آہ۔۔۔۔۔ قاضی غلام شبیر علوی
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: جب قاضی صاحب مقررہ تاریخ پر تشریف لائے اور انکی زیارت ہوئی تو وہ ڈیل ڈول، ریش، لباس اور حلیے سے کسی طرح بھی ایک شیعہ عالم نہیں لگتے تھے، لیکن مجلس سے پہلے اور بعد جتنی دیر ہمارے پاس رہے، اپنی گفتگو اور انتہائی مشفقانہ رویئے کیوجہ سے محفل میں بیٹھے افراد کے دل و دماغ پر چھاتے چلے گئے۔ ایک ایک جملے کیساتھ دس دس دعائیں دیتے تو پاس بیٹھے افراد کا دل چاہتا کہ کاش محفل جمی ہی رہے اور قاضی صاحب بولتے اور دعائیں دیتے ہی رہیں۔ 1996ء کی یہ مجلس قاضی صاحب کو ہمارے گاؤں کی سالانہ مرکزی مجلس کا حصہ بنا گئی اور وہ ایک طویل عرصے تک پڑھتے رہے۔ تحریر: محمد اشفاق شاکر
سرو صنوبر شہر کے مرتے جاتے ہیں
سارے پرندے ہجرت کرتے جاتے ہیں
گذشتہ کل سے پیوستہ شب میں ملتان سے گلستانِ گلاب سے قبلہ علامہ سید علی رضا نقوی کی موت کی خبر ملی کہ جن کی۔ نماز جنازہ کل سہ پہر ملتان میں ان کے بھائی جناب علامہ سید محمد تقی نقوی کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد جامعہ محزن العلوم جعفریہ شیعہ میانی ملتان میں ان کے والد بزرگوار کے پہلو میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ابھی ان کی تدفین کی پہلی رات تھی کہ ملتان سے ہی ایک اور افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ قبلہ علامہ قاضی غلام شبیر علوی بھی اس دارالافتاء سے کوچ کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قاضی غلام شبیر علوی صاحب نہ صرف ایک بزرگ عالم دین، ایک شفیق انسان، ڈوب کر دعا کرنے والے مخلص مربی اور بہترین استاد تھے بلکہ وہ روانی سے مدلل اور بھرپور گفتگو کرنے والے انتہائی شیریں بیاں ایسے مقرر بھی تھے، کہ جن کی گفتگو سننے والوں کو خود میں جذب کر لیتی تھی۔
قبلہ قاضی غلام شبیر علوی صاحب کا ہر مجلس کی ابتدا میں بولا جانے والا یہ بہت خوبصورت، ٹھوس اور مدلل جملہ نہ صرف ان کی پہچان بن چکا تھا بلکہ ان کے سامعین میں زباں زدِ عام بھی تھا فرمایا کرتے تھے "ابتدائے کلام میں قاضی غلام شبیر حسین نے قرآن مجید کی آیت مبارکہ اور نبی رحمت کے فرمان ذیشان کو اس لیے تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے، تاکہ اپنے شیعہ سنی بھائیوں کو بتا دے کہ مذہب شیعہ، اثناء عشریہ، خیرالبریہ کسی کے تصورات و تخیلات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ عظیم مذہب ہے، جس کی بنیاد اللہ کے قرآن پر ہے یا مصطفیٰ کے فرمان پر ہے۔؟" میرا قبلہ قاضی غلام شبیر علوی صاحب سے پہلا تعارف اس وقت ہوا، جب وہ 1996ء میں ہمارے گھر میری ہمشیرہ مرحومہ کی برسی پر ایصال ثواب کی مجلس پڑھنے تشریف لائے۔ ان کو مجلس کی دعوت جنڈ سے ہمارے مرحوم دوست ملک غلام شبیر کے توسط سے دی گئی تھی۔
جب قاضی صاحب مقررہ تاریخ پر تشریف لائے اور ان کی زیارت ہوئی تو وہ ڈیل ڈول، ریش، لباس اور حلیے سے کسی طرح بھی ایک شیعہ عالم نہیں لگتے تھے، لیکن مجلس سے پہلے اور بعد جتنی دیر ہمارے پاس رہے، اپنی گفتگو اور انتہائی مشفقانہ رویئے کی وجہ سے محفل میں بیٹھے افراد کے دل و دماغ پر چھاتے چلے گئے۔ ایک ایک جملے کے ساتھ دس دس دعائیں دیتے تو پاس بیٹھے افراد کا دل چاہتا کہ کاش محفل جمی ہی رہے اور قاضی صاحب بولتے اور دعائیں دیتے ہی رہیں۔ 1996ء کی یہ مجلس قاضی صاحب کو ہمارے گاؤں کی سالانہ مرکزی مجلس کا حصہ بنا گئی اور وہ ایک طویل عرصے تک پڑھتے رہے۔ میرے والد محترم جو سنی العقیدہ تھے، قاضی صاحب ان کے بھی پسندیدہ عالم بن گئے اور وہ ہر سال محرم الحرام میں باقاعدہ پوچھتے کہ قاضی صاحب کو بلا رہے ہو یا نہیں، یوں ان کی خواہش پر قبلہ قاضی صاحب ایک طویل عرصے تک ہمارے ہاں 5 محرم الحرام کی سالانہ مجلس سے خطاب فرماتے رہے۔
پھر ایک طویل وقفہ یوں آگیا کہ قاضی صاحب کچھ تو مدرسے کے کاموں میں مصروف ہوگئے اور کچھ عشرہ محرم الحرام کی مجالس ہمارے علاقے سے دور پڑھنے لگے تو ہمارے ہاں نہ آسکے۔ ابھی چند سال پہلے ایک بار پھر میں نے رابطہ کیا تو فرمانے لگے کہ میں بیمار بھی ہوں اور مجھے رات 12 بجے مجلس کے بعد لگاتار سفر بھی کرنا پڑے گا، لیکن آپ کی محبت ہے، میں ان شاء اللہ آنے کی پوری کوشش کروں گا اور پھر تشریف لائے، یہ آخری ملاقات تھی۔ دورِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت اتحاد بین المسلمین ہے اور قبلہ صاحب جیسے انتہائے شفیق اور محبت کرنے والے انسان اس مقدس کام کے لیے ہروقت میدان عمل میں موجود رہتے۔ جب تک صحت ٹھیک تھی تو حج و عمرہ اور زیارات پر قافلے لے کر جاتے تھے تو ان کے قافلوں میں برادران اہل سنت بھی اسی چاہ اور محبت سے ہمسفر بنتے۔
جس کی ایک مثال ہمارے قریبی گاؤں ناڑہ (ڈاکٹر سید راشد عباس نقوی کا آبائی گاؤں ہے) سے محترم جناب عطا رسول صاحب اور ان کے ساتھیوں کا قافلہ تھا، جو کئی سالوں بعد ابھی بھی اس سفر کے دوران قاضی صاحب کی محبت و شفقت کو یاد کرتے ہیں۔ پچھلے سال سوشل میڈیا امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ڈویژنل کنونشن میں دیکھا اور گفتگو سنی تو حوصلہ ہوا کہ ماشاء اللہ قبلہ صاحب کی صحت ٹھیک ہے، لیکن پھر وقتاً فوقتاً ملی جلی خبریں آتی رہیں، کبھی ہسپتال کبھی گھر اور بالآخر آج بارگاہ خداوندی میں منتقل ہوگئے۔
خاموش ہوگیا اک چمن بولتا ہوا
یہ درویش صفت انسان صرف کہنے کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں فقیر انسان تھے اور مجالس میں بھی کہا کرتے تھے کہ مجھ فقیر کی نیاز دو نعرے ہیں، کتنا جچتا تھا۔
ان کی زباں پر یہ جملہ کہ امیر المومنین، امام المتقین، لنگرِ آسمان و زمیں علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور کبھی کبھی جھومتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ
کیسے کہہ دوں میں علی (ع) کو مولائے کائنات
بڑا ہے نامِ علی کائنات چھوٹی ہے
اور آج جب آخری لمحات کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے کہ جس میں مطمئن چہرے کے ساتھ اپنے چاہنے والوں کو ہاتھ ہلا کر الوداع کر رہے ہیں تو بالکل ایسے لگ رہا ہے کہ اپنے مولا علیہ السلام کی زیارت کرتے ہوئے اپنے گرد موجود عزیز و اقارب کو کہہ رہے ہیں خدا حافظ
میں چلا ہوں علی (ع) سے ملاقات کو
جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آگئی
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قاضی غلام شبیر علوی دعائیں دیتے بیٹھے افراد تشریف لائے ایک طویل اور ان ہے اور
پڑھیں:
صادقین سے مراد آل محمد (ص) ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
جیکب آباد میں عوام گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ سانحہ شب عاشور جیکب آباد کی دسویں برسی کے موقع پر عظیم الشان عظمت شہداء کانفرنس اور لبیک یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ریلی منعقد کی جائیگی۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ دین اسلام کی راہ میں بے مثال قربانیوں سے عبارت ہے۔ قرآن مجید نے ہمیں سچوں کے ساتھ ساتھ رہنے کا حکم دیا۔ صادقین سے مراد آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یہ بات انہوں نے جیکب آباد میں پھول باغ محلہ میں ذوالفقار علی ڈومکی اور استاد محمد بخش ڈومکی کی والدہ محترمہ کے سوئم کی مناسبت سے مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امام علی علیہ السلام صدیق اکبر ہیں جو معیارِ حق و صداقت ہیں۔ پیغمبر اسلام (ص) نے آپؑ کو صدیقِ اکبر اور فاروقِ اعظم کا لقب عطا فرمایا۔ حدیث نبوی (ص) کی روشنی میں امت کی ہدایت کا واحد راستہ قرآن مجید اور آئمہ اہل البیت علیہ السلام سے تمسک ہے، کیونکہ اہل البیت (ع) ہی کشتی نجات، چراغِ ہدایت اور بابُ حطہ ہیں۔
قبل از ایں چنہ محلہ میں مومنین سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے اعلان کیا کہ 23 اکتوبر کو شہدائے سانحہ شب عاشور جیکب آباد کی دسویں برسی کے موقع پر عظیم الشان عظمت شہداء کانفرنس اور لبیک یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ریلی منعقد کی جائے گی، جس میں علمائے کرام، وارثان شہداء اور مختلف سیاسی، سماجی و مذہبی رہنماء شریک ہوں گے۔ برسی شہداء کے موقع پر مقتل شہداء پر شمع روشن کر کے شہدائے سانحہ شب عاشور کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سالانہ عظمت شہداء کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شعبہ عزاداری ونگ کے مرکزی صدر علامہ سید اقتدار حسین نقوی، ایمپلائز ونگ کے مرکزی صدر سلیم عباس صدیقی سمیت دیگر مرکزی و صوبائی رہنماء شریک ہوں گے۔