آئی ایم ایف کی شرط پر سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کیلئے پورٹل لانچ کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
آئی ایم ایف کی شرط پر سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کیلئے پورٹل لانچ کرنے کا فیصلہ WhatsAppFacebookTwitter 0 6 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کے لیے ڈیجیٹل پورٹل لانچ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس حوالے سے وزارت خزانہ اور کابینہ ڈویژن نے ایک مسودہ تیار کرلیا ہے جو عالمی مالیاتی ادارے کو پیش کیا جائے گا۔
وفاقی حکومت کے مطابق سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کے لیے ایک جدید ڈیجیٹل پورٹل متعارف کرایا جائے گا، جس پر تمام افسران کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہوگا۔حکومت نے ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے لیے عدالتوں میں زیر سماعت ٹیکس کیسز جلد نمٹانے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جس میں وزیراعظم آفس معاونت کرے گا۔
آئی ایم ایف وفد کے ساتھ بجلی اور گیس ٹیرف، گردشی قرضہ اور نیشنل اکانٹس سمیت مختلف امور پر مذاکرات جاری ہیں۔ اس ضمن میں کہا گیا کہ سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کے مسودے پر مزید مذاکرات ہوں گے اور آئی ایم ایف کو حتمی ڈرافٹ پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے آئی ایم ایف
پڑھیں:
حکومت کا گندم کی امدادی قیمت بحال کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے رابطے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت بحال کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق وفاقی وزیر برائے خوراک و تحقیق رانا تنویر نے کہا ہے کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ فوڈ آئٹمز پر آئی ایم ایف کو قائل کیا جائے تاکہ کسانوں اور عوام دونوں کا تحفظ کیا جا سکے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے غذائی تحفظ کا اجلاس حسین طارق کی زیر صدارت ہوا، جس میں وفاقی وزیر رانا تنویر نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی کنٹرول کم ہونے کے باعث مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں بڑھی ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ حکومت اکتوبر کے پہلے ہفتے میں نئی گندم پالیسی متعارف کرائے گی تاکہ پیداوار اور قیمتوں میں استحکام لایا جا سکے۔
رانا تنویر نے خبردار کیا کہ گندم کی امدادی قیمت نہ دینے سے فصل کی پیداوار میں کمی آئی ہے، اگر پیداوار مزید 6 فیصد گری تو ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کی گندم درآمد کرنا پڑے گی، جس سے قومی خزانے پر بھاری بوجھ پڑے گا۔
اجلاس میں چینی کی امپورٹ، ایکسپورٹ اور قیمتوں کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ گزشتہ سال چینی کی پیداوار کا تخمینہ 7.2 ملین ٹن تھا لیکن اصل پیداوار 5.8 ملین ٹن رہی۔
انہوں نے مزید کہاکہ 13 لاکھ ٹن سرپلس چینی کی وجہ سے انڈسٹری کو شدید نقصان ہوا تھا۔ تاہم حکومت نے اقدامات کر کے چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو سے واپس لائی۔
انہوں نے بتایا کہ سرپلس چینی کی برآمد سے 45 کروڑ ڈالر زرمبادلہ حاصل ہوا، مگر اب پیداوار میں کمی کے باعث حکومت کو 15 کروڑ ڈالر کی چینی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ رانا تنویر نے کہا کہ اس سال گنے کی بمپر کراپ کی توقع ہے جس سے چینی کی صورتحال بہتر ہوگی۔
اس موقع پر وزارت غذائی تحفظ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے گندم کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا جو اب قابو میں ہے، تاہم چینی کی قیمت کنٹرول نہ ہونے پر کمیٹی ارکان نے سوالات اٹھائے۔ رانا حیات نے استفسار کیا کہ اگر گندم کی قیمت کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے تو چینی کی قیمت کیوں نہیں روکی جا رہی؟ چینی کی درآمد کر کے کرشنگ سیزن میں کسانوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
کمیٹی کے ارکان نے مطالبہ کیا کہ حکومت واضح اور دیرپا پالیسی بنائے تاکہ گندم اور چینی دونوں کے شعبے کو استحکام مل سکے، کسانوں کا نقصان نہ ہو اور عوام کو بھی ریلیف دیا جا سکے۔