صنعتی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے صنعتوں کو اضافی بجلی نیلام کرنے کا حکومت کا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
فیصل آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 مارچ ۔2025 )حکومت کا صنعتوں کو اضافی بجلی کی نیلامی کا منصوبہ صنعتی ترقی کو آگے بڑھا سکتا ہے، روزگار کے مواقع پیدا کر سکتا ہے اور معیشت کو بہتر کر سکتا ہے صنعت کار اعجاز احمد نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ بجلی کی سستی اور ہموار فراہمی تک رسائی کے بغیر کوئی بھی صنعت اپنی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی انہوں نے کہا کہ بجلی صنعتوں کے وجود بالخصوص پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے جان کی حیثیت رکھتی ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ، قومی اور بین الاقوامی سطح پر، چیلنجز مسلسل ابھر رہے ہیں اور قومیں گاہکوں کو موثر خدمات فراہم کرکے ان پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہم اب بھی قابل اعتماد اور سستی بجلی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں یہ قابل تعریف ہے کہ حکومت صنعتوں کو اضافی بجلی کی نیلامی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے یہ نقطہ نظر صنعت کاروں کے لیے اپنے کاروبار کو بڑھانے اور مزید ملازمتیں پیدا کرنے کے دروازے کھول دے گا. انہوں نے خبردار کیا، حکومت کو بجلی کی قیمتوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور سستی کو یقینی بنانا چاہیے حکومت کو قومی معیشت کو مضبوط کرنے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے صنعتی توسیع کے بغیر ہم مہنگائی اور بے روزگاری کا مقابلہ نہیں کر سکتے. انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ توانائی سے بھرپور ہے، اور یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ ان کے علاقائی کاروباری حریفوں کے برعکس وہ سستی بجلی کے حصول کے لیے کوشاں ہیں مہنگی بجلی برآمد کنندگان کے لیے بین الاقوامی منڈی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے جس سے وہ غیر مسابقتی ہیں ترقی یافتہ ممالک جدید ترین ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے لیے تمام راستے نکال رہے ہیں ہمارے صنعتکار بھی اپنے بین الاقوامی حریفوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہ حکومتی امداد کے بغیر ممکن نہیں. انہوں نے زور دے کر کہا کہ سستی بجلی انہیں عالمی مارکیٹ میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہے انہوں نے کہا کہ سستی بجلی حاصل کر کے سرمایہ کار صنعت میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دیں گے جس سے مینوفیکچرنگ کی سہولیات اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو گا ایک گارمنٹ ایکسپورٹر سلامت علی نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ حکومت صنعتی ترقی کو تیز کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ قرضوں پر انحصار کم کر سکے. انہوں نے کہا کہ سستی بجلی پیداوار اور مسابقت کو بڑھانے میں مدد دے گی انہوں نے اس حکمت عملی پر عمل درآمد کرتے وقت حکومت کی متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی اہمیت پر زور دیا انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی پالیسیاں بنا رہی ہے اور کاروباری برادری کو ان کے ان پٹ پر غور کیے بغیر ان پر عمل کرنے پر مجبور کر رہی ہے. انہوں نے کہا کہ یہ اوپر سے نیچے کا نقطہ نظر تباہی کا ایک نسخہ ہے جس سے تاجروں کے لیے اپنے خدشات کا اظہار کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے متبادل توانائی کے ذرائع پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جو کہ گرڈ سے منتقل ہونے والی بجلی کا بہترین متبادل نہیں ہیں گرڈ بجلی کے نرخ زیادہ ہیں، جس سے کاروباری برادری پر دباﺅپڑتا ہے. انہوں نے کہا کہ قیمتوں کا تعین کرنے کی حکمت عملی اور نیلامیوں کو کس حد تک موثر طریقے سے منظم کیا جاتا ہے اس منصوبے کی کامیابی کی کلید ہوگی اس کے علاوہ حکومت کے لیے مختلف شعبوں اور خطوں میں مساوی تقسیم کو یقینی بنانا بھی ایک مشکل کام ہوگا حاجی سلامت نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ وہ ملک اور اس کی معیشت کے بہترین مفاد میں کام نہیں کر رہے ہیں. انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ہائیڈل ہوا اور شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا ایک منصوبہ وضع کرے جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ نمایاں طور پر سستے متبادل ہیں انہوں نے اجارہ داری کے طریقوں کو روکنے اور مستقبل میں منصفانہ مسابقت کو یقینی بنانے کے لیے ایک ریگولیٹری فریم ورک قائم کرنے کی تجویز دی انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری فریم ورک تمام توانائی پیدا کرنے والوں کے لیے برابری کا میدان بنائے گا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ سستی بجلی پیدا کرنے کرنے کی پیدا کر بجلی کی رہے ہیں کے لیے رہی ہے کر رہی
پڑھیں:
حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-5
مجاہد چنا
جب آپ فطرتی ماحول ، قدرت کے فیصلوں اور پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ دریائی سیلاب جو کے پی اور پنجاب میں تباہی مچا رہے ہیں وہ بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بادل پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑوں سے آنے والے پنجاب میں راوی سمیت دریا ئی پانی کی گذرگاہوں پر زبردستی قبضے اور سوسائٹیز، مکانات، بنگلے، فارم ہاؤسز وغیرہ سمیت بڑی بڑی آبادیاں قائم کردینے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور جان و مال کے لحاظ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کے پی میں پیر بابا بونیر میں تباہی کی وجہ پانی کو روکنے والے درختوں کی کٹائی اور دوسری وجہ اس پانی کے راستے پر بستیوں کا قیام بھی بتایا جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوئی ہے۔ شاہراہ فیصل سے سعدی ٹاؤن تک پانی میں ڈوبنے اور شاہراہ بھٹو کے کچھ حصوں کے کٹاؤ کی بھی یہی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ ملیر ندی کے پیٹ میں شاہراہ بھٹو بنانے اور پھر دھیرے دھیرے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی سازش کئی دہائیوں کے بعد تیز بہنے والے پانی نے بالآخر ناکام بنا دی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سانپ گذرنے کے بعد لکیر پیٹے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد ہمارے ملک میں سیلاب، زلزلے اور قدرتی آفات آتی ہیں، لیکن ہر بار یہ صرف وقتی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور حکومت اور ادارے سو جاتے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی کہی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا، میڈیا اور ہمارا محکمہ موسمیات دریائی اور شہری سیلابوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے لیکن جو تباہی اور افراتفری ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف اشتہارات اور کرپشن کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب سرسے پانی چڑھا تو ہنگامی سرگرمیاں شروع کیں ، وہ بھی محض نمائشی! پنجاب حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ ڈوب رہے تھے تو وزیراعلیٰ محترمہ مریم بی بی سرکاری خرچ پر بڑی وفدکے ساتھ چین کے دورے پر گئی تھیں۔ پنجاب میں حکومتی امدادی سرگرمیوں کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار صرف تھیلے پر ہاتھ رکھ کر متاثرین کو خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں، دوسری میں ایک خاندان کو راشن کا تھیلا دیا جا رہا ہے جس میں آٹے میں نمک کے برابر سامان ہے، جب کہ متاثرین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف ٹی وی اینکر حامد میر کو بتایا کہ سرکاری ادارے 1122 کی امدادی کشتیاں لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے تیس سے پینتیس ہزار روپے فی شخص کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ یہ افسوسناک مناظر میڈیا میں آئے اور حامد میر نے بھی اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں دکھائے، کہاں ہے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے؟
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیلاب نے ہمیں 30 سال پیچھے کر دیا ہے اور 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نے ہماری تیس سال کی محنت برباد کر دی ہے۔ سیلاب نے سڑکیں، پل اور گاؤں تباہ کر دیے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں سندھ کے عوام کس تکلیف دہ صورتحال سے گزرے ہوں گے۔ اور ان دو سیلابوں نے سندھ کی ترقی کو کتنے سال پیچھے کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے پنجاب میں خریف کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 24 اضلاع میں ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں دہان کی 60 فیصد اورکپاس کی 35 فیصد فصل تباہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس میں باسمتی چاول کی فصل کا 20 فیصد بھی شامل ہے۔کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔
پنجاب کے بعد سندھ میں آنے والے سیلابی پانی نے سکھر، کشمور، خیرپور، دادو اور دیگر اضلاع میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے۔ کچی آبادیوں کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی! اگر سندھ حکومت بندوں کی مرمت سمیت بروقت حفاظتی اقدامات کرتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ گھر بنانے کے دعوے کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سیالکوٹ، گجرات، لاہور اور دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کی تسلی کی۔ میڈیا اورمتاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ یہ تباہی ظالموں کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ سیلاب کی تباہی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ بھارت کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد مریم بی بی حیران ہیں کہ گجرات میں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح 40 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پانی میرے گھر تک ٹینکرز کے ذریعے آتا ہے! یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر یں گے؟؟ انہوںنے سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر شدید مہنگائی، غذائی قلت اور زرعی بحران پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اشیائے خورونوش ، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔
گزشتہ 78 سالوں سے ملک میں اقتدار کے مزے لینے والا حکمران ٹولہ چاہے وہ سول ہو یا فوجی یا بیوروکریسی، اپنے کاروبار یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے توطویل المدتی منصوبے بناتا ہے، لیکن جس ملک نے انھیں عزت، شہرت اور دولت دی، اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر حکومت کرپشن سے پاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیلاب سے پہلے چوکس رہتی، بندوں کی صحیح مرمت اور تجاوزات کا خاتمہ ہوتا تو عوام کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نااہلی کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو سیلاب وبارش سے ہونے والی جانی ومالی تباہی سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ، زرعی اور ماحولیاتی ہنگامی حالات کے کھوکھلے اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لیے روڈ میپ اور فریم ورک کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے 2010-2022 کے سیلاب متاثرین اب بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ کچھ سکول عمارتوں سے محروم ہیں جبکہ کچھ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے بار بار کے اعلانات سے ہٹ کر متاثرین کی امداد وبحالی اور سندھ کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے۔
ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مسائل کے حل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہروں میں سیوریج کے نالوں پر تجاوزات، دریا کے قدرتی راستوں پر بنائے گئے طاقتور لوگوں کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور سوسائٹیز کو ختم کیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں فوری طور پر متبادل حل تیار کیا جائے۔ دریائی پشتوں کی مرمت اور سیم نالوں کی صفائی کے لیے جاری کی گئی رقم اور کام کا جائزہ لیا جائے۔ دریا اور بارشوں کے سیلاب سمیت قدرتی آفات کی صورت میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فعال اور مضبوط کیا جائے۔ حکومت الخدمت فاؤنڈیشن سمیت فلاحی خدمات کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے اور انہیں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ تمام متاثرین کو ریلیف اور بحالی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔