہیں کیا گیا ۔ سیالکوٹ گوجرانوالہ سے بھی لوگوں کو نہیں بلایا گیا۔ فقط نارووال کا جلسہ تھا۔ لیکن پھر بھی صوابی جلسہ سے بڑا تھا۔ نارووال جلسہ میں صوابی جلسہ سے عوام کی تعداد زیادہ تھی۔ حالانکہ اس کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کوئی باقاعدہ کال بھی نہیں دی گئی تھی۔

ویسے مجھے تحریک انصاف کی صوابی جلسہ کی ناکامی میں یہ منطق قابل قبول نہیں کہ ارکان سمبلی لوگ نہیں لائے۔ تحریک انصاف کا تو سیاسی فلسفہ یہی رہا ہے کہ لوگ خود آتے ہیں۔ لوگ بانی تحریک انصاف کی کال پر آتے ہیں۔ عوام بانی تحریک انصاف سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ بس اڈیالہ سے کال ہی کافی ہے۔ لیکن اگر اس فلسفہ کو دیکھیں تو پھر ارکان اسمبلی سے یہ گلہ کیوں کہ وہ لوگوں کو نہیں لائے۔ اگر لوگ خود آتے ہیں تو پھر کے پی حکومت سے گلہ کیوں کیا جا رہا ہے کہ اس نے جلسہ میں مدد نہیں کی۔ اگر جلسے حکومت کی مدد سے ہی کامیاب ہوتے ہیں تو پھر بانی تحریک انصاف کی محبت کہاں گئی۔

اس طرح تو اب تحریک انصاف کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ لوگ اب بانی تحریک انصاف کی کال پر خود نہیں آتے۔ لوگ حکومتی آشیر باد کے بغیرنہیں آتے، لوگ حکومتی وسائل کے بغیر نہیں آتے۔ پہلے بھی لوگوں کو حکومتی وسائل اور حکومتی آشیر باد سے ہی لایا جاتا تھا۔ پھر پنجاب کے لوگوں سے گلہ کیوں۔ جب کے پی کے لوگ حکومتی آشیرباد کے بغیر آنے کو تیار نہیں تو پنجاب کے لوگ حکومتی آشیرباد کے بغیر کیسے آجائیں۔ پنجاب پر گلہ پھر ناجائز ہے۔

جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو مسلم لیگ (ن) میں ایک نیا جوش نظر آرہا ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی نے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں ایک نیا جوش پیدا کیا ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کا کارکردگی کا بیانیہ مقبول ہوتا نظر آرہا ہے۔لوگ کارکردگی کے معترف نظر آرہے ہیں۔ لوگ اب کارکردگی کی بات کر رہے ہیں۔ لوگوں کو اپنے مسائل حل ہونے کی امید نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس لیے ہمیں اب مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں اضافہ نظر آرہا ہے۔

اس سے قبل مریم نواز پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں بھی گئی ہیں۔ انھوں نے طلبا و طالبات سے بھی خطاب کیا ہے۔ انھیں جامعات میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ ان کے جامعات کے خطاب بھی بہت پسند کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کہتی تھی کہ نوجوان ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نوجوان بھی ن لیگ کی حکومتوں کی کارکردگی پسند کر رہے ہیں۔

بالخصوص وفاقی اور پنجاب حکومتیں نوجوانوں کے لیے جو خصوصی اسکیمیں لائی ہیں وہ نوجوانوں میں مقبول اورپسند بھی کی جا رہی ہے۔ اس میں اسکالر شپ اسکیم بھی شامل ہے۔ لیپ ٹاپ اسکیم بھی شامل ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے آرمی چیف کا بھی نوجوان طلبا و طالبات سے خطاب دیکھا ہے۔ اور فوج کے افسران بھی یونیورسٹیوں میں گئے ہیں۔ نوجوانوں کی سوچ بھی اب حکومت کی طرف مائل نظر آرہی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ابھی ملک میں جلسہ جلوس کا مقابلہ شروع نہیں کرنا چاہتی۔ ابھی حکمت عملی یہی ہے کہ کام کیا جائے اور سیاسی درجہ حرارت کو کم رکھا جائے۔ ابھی دو سال کام کرنے کے ہیں ۔ سیاست تو شروع ہوگی جب ملک میں انتخابات کا بگل بجے گا۔ اس لیے حکومتی پالیسی سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کی ہے۔ اس لیے صرف مناسب جواب ہی نظر آتا ہے۔ کیونکہ سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ اپوزیشن کے حق میں ہے۔ اس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ تحریک انصاف کی لوگوں کو نہیں صوابی جلسہ حکومتی ا ا رہا ہے جلسہ کی رہے ہیں تے ہیں کیا ہے اس لیے ہیں کہ کے لوگ

پڑھیں:

 ایک قوم بن کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے،شاہدخاقان عباسی

کراچی: سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں اصلاحات اور نئے صوبوں کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔
سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کے دوران کہا کہ ہر مشکل دور میں کراچی پریس کلب ہی وہ جگہ ہے جہاں اپوزیشن کو اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، امید ہے کراچی پریس کلب اپنی ان منفرد روایات کو جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں، بھارت نے جو اس وقت اقدامات کیے ہیں اور پانی کی معطلی کا جو فیصلہ ہے اس کو کسی کی اجازت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک قوم بن کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے، اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور نظام جب تک آئین کے تحت نہیں چلے گا اس وقت بہتری نہیں آئے گی۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اگر کینال بنانا چاہتی ہے تو اس مسئلے کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اٹھانا چاہیے تھا، سندھ آج سراپا احتجاج ہے ایک ایسا صوبہ جہاں کراچی واقع ہے یہاں سڑکوں پر احتجاج جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کا اثر ملک پر پڑے گا، ابھی تک اس کینال پر کوئی حکومتی رکن قومی اسمبلی پر بات نہیں کرسکا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئین میں ہر طرح کی ترامیم کی جاتی ہیں، ان کے اثرات کئی نسلوں تک ہوتے ہیں، جمہوری ممالک میں قانون میڈیا کی آزادی کے لیے بنتے ہیں، آج وہ وقت نہیں جو قانون کا سہارا لے کر میڈیا پر پابندی لگائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا نوجوان کیوں ہتھیار اٹھاتا ہے، قانون کی بالادستی کے ذریعے پریشانیوں کو ختم کرسکتے ہیں، سیاست میں انتشار ہے، پاکستان میں نئے صوبوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی 70 فیصد آبادی کو پانی میسر نہیں، دنیا کا کوئی ملک دکھائیں جہاں پانی ٹینکر سے جاتا ہو، اشرافیہ عوام کی بنیادی سہولت پر قابض ہے، حکومت کی اتنی بھی رٹ نہیں کہ پانی پہنچا سکے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ٹینکروں سے پانی کی ترسیل کا مقصد ہے کہ مطلوبہ مقدار میں پانی دستیاب ہے لیکن کراچی کے باسیوں کو پانی کی سہولت سے محروم رکھا جا رہا ہے، میرا گھر پہاڑ پر ہے وہاں بھی پانی لائنوں سے ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ نہیں چلےگا تو پاکستان نہیں چلےگا جو حالات کراچی کے ہوں گے وہی حالات پورے پاکستان کے ہوں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کراچی کو پیچھے رکھ کر پاکستان ترقی کرے، کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ میں حکومت ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبر پختونخواہ میں حکومت ہے اور وفاق میں سب اتحادی ہیں لیکن مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں، نوجوان ملک چھوڑنے کی باتیں کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام جماعتوں کے پاس حکومت ہے، ہم روایتی سیاست کا حصہ رہے ہیں، اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور نظام جب تک آئین کے تحت نہیں چلے گا اس وقت تک بہتری نہیں آئے گی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج ہمیں دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان میں لوگ ہتھیار کیوں اٹھا رہے ہیں، اس مسئلے کا حل بات کرکے ہی ملے گا ان کے تحفظات سنیں جائیں، بلوچستان کے نمائندگان وہ ہوں جو عوام کا ووٹ لے کر آئیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آج بے پناہ اصلاحات کی ضرورت ہے، آج ایسی صورت حال ہے کہ اصلاحات پر بات بھی نہیں کی جاتی، آج نئے صوبوں کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہ مخالفت کی سیاست کرتے ہیں ہم آئین و قانون کے تحت سیاست کرتے ہیں، ہماری پارٹی کام کر رہی ہے آہستہ آہستہ لوگ ہمارے ساتھ جڑ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس ملک میں سیاسی انتشار ہو، قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں نہ سرمایہ آئے گا اور نہ معیشت بہتر ہوگی، ملک میں دو کروڑ 70 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہونا سب سے اہم مسئلہ ہے، ان اہم معاملات پر توجہ دے کر فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آبادی بڑھنے کے باوجود پاکستان میں خط غربت بڑھ کر 42.4 فیصد پر آگئی ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  •  ایک قوم بن کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے،شاہدخاقان عباسی
  • بانی تحریک انصاف کی رہائی کا سب کو انتظار ہے، ڈاکٹر عارف علوی
  • تحریک تحفظ آئین نے ملک بھر میں جلسوں، احتجاج کا اعلان کر دیا
  • نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس میں تحریک انصاف کو بھی بلایا جائے: فیصل واوڈا
  • نیشنل ایکشن پلان کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے ، تحریک انصاف شامل ہو: فیصل واوڈا
  • تحریکِ انصاف کا اندرونی انتشار اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بن گیا، جماعت اسلامی
  • تحریک انصاف سے اتحاد نہ کرنے کی خبریں مصدقہ نہیں، ترجمان جے یو آئی
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • جنید اکبر کا احتجاج کے حوالے سے بیان سامنے آگیا
  • کے پی ٹی میں ہو رہی لوٹ مار کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا، خواجہ آصف