سویلینز کا ملٹری ٹرائل: یہ کوئی ہائیکورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بنچ کررہا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب میں دلائل جاری رکھے، سماعت کے آغاز میں ہی جسٹس محمد علی مظہر نے یاددہانی کرائی کہ خواجہ صاحب جواب الجواب مختصر ہوتے ہیں، جو پوائنٹس پہلے کور نہیں کر سکے اور مخالف وکلا کی جانب سے اٹھائے گئے اس پر معاونت کریں۔
یہ بھی پڑھیں: ’آرمی ایکٹ سویلین کا ٹرائل کرنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا‘، ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت ملتوی
جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ مخالف وکلا نے فیصلے پر دلائل نہیں دیے، بنیادی طور پر چار پوائنٹس ہیں جو مخالف وکلا کی جانب سے اٹھائے گئے، مخالفین نے آرٹیکل 61,175,245 اور فیئر ٹرائل پر دلائل دیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ عدالتیں آرٹیکل 175 کے تحت بنیں، بتائیں کیا یہ عدالت بھی اس کے تحت بنیں، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ کوئی ایسا فورم ہے جو 175کے تحت نہ بنا ہو اور وہ سویلین کا ٹرائل کر سکتے ہوں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے وزارت دفاع سے سویلینز کے اب تک ہونے والے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب کرلیں
جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف کے وکلا نے کہا انٹرا کورٹ اپیل کا دائرہ محدود ہے، نیا آئینی بینچ مقدمہ سن رہا ہے تمام میرٹس زیر بحث آسکتے ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ یہ آئینی بینچ ہے کوئی ہائیکورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہوگا۔
وکیل خواجہ حارث کا موقف تھا کہ آئینی بینچ تو اپیل میں کیس واپس بھی بھیج سکتا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہم مرکزی فیصلے سے اتفاق بھی کر لیں تو اپنی رائے الگ سے دے سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: سپریم کورٹ کا کسی پارٹی کے دلائل پر انحصار لازمی نہیں ہوتا، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
خواجہ حارث نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں آرٹیکل 6 کی شق 3 کے تحت بنیادی حقوق کی بات نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 6 کی شق 3 میں بنیادی حقوق مستثنیٰ کر دیے گئے ہیں، آرٹیکل 6 کی شق 3 میں نہیں آتا، اگر آتا ہوتا تو بنیادی حقوق ملتے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اگر بنیادی حقوق متاثر ہوتے تو آرٹیکل 6 کی شق نمبر 1 میں آتا، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ وہ کسی مخصوص ٹرم کے لیے کہہ رہے ہیں، خواجہ حارث کے مطابق یہ آرڈیننس اس مقصد کے لیے نہیں بنائے گئے تھے جس کا ذکر آرٹیکل 6 کی ذیلی شق 3 میں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ ایف بی علی کیس بنیادی حقوق جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر خواجہ حارث سپریم کورٹ سویلینز ملٹری ٹرائل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایف بی علی کیس بنیادی حقوق جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر خواجہ حارث سپریم کورٹ سویلینز ملٹری ٹرائل جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 6 کی شق بنیادی حقوق ملٹری ٹرائل خواجہ حارث سپریم کورٹ جسٹس جمال کے لیے کے تحت
پڑھیں:
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایک ہی طرز کے مبینہ پولیس مقابلوں پر سوالات اٹھادیے
لاہور ہائیکورٹ میں سی سی ڈی کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے فرحت بی بی کی درخواست پر سماعت کی، عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ غضنفر حسن کو پولیس مقابلے میں مارا گیا، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ دیکھتے ہیں آئی جی پنجاب کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سی سی ڈی کے آنے کے بعد ایک ہی طرز کے پولیس مقابلے ہورہی ہیں، درخواست گزار کا ایک بیٹا تو مارا گیا دوسرے کے تحفظ کے لیے آئے ہیں۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ وکیل صاحب عدالت میں جذباتی باتیں نہیں ہوتیں، ریکوری کے بعد ملزم کو لیجاتے ہوئے گاڑی پنکچر ہوئی تو ساتھیوں نے حملہ کردیا، یہ پولیس کی رپورٹ ہے، آئی جی کو اس لیے بلایا گیا کہ ایس ایچ او عدالت کو مطمئن نہ کر سکا، اب جب رپورٹ آئی ہے تو سارا کیس مختلف نکلا۔
چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کیا کہ فائرنگ اگر گاڑی پر ہورہی ہے تو فائر سیدھا ملزم کو لگتا ہے، نہ گاڑی پر نہ کانسٹیبل کو لگتا ہے اس لیے آپ کو بلایا گیا، اب آپ نے جو رپورٹ پیش کی ہے تو حقائق مختلف ہیں، ایک ،ایک دن میں 50 ,50 درخواستیں آرہی ہیں کہ جعلی مقابلے ہورہے ہیں۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے آئی جی کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا اور آئی جی پنجاب کو سی سی ڈی کے پولیس مقابلوں کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ اس وقت سی سی ڈی کے پولیس مقابلوں کی جو لہر چل رہی ہے اس کا جائزہ لیں، مبینہ پولیس مقابلوں کے خلاف ایک ایک روز میں 50 درخواستیں ا رہی ہیں، پولیس افسران کے ساتھ بیٹھ کر اس کا جائزہ لیں تاکہ آئندہ جعلی پولیس مقابلے سامنے نہ آئیں۔