خالد علیم کی حمدیہ ، نعتیہ شاعری پر ایک نظر
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
خالد علیم روحانی اقدارکے حامل، درویش صفت، شفیق دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہر و باطن سے آئینہ دار صفت اور صاف گو، نستعلیق آدمی تھے۔ انھوں نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور اس خوش اسلوبی اور انوکھے انداز سے اپنی فنی و فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لائے کہ اہلِ دانش دنگ رہ گئے۔
ان کے حمدیہ کلام کو جب فنی و فکری لحاظ سے پرکھتے ہیں تو اب بات کا گماں بار بار ہوتا ہے کہ ان کے طرزِ احساس میں جدت، سادگی، روانی اور صفائی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’ جب حمد زبان سے دل پر حرفِ دعا بن کر نغمہ ریزی کی جلوہ آرائی کا سامان مہیا کرتی ہے تو قلب و روح اللہ کی نورانیت سے معمور و منور ہو جایا کرتے ہیں۔ یہی کیفیت ہم پہ خالد علیم کی حمدیہ شاعری پڑھتے ہوئے طاری ہو جاتی ہے۔ ان کے چند حمدیہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔
جو تیری حمد کو ہو خوش رقم،کہاں سے آئے
وہ روشنائی، وہ نوکِ قلم کہاں سے آئے
گناہ گار ہوں اے میرے مہربان خدا
اگر گناہ نہ ہوں، چشمِ نم کہاں سے آئے
خالد علیم کے حمدیہ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے قرآن و احادیث کا گہرا مطالعہ کیا ہُوا ہے، اس لیے تو ان کے کلام میں قرآن و سنت کے پاکیزہ اصولوں کے آبدار موتی دل و نظرکو آگہی خداوندی سے سرفراز کرتے ہوئے ملتے ہیں۔
اسی طرح جب وہ نعت کہنے کے لیے قلم اُٹھاتے ہیں تو وہ پہلے وردِ نبی حضرت محمد ﷺ اپنے لبوں پر سجاتے، اشکوں سے با وضو ہوتے اور اپنے تصور میں گنبدِ خضریٰ کی جالیوں کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے اپنی پلکوں سے نعلینِ نبیؐ سر پر اُٹھائے حضورؐ کی بارگاہِ اقدس سے اجازت طلب کرتے ۔ اس طرح وہ نعت کے پاکیزہ عمل سے گزرتے۔ اس لیے ان کے کلام میں دلکشی، تاثر آفرینی، مٹھاس، دل پذیری اور غنائیت پائی جاتی ہے۔ ان کی نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے:
دانائیاں تمام ہوئی جب جہان سے
اُترا نبیؐ کا نطقِ جمیل آسمان سے
انساں کو دے گیا وہ عجب جاں گدازیاں
جو لفظ بھی ادا ہوا اُنؐ کی زبان سے
نعتیہ شاعری کی بنیاد ذاتِ محمد ﷺ سے محبت و عقیدت کا جذبہ ہے۔ یہ نعت گوئی کا تقاضا ہی نہیں ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہمارا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی ہر چیز اپنے تمام رشتوں سے زیادہ نبی کریمؐ کی ذات سے محبت کرنے اور اُن کا اتباع کرنے والے نہ بن جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ خالد علیم آبِ بقا کے نہیں جامِ کوثر کے تمنائی ہیں۔ ان کے نعتیہ شعری مجموعہ ’’محامد‘‘ سے چند اشعار دیکھیے:
نعتِ رسولِ کریمؐ سوز وگداز و سرور
نعتِ رسولِ کریمؐ کیفِ شرابِ طہور
نعتِ رسولِ کریمؐ علم و خبر کا نزول
نعتِ رسولِ کریمؐ فکر و ہنر کا ظہور
خالد علیم کی نعت کا نمایاں ترین وصف سادگی ہے۔ وہ نعت کہتے ہوئے بے حد محتاط شاعرانہ رویہ اختیار کرتے ، ان کے نعتیہ کلام میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی جو آداب کے منافی ہو۔ انھوں نے اپنے نعتیہ کلام میں فنی پیرائے کا استعمال کرتے ہوئے اپنے نبی کریمؐ کے سچے اُمتی ہونے کا حق ادا کر دکھایا ہے۔
ان کی نعت گوئی کے حوالے سے خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ ’’ خالد علیم کی نعت میں جذبے، علم اور ریاضتِ فنی کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جو عجلت کے اس دور میں بہت کم یاب ہے۔ یہ ریاضتِ فنی ان کے ہاں حسب کے علاوہ نسب کا درجہ بھی رکھتی ہے کہ جس گھر میں ’’شاہنامہ بالا کوٹ‘‘ اور ’’ طلع البدر علینا‘‘ کا طلوع ہوا ہو، اتنی ریاضت تو اس کی فضا میں رچی ہوئی ہوتی ہے۔ ‘‘
خالد علیم نے نعت میں بعض نہایت سحر آفریں تجربے بھی کیے ہیں۔ پروفیسر جعفر بلوچ کے مطابق ’’ خالد علیم کی غیر معمولی قدرت کلام ہر ادب پرست قاری کو متاثرکرتی ہے، انھوں نے متعدد اساتذہ فن کی زمینوں اور متعدد مشہور و معروف قصیدوں یا شعری شاہکاروں کے تسلسل میں دادِ سخن دی ہے اور اپنے نقوش کمال کی آب و تاب کو کہیں مدھم نہیں ہونے دیا۔
وہ مشکل اورکم مروج زمینوں اور بحروں میں بھی بڑی کامیابی اور حیرت انگیز سہولت کے ساتھ تخلیق فن کی منزلیں قطع کرتے ہیں۔ انھوں نے مردف زمینوں میں بھی متوجہ کرنے والے شعر نکالے ہیں۔ پابند و آزاد فنی بنتیں ان کے وجدانی ریموٹ کنٹرول کے اشاروں کی فوری اور بلاتامل اطاعت کرتی ہیں، خالد علیم کی حمدیہ و نعتیہ رباعیاں بھی ایک شان رکھتی ہیں، رفعت فن اور تقدس موضوع کے حوالے سے یہ رباعیاں ہمیں رباعیات امجد حیدر آبادی کی یاد دلاتی ہیں۔‘‘
خالد علیم کا کمال یہ ہے کہ ان کے نعتیہ کلام کا لفظ لفظ روح میں اُترتا چلا جاتا ہے، لہو کے گنبد میں صدا لگاتا ہے، دماغ میں گھومتا، دل میں دھڑکتا نظر آتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنی تمام نعتوں میں محاسنِ کلام کا خاص خیال رکھا ہے۔ اس لیے معانی سے قطع نظر، فنی پہلو سے بھی ان کی نعتیں ، نعتیہ ادب کا ایک بیش بہا خزینہ ہیں۔
حضورؐ کی شان میں محبتوں کے گلدستے پیش کرنے والا یہ شاعر 10 فروری 2025 کے روز اپنے خالق سے ہمیشہ کے لیے جا ملے۔ ان کی وفات سے دنیائے ادب کی فضا تا دیر تک سوگوار رہے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خالد علیم کی کلام میں انھوں نے کی نعت
پڑھیں:
فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ !
انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اس عبادت کا اصل مفہوم صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ یا حج کے چند ظاہری اعمال نہیں بل کہ بندے کے دل و دماغ، نیت، فکر اور ارادے کی اصلاح بھی ہے جو کہ ’’اصلاحِ نفس‘‘ کے جامع عنوان میں سمٹتی ہے۔
اسلام صرف ظاہر پر زور دینے والا دین نہیں بل کہ وہ باطن کی صفائی، قلبی طہارت، نیت کی درستی اور شخصیت کی اندرونی تعمیر پر نہایت شدّت سے زور دیتا ہے۔ انسان کا نفس اگر سنور جائے، اس کے باطن میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو جائے تو اس کا ظاہر خود بہ خود سنور جاتا ہے۔ اس لیے قرآن و سنت میں اصلاحِ نفس کو دین کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کام یاب ہوگیا۔ اور بے شک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔‘‘ (سورۃ الشمس) اس آیت کریمہ میں کام یابی اور ناکامی کا مدار صرف تزکیۂ نفس پر رکھا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اپنے نفس کو گندگی سے پاک کرے، وہی اصل فلاح پانے والا ہے اور جو نفس کی خواہشات کا غلام بن جائے اور اس کے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہو جائے، وہ اﷲ کے ہاں ناکام و نامراد ہے۔
اصلاحِ نفس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جن تین بنیادی مقاصد کے لیے مبعوث فرمایا، ان میں سے ایک نمایاں مقصد تزکیہ ہے۔ فرمانِ الٰہی کا مفہوم ہے: ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ الجمعۃ)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کا مقصد صرف تعلیم نہیں بل کہ باطنی تطہیر بھی ہے، جس کے بغیر محض علم فائدہ نہیں دیتا۔ نبی کریم ﷺ نے اصلاحِ نفس کی عملی تعلیم اپنے صحابہؓ کو دی۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے، مفہوم: ’’خبردار! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا بدن صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ نفس کی اصلاح دل کی اصلاح پر موقوف ہے کیوں کہ دل ہی نیّت، ارادے اور فکر کا مرکز ہے اور اگر وہ فساد سے پاک نہ ہو تو ظاہری اعمال بے فائدہ ہو جاتے ہیں۔
اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نفسِ امّارہ ہے جو انسان کو برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے، مفہوم: ’’بے شک! نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے۔‘‘ (سورۃ یوسف) انسان جب تک اپنے نفس کی تربیت نہ کرے، وہ خواہشات کی غلامی میں مبتلا رہتا ہے جس کا نتیجا یہ نکلتا ہے کہ وہ اﷲ کی نافرمانی میں ڈوب جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس دراصل اس جہاد کا نام ہے جس میں بندہ اپنے اندرونی دشمن یعنی اپنے نفس کی مخالفت کرتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے تربیت کی بہت سی عملی صورتیں صحابہ کرامؓ کو سکھائیں۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں آکر عرض کیا: حضور ﷺ مجھے وصیت فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ (صحیح بخاری) یعنی غصہ بھی نفس کی ایک بڑی بیماری ہے جو آدمی کو ظلم، فحش گوئی اور فساد پر آمادہ کرتی ہے۔ نبی ﷺ کی تعلیم یہ تھی کہ نفس کو قابو میں رکھو، اپنے جذبات پر کنٹرول سیکھو اور دوسروں کو ایذا نہ دو۔ یہی اصلاحِ نفس ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اور نفس کی اور اس کے درست بنانے کی قسم، پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔‘‘ (سورۃ الشمس) یعنی انسان کے اندر نیکی اور بدی کا شعور فطری طور پر موجود ہے، اب اس پر لازم ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کر تقویٰ کی راہ اپنائے اور یہ وہی اصلاحِ نفس ہے جس کا حکم اﷲ نے دیا ہے۔
اصلاحِ نفس صرف عبادات کا نام نہیں بل کہ وہ ایک مسلسل جہاد ہے جس میں انسان اپنے اخلاق، اپنی نیت، اپنے معاملات، اپنے غصے، حسد، بخل، تکبر، ریا اور ہر اُس چیز سے لڑتا ہے جو اﷲ کی رضا سے دور کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘ (سنن ترمذی) یعنی جہاد انسان کے اندر بھی ہے، وہ نفس کے تقاضوں کو دبانا اور اﷲ کی رضا کو ترجیح دینا ہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ اصلاحِ نفس کے لیے سب سے پہلی شرط اخلاص ہے۔ بندہ جو بھی عمل کرے، محض اﷲ کے لیے کرے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث کی روشنی میں اگر انسان کے دل میں اﷲ کی رضا کی نیت ہو تو اس کا ہر عمل اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے اور اگر نیت خراب ہو تو بڑا عمل بھی ریاکاری بن جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس کی ایک بڑی علامت تواضع و انکساری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اﷲ کے لیے تواضع (عاجزی) اختیار کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے بلند مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ (مسند احمد) تکبر، نفس کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے۔ شیطان اسی غرور کا شکار ہُوا اور ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا۔ اس لیے انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کو عاجزی پر مجبور کرے تاکہ اﷲ کی رضا نصیب ہو۔
رسول اﷲ ﷺ کی سیرت اصلاحِ نفس کا مکمل نصاب ہے۔ آپ ﷺ کا ہر عمل، حکم اور ارشاد ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بندہ کس طرح اپنے باطن کو سنوارے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) اور خیر خواہی اسی وقت ممکن ہے جب انسان کا نفس صاف ہو، اس میں بغض، حسد، خود غرضی اور نفرت نہ ہو۔
اصلاحِ نفس کے لیے ذکرِ الٰہی، توبہ و استغفار اور صحبتِ صالحین کو انتہائی مؤثر ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ کو بہت زیادہ یاد کرو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) ذکرِ الٰہی نفس کو جِلا دیتا ہے، اس کی گندگی دھوتا ہے اور اسے اﷲ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی طرح توبہ بھی ایک باطنی غسل ہے جو انسان کو گناہوں کی غلاظت سے پاک کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر انسان خطا کرتا ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی) اسی طرح صحبتِ صالحین بھی اصلاحِ نفس کا مؤثر ذریعہ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) نیک لوگوں کی صحبت انسان کے باطن کو سنوارتی ہے اور بُرے لوگوں کی صحبت نفس کو مزید خراب کرتی ہے۔
اصلاحِ نفس ایک مسلسل جدوجہد ہے، یہ کوئی وقتی عمل نہیں۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں درکار ہے۔ عبادات میں اخلاص، معاملات میں دیانت، اخلاق میں حلم و بردباری، زبان میں سچائی، دل میں خوفِ خدا اور زندگی کے ہر فیصلے میں تقویٰ، نفس کی اصلاح کے بغیر دین کا کوئی شعبہ مکمل نہیں ہوتا۔
انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت، خاص طور پر رسول اﷲ ﷺ کی زندگی اصلاحِ نفس کی زندہ مثال ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف خود ہر مرحلے پر اپنے نفس کو اﷲ کی رضا کے تابع رکھا بل کہ صحابہ کرامؓ کو بھی ایسی تربیت دی کہ وہ اپنی خواہشات پر قابو پا سکیں۔ ’’اپنے نفوس کا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘ (سنن ترمذی)
الغرض یہ بات طے شدہ ہے کہ کام یابی کا راز نفس کی اصلاح میں ہے۔ دنیاوی فلاح، دینی پاکیزگی اور اخروی نجات کا دار و مدار اسی پر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! وہی کام یاب ہُوا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔‘‘ (سورۃ الاعلیٰ) لہٰذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں، اس کی بیماریوں کو پہچانیں، انھیں قرآن و سنت کے طریقے سے دور کریں اور اپنی زندگی کو تقویٰ، تواضع، اخلاص، ذکر اور توبہ سے بھر دیں۔ تبھی ہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں گے جن کے متعلق اﷲ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو خواہشات سے روکا تو جنت اس کا ٹھکانا ہے۔‘‘ (النازعات)
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی میں نفس کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور باطنی پاکیزگی کے ساتھ دنیا سے رخصت کرے تاکہ ہم جنّت کے ان وارثین میں شامل ہو سکیں جن کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے۔ آمین