امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر یورپی یونین کا ردعمل‘واشنگٹن کو ہماری مہربانیوں پر شکرگزار ہونا چاہیے.ترجمان
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
برسلز(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 فروری ۔2025 )امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اوول آفس سنبھالنے کے بعد یورپی ممالک پر تنقید سے واشنگٹن اور یورپی یونین کے درمیان تلخیاں بڑھ رہی ہیں فرانسیسی صدر عمانویل میکروں کے دو روز قبل واشنگٹن کے دورے کے باوجود ٹرمپ نے یورپی یونین پر تنقید کی صدرٹرمپ نے کہا کہ یورپی یونین کا قیام امریکہ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا تھا.
(جاری ہے)
عرب نشریاتی ادارے کے مطابق یورپی کمیشن کے ترجمان نے کہاہے کہ یورپی یونین دنیا کی سب سے بڑی آزاد تجارتی منڈی ہے یہ امریکہ کے لیے ایک اعزاز ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں تمام یورپی اور امریکی شہریوں اور کمپنیوں کے لیے ان مواقع کو یکساں طور پر محفوظ رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے کی .
انہوں نے کہا کہ یونین نے ایک بڑی اور مربوط سنگل مارکیٹ بنا کر امریکہ کو تجارت میں سہولت فراہم کی ہے امریکی برآمد کنندگان کے لیے لاگت کو کم کیا ہے اور 27 ممالک میں متحد معیارات اور ضوابط بنائے ہیں. یورپی کمیشن نے متنبہ کیا کہ یونین امریکی صدر کی طرف سے نئی ٹیکس دھمکیوں کے حوالے سے کسی بھی کسٹم ڈیوٹی کا مضبوطی اور فوری جواب دے گی انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک ہمیشہ یورپی کمپنیوں‘ کارکنوں اور صارفین کو بلاجواز محصولات سے محفوظ رکھیں گے. رپورٹ کے مطابق ترجمان نے کہا کہ یورپی یونین امریکہ پر مہربان ہے اگر ٹرمپ قواعد پر عمل کرتے ہیں تو تعاون کرنے کے لیے تیار ہیںیہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ٹرمپ نے گزشتہ روز یورپ سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی کا اعادہ کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ میں یورپ کے ممالک سے محبت کرتا ہوں میں واقعی میں ان تمام ممالک سے محبت کرتا ہوں لیکن سچ پوچھیں یورپی یونین ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائی گئی تھی یہی مقصد تھا اور وہ کامیاب ہوئے. نشریاتی ادارے کے مطابق یورپی ممالک نے ٹرمپ کے اس بیان پر سخت رد عمل دیا ہے اس سے قبل وزیر خارجہ مارکو روبیو کی یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے برائے خارجہ امور اور سیکیورٹی پالیسی کایا کالس کے ساتھ کل ہونے والی ملاقات منسوخ کردی گئی تھی ملاقات کی منسوخی”شیڈیولنگ ایشوز“ کی وجہ سے تھی قبل ازیں بہت سے یورپی راہنماﺅں نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی تقریر پر بھی تنقید کی تھی جہاں انہوں نے کئی یورپی ممالک اور یورپی یونین کے موقف کی شدید مذمت کی تھی.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورپی یونین یورپی ممالک امریکی صدر نے کہا کہ کہ یورپی انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
امریکہ نئے دلدل میں
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنیوالے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونیوالی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ تحریر: سید رضا میر طاہر
یمن کے خلاف امریکی فوجی آپریشن کے آغاز کے چند ہفتوں کے بعد امریکی میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کی اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے آپریشن کے سنگین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ 22 اپریل کو امریکی میگزین فارن پالیسی نے "حوثیوں کے خلاف ٹرمپ کی جنگ بے نتیجہ" کے عنوان سے ایک مضمون میں یمن میں انصار اللہ فورسز کے ٹھکانوں پر امریکی بحریہ کے غیر موثر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے حوثیوں پر حملوں میں اضافے کے پانچ ہفتے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کئی بڑی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یمن کے خلاف بیان بازی کے حقیقی نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکی حملے اب تک اپنے دو بیان کردہ اہداف میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، یعنی بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی آزادی کو بحال کرنا اور ڈیٹرنس کو دوبارہ قائم کرنا۔
امریکی حملوں کے باوجود بحیرہ احمر اور سویز کینال کے راستے جہاز رانی کم ہے، جس پر اب تک امریکہ کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ یمنی ملیشیا نے بھی خطے میں اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور ٹرمپ کے یمن کے "دلدل" میں داخل ہونے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل اور نیشنل ڈیفنس کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے 20 اپریل کو کہا ہے کہ یمن پر امریکی حملہ پہلے دن سے ہی ناکام ہوگیا ہے۔ امریکہ کو اس کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات کی سزا دی جائے گی۔ ٹرمپ ہمیں اس دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں امریکہ کو اس دلدل میں رہنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیئے۔ امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ٹرمپ نے امریکہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔
اس آپریشن پر اب تک امریکہ کو 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمت جاری ہے اور یمنیوں نے اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع ان حملوں کے بارے میں شفاف نہیں رہا ہے اور اس نے میڈیا کو بہت کم معلومات فراہم کی ہیں۔ یمن پر امریکی حملوں سے متعلق خفیہ معلومات کے افشا ہونے سے ملک کی عسکری قوتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ کے ممتاز امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی یمن کی فوج اور ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے بارے میں امریکی محکمہ دفاع کے دعووں پر سوال اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے CNN نے پینٹاگون کے ایک اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تحریک انصار اللہ کے پاس باقی ماندہ ہتھیاروں کی صحیح مقدار کا تعین کرنا مشکل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ انصار اللہ کے کچھ ٹھکانے تباہ ہوگئے ہیں، لیکن اس سے بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھنے کی ان کی صلاحیت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ سی این این نے مذکورہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ انصار اللہ اب بھی زیر زمین قلعہ بندی اور ہتھیاروں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونے والی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔