پاکستان فٹبال فیڈریشن کی معطلی سے متعلق اہم پیشرفت
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
لاہور:
فیفا کی طرف سے پاکستان فٹبال کی معطلی جلد ختم ہونے کا امکان ہے، پی ایف ایف کانگریس ارکان نے فیفا کی مجوزہ آئینی ترامیم کو تسلیم کر لیا۔
لاہور میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان فٹبال کے مفاد میں آئینی ترامیم منظور کیں، معطلی ختم ہونے سے قومی ٹیم اے ایف سی ایشین کپ کوالیفائرز میں شرکت کر پائے گی۔
پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نو منتخب کانگریس نے غیر معمولی اجلاس میں فیفا کی مجوزہ آئینی ترامیم کو بھاری اکثریت سے تسلیم کیا۔
فیفا اور ایشین فٹبال کنفیڈریشن کے اعلیٰ سطحی وفد سے ڈپٹی جنرل سیکرٹری اے ایف سی واحد کاردانی، فیفا ایم اے گورننس کے سربراہ رالف ٹینر، اے ایف سی ساؤتھ ایشیا یونٹ کے سربراہ پرشوتم کیٹل، اے ایف سی ساؤتھ ایشیا یونٹ کے سینئر منیجر سونم جگمی اور منیجر دنیش ڈی سلوا اجلاس میں شامل تھے۔
اجلاس کی صدارت پی ایف ایف کے صدر اور نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین سعود عظیم ہاشمی نے کی، اس موقع پر این سی ممبران محمد شاہد نیاز کھوکھر اور حارث عظمت بھی موجود تھے۔
اے ایف سی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری واحد کاردانی نے پاکستان فٹبال میں ضروری اصلاحات لانے پر کانگریس ارکان کے ارادے کو سراہا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان فٹبال اے ایف سی
پڑھیں:
’سندھ طاس معاہدے کی معطلی اشتعال انگیز اور غیر قانونی‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 اپریل 2025ء) پیر 28 اپریل کو ڈی ڈبلیو نیوز سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے پاکستان پر موسمیاتی دباؤ اور بھارت کے ساتھ واٹر ٹریٹی کے تنازعے پر تشویش کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو نے بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے اعلان پر سخت تنقید کی۔
انہوں نے کہا، ''یہ تاثر کیسا ہے کہ ایک ایسا ملک جو ہم سے سات گنا بڑا ہے، ایک جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک جس کے ساتھ ہم پہلے ہی ماضی میں جنگیں لڑ چکے ہیں، ملین لوگوں کی لائف لائن کاٹنے کی دھمکی دے رہا ہے؟‘‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان پہلے ہی 'موسمیاتی دباؤ‘ کا شکار ہے، جہاں یا تو شدید خشک سالی ہوتی ہے یا تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔
انہوں نے مغربی دنیا سے اپیل کی کہ وہ پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجز کو سمجھیں، جو دنیا کے 10 سب سے زیادہ موسمیاتی دباؤ والے ممالک میں شامل ہے۔(جاری ہے)
ریلی میں دیا گیا بیان غیر سفارتی تھاتاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کا ایک سیاسی ریلی میں دیا گیا بیان، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''اگر بھارت نے پانی روکا تو خون بہے گا‘‘ غیر سفارتی تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ وہ اب وزیر خارجہ نہیں ہیں اور وہ سندھ کے عوام کی نمائندگی کر رہے تھے، جو پانی کی کمی کے باعث پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی حوالہ تھا لیکن انہوں نے زور دیا کہ پانی کے وسائل کو ہتھیار بنانے کا کوئی بھی اقدام جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ کشمیر حملے کی مذمتبلاول بھٹو نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کی بھی سخت مذمت کی، جس میں متعدد سیاح ہلاک ہوئے۔
انہوں نے کہا، ''پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور میں خود بھی دہشت گردی کا متاثرہ ہوں۔ ہم نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے خواہش مند ہیں۔‘‘انہوں نے بھارت کی جانب سے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ بھارت ہر سکیورٹی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان یا کشمیری عوام کو ٹھہراتا ہے۔
انہوں نے کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والے ''اجتماعی سزا‘‘ کے سلوک پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جہاں مکانات کو مسمار کیا جا رہا ہے اور خاندانوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔پہلگام حملے کے بعد بھارتی اور پاکستانی رہنماؤں کی لفظی جنگ جاری
دہشت گردی کے الزامات اور تعاون کی پیشکشڈی ڈبلیو نیوز کے ساتھ انٹرویو کے دوران بلاول بھٹو سے سوال کیا گیا کہ مغربی ممالک پاکستان پر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں۔
بلاول نے اسے ''غیر منصفانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں پاکستان نے بین الاقوامی دباؤ پر کچھ گروہوں کی حمایت کی تھی، لیکن اب پاکستان نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی ہے اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل چکا ہے۔انہوں نے کشمیر حملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا، ''پاکستان اس حملے کی حقیقت جاننا چاہتا ہے۔
ہم بھارتی زیر انتظام کشمیر تک رسائی نہیں رکھتے، جو دنیا کا سب سے زیادہ فوجی علاقہ ہے لیکن ہم کسی بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔‘‘ خطے میں امن کی ضرورتبلاول بھٹو نے زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان اور بھارت کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا، ''اگر بھارت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے پاکستان کے ساتھ بات چیت اور تعاون کرنا چاہیے۔
‘‘ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں پر تنقید کی اور کہا کہ وہ اپنی اندرونی ناکامیوں کا الزام پاکستان اور کشمیریوں پر عائد کرتے ہیں۔کشمیر سے ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار عادل بھٹ کی رپورٹ کے مطابق، چین سمیت دیگر ممالک کی جانب سے پرسکون رہنے کی اپیلوں کے باوجود خطے میں وسیع تر تنازعے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ واٹر ٹریٹی کے تنازعے اور کشمیر حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
ادارت: افسر اعوان