Islam Times:
2025-11-05@01:51:45 GMT

شہید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

شہید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کا کردار

اسلام ٹائمز: امریکہ نے شہید سید حسن نصراللہ کے قتل کے لیے ضروری اسلحہ فراہم کرنے علاوہ اس قتل کی نامحدود سیاسی حمایت بھی کی ہے جس کے باعث صیہونی حکمرانوں کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی نہیں ہو سکی اور ان پر جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود مقدمہ نہیں چل سکا۔ البتہ یہ جرائم اور مظالم وقت گزرنے فراموش نہیں کیے جائیں گے اور جتنی بھی دیر سے سہی آخرکار امریکہ اور صیہونی رژیم کو ان جرائم کی سزا ملے گی۔ تحریر: علی احمدی
 
اگرچہ شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی لاجسٹک سپورٹ اور اسلحہ فراہمی ایک واضح امر ہے لیکن کچھ ایسے شواہد بھی پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اس قتل میں کہیں زیادہ وسیع کردار ادا کیا ہے۔ صیہونی دشمن نے سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں اپنے پاس موجود جدید ترین فوجی ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا تھا اور صرف چند منٹ میں ہی ایف 15 جنگی طیاروں کی مدد سے ایک ہی جگہ 80 سے زیادہ ایسے بم گرائے جن میں سے ہر ایک کا وزن تقریباً ایک ٹن کے قریب تھا۔ اس بارے میں شائع ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے اس حملے میں جن بموں کا استعمال کیا وہ ایم کے 84 کہلاتے ہیں اور اینٹی بنکر اور امریکی ساختہ ہیں۔
 
شائع ہونے والی رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کی ٹارگٹ کلنگ کوئی سادہ فوجی اور سیکورٹی آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کے مقدمات فراہم کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار تھا۔ یہ حملہ اسلامی مزاحمت کی جانب سے غزہ کی حمایت کے ردعمل میں انجام پایا۔ مختلف باخبر ذرائع کے بقول غاصب صیہونی رژیم نے اس حملے میں بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کی انٹیلی جنس سروسز کی مدد بھی حاصل کی تھی تاکہ اپنے انٹیلی جنس اور لاجسٹک آپریشنز کو خفیہ رکھ سکے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ بین الاقوامی کھلاڑی اس حملے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر شریک بھی تھے۔ اس بارے میں ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے انجام پانے والے حملے کی منصوبہ بندی اور اجراء میں امریکہ کا کردار اور شراکت کس حد تک تھی؟
 
سیاسی اور فوجی امور کے ماہر عمر معربونی اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس حملے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے اصلی دشمن کے طور پر امریکہ کے کردار سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی اور اس آپریشن میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجک تعاون انجام پایا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کیے گئے تعاون کا ایک حصہ ان بموں کی صورت میں تھا جن سے شہید سید حسن نصراللہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بم ایم کے 84 نام کے ہیں اور اگرچہ ان میں سے ہر ایک کا وزن ایک ٹن ہے لیکن وہ 80 ٹن دھماکہ خیز مادے جتنی تباہی پھیلاتا ہے۔ معربونی نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکی تعاون کے دو بنیاد پہلو بیان کیے ہیں جو یہ ہیں:
 
1)۔ الیکٹرانک آلات کے ذریعے نظارت اور جاسوسی معلومات کی فراہمی۔ واضح ہے کہ اس حملے سے پہلے انتہائی جدید طریقوں سے جاسوسی کا عمل انجام پایا ہے جس کی مدد سے مطلوبہ ٹارگٹ کا تعین کیا گیا ہے۔
2)۔ اسرائیل کو اسلحہ اور جنگی آلات فراہم کرنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حملے میں امریکہ کا کردار مرکزی نوعیت کا تھا اور کم از کم اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا۔
بین الاقوامی امور کے ایک اور ماہر عدنان علامہ بھی امریکی حکومت کو شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں برابر کا شریک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ امریکہ تھا جس نے جنگی طیارے اور اسلحہ اور بم صیہونی رژیم کو فراہم کیے۔ وہ مزید کہتے ہین کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس ٹارگٹ کلنگ سے پیشگی مطلع تھا۔
 
اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اس حملے میں استعمال ہونے والے بم ایسے مخصوص بم تھے جن میں کم شدت کا یورینیم استعمال ہوتا ہے اور اس سے دھماکے والی جگہ کا درجہ حرارت شدید حد تک بڑھ جاتا ہے۔ عدنان علامہ کہتے ہیں: "امریکہ نے شہید سید حسن نصراللہ کے قتل کے لیے ضروری اسلحہ فراہم کرنے علاوہ اس قتل کی نامحدود سیاسی حمایت بھی کی ہے جس کے باعث صیہونی حکمرانوں کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی نہیں ہو سکی اور ان پر جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود مقدمہ نہیں چل سکا۔ البتہ یہ جرائم اور مظالم وقت گزرنے فراموش نہیں کیے جائیں گے اور جتنی بھی دیر سے سہی آخرکار امریکہ اور صیہونی رژیم کو ان جرائم کی سزا ملے گی۔" انہوں نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکی مداخلت کو 70 فیصد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعاون براہ راست طور پر انجام پایا ہے اور اس میں انٹیلی جنس تعاون بھی شامل ہے۔
 
عدنان علامہ نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ کے کردار کے بارے میں تین اہم نکات پیش کیے:
1)۔ امریکہ نے لبنان میں دنیا کا سب سے بڑا سفارت خانہ بنا رکھا ہے جس میں ایک مخصوص ہیلی پیڈ اور ایئرپورٹ بھی شامل ہے اور وہاں بیروت ایئرپورٹ کی نظارت کے تحت پروازیں انجام پاتی ہیں۔
2)۔ امریکہ کے نمائندے کسی قسم کی اجازت اور روک ٹوک کے بغیر بہت آسانی سے لبنان کے مختلف وزارت خانوں میں آتے جاتے ہیں اور ہمیشہ اس ملک میں ان کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔
3)۔ لبنان میں امریکی سفارت خانہ جدید ترین ٹیلی کمیونیکیشن اور جاسوسی آلات سے لیس ہے جن کے ذریعے امریکہ وسیع پیمانے پر جاسوسی معلومات اکٹھی کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ یہ معلومات اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے شہید سید حسن نصراللہ اس حملے میں انجام پایا میں امریکہ کہ اس حملے جرائم اور امریکہ نے کہتے ہیں ہے کہ اس ہوتا ہے کے لیے اور ان ہیں کہ اور اس ہے اور

پڑھیں:

لبنان کیلئے نیتن یاہو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا

اسلام ٹائمز: اس وقت لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور لبنان آرمی لبنانی عوام اور اسلامی مزاحمت کی بھرپور حمایت سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بدمعاشی اور بھتہ خوری پر مبنی پالیسی کے خلاف نیا محاذ کھولنے والی ہے۔ اگرچہ دشمن طاقتیں لبنان حکومت کو اسرائیل کی جانب سے وسیع جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنا پورا زور لگا چکی ہے اور اب اس میں مزید زور لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا راستہ اپنا رکھا ہے اور وہ محض دھمکیوں کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جس جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا واحد نتیجہ صیہونی رژیم کو درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: ہادی محمدی
 
امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم خطے میں اپنی فتح اور اسلامی مزاحمت کی نابودی کا جشن منا رہے ہیں اور ڈھول پیٹ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ غل غپاڑہ اور پروپیگنڈہ خطے میں موجود زمینی حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ اگرچہ انہوں نے لبنان میں فوجی جارحیت، نرم جنگ اور فتح کے باجے بجانے کے ساتھ ساتھ لبنان حکومت سے بھتہ وصول کرنے اور اسے اپنے ناجائز مطالبات کے سامنے سر جھکا دینے کی بھرپور کوششیں انجام دی ہیں لیکن اب تک ان کی یہ تمام کوششیں ناکامی اور شکست کا شکار ہوئی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے اس سال کے آغاز میں لبنان سے جنگ بندی کا اعلان کر تو دیا لیکن اس کے باوجود جنوبی لبنان میں اسرائیل کی فضائی جارحیت اور لبنانی شہریوں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا۔
 
اسرائیلی حکمرانوں نے لبنان سے جنگ بندی کی تمام خلاف ورزیوں کو حزب اللہ لبنان کے ٹھکانوں پر حملوں اور حزب اللہ لبنان کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ ظاہر کر کے اپنے ان مجرمانہ اقدامات کا جواز پیش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور ساتھ ہی اندرونی سطح پر اپنی عزت اور وقار بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یونیفل کے مشن میں توسیع دینے کی کوشش کی تاکہ اس طرح اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کو بائی پاس کر کے پورے لبنان میں مداخلت آمیز اقدامات اور جاسوسی سرگرمیوں کے ذریعے اسلامی مزاحمت کے خلاف جنگ شروع کر سکیں لیکن لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی مشیروں اورٹیگاس اور تھامس براک کی بھاگ دوڑ کے باوجود ایسا نہ ہو سکا اور یونیفل کے مشن میں توسیع کی کوشش ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد لبنان حکومت پر حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباو ڈالنا شروع کر دیا گیا۔
 
امریکہ اور اسرائیل کی یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہو گئی جب لبنان آرمی نے حزب اللہ لبنان سے ٹکر لینے سے انکار کر دیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عملدرآمد پر زور دے دیا۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم اس وقت کئی قسم کے سنگین بحرانوں سے روبرو ہے جن میں اقتصادی بحران، فوج میں ٹوٹ پھوٹ اور عوام کی جانب سے جنگ کے خلاف شدید بے چینی اور احتجاج شامل ہیں۔ جنوبی لبنان میں اس وقت بھی چند اسٹریٹجک مقامات اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہیں اور اسرائیلی حکمران ان مقامات سے فوجی انخلاء کے بدلے نئی سودا بازی کے درپے تھے۔ اس طرح لبنان حکومت اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر نظارت کرنے والی قوتوں کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جسے "میکانزم" کا نام دیا گیا۔ گذشتہ کچھ ہفتوں سے امریکی سینٹرز نے لبنان حکومت پر شدید دباو ڈال رکھا ہے جس کا مقصد حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا ہے۔
 
ان امریکی سینٹرز نے دھمکی آمیز لہجہ اپناتے ہوئے لبنان حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح نہ کر سکی تو اس کے سنگین نتائج ظاہر ہوں گے۔ اسی سلسلے میں اورٹیگاس نے بھی لبنان اور اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے سے پہلے اسرائیل نے وحشیانہ ادناز میں لبنان کے مختلف مقامات پر فضائی حملے انجام دیے تاکہ یہ بتا سکے کہ وہ ہر قسم کی بربریت کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہ ڈرامہ بازی ایسے وقت کی جا رہی ہے جب امریکہ اور اسرائیل لبنان میں اسلامی مزاحمت کو ختم کر دینے کے کھوکھلے دعووں کے بعد اب اس حقیقت کو قبول کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ حزب اللہ لبنان نے نہ صرف اپنی طاقت بحال کر لی ہے بلکہ وہ غاصب صیہونی رژیم کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہو چکی ہے۔
 
لہذا گذشتہ ہفتے کے شروع میں اسرائیلی فوج نے چار دن کی فوجی مشقیں انجام دیں اور ان کا مقصد مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں پر حزب اللہ لبنان کے ممکنہ زمینی حملے کا مقابلہ کرنا اعلان کیا گیا۔ اورٹیگاس کا لبنان کا دورہ بھی بے سود ثابت ہوا اور اس کے دورے کے اختتام پر صیہونی رژیم نے لبنان کے قصبے بلیدا کی بلدیہ کی عمارت پر فضائی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں وہاں کا چوکیدار شہید ہو گیا۔ اس واقعے نے پورے لبنان میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی اور لبنان کے صدر جوزف عون نے لبنان آرمی کو ریڈ الرٹ کرتے ہوئے غاصب صیہونی رژیم کی ہر ممکنہ فوجی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اگرچہ گذشتہ دنوں سے لبنان کے تمام علاقوں میں اسرائیلی ڈرون طیاروں کی پروازوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا ہے لیکن صیہونی رژیم اب بھی حزب اللہ لبنان کی ممکنہ جوابی کاروائی سے شدید خوفزدہ ہے۔
 
اس وقت لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور لبنان آرمی لبنانی عوام اور اسلامی مزاحمت کی بھرپور حمایت سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بدمعاشی اور بھتہ خوری پر مبنی پالیسی کے خلاف نیا محاذ کھولنے والی ہے۔ اگرچہ دشمن طاقتیں لبنان حکومت کو اسرائیل کی جانب سے وسیع جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنا پورا زور لگا چکی ہے اور اب اس میں مزید زور لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا راستہ اپنا رکھا ہے اور وہ محض دھمکیوں کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جس جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا واحد نتیجہ صیہونی رژیم کو درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • اسد زبیر شہید کو سلام!
  • لبنان کیلئے نیتن یاہو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا
  • صحافی امتیاز میرکی ٹارگٹ کلنگ میںملوث ملزموں کاسنسی خیز انکشاف
  • بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
  • کراچی: ’ٹارگٹ کلنگ‘ کےالگ الگ واقعات ،2 نوجوان قتل
  • صحافی طاہر نصیرکی ٹارگٹ کلنگ کی کوشش کا کیس ، پولیس سے مقدمہ کا ریکارڈ طلب
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات