Islam Times:
2025-07-04@19:29:04 GMT

 آہ۔۔۔۔۔ قاضی غلام شبیر علوی

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

 آہ۔۔۔۔۔ قاضی غلام شبیر علوی

اسلام ٹائمز: جب قاضی صاحب مقررہ تاریخ پر تشریف لائے اور انکی زیارت ہوئی تو وہ ڈیل ڈول، ریش، لباس اور حلیے سے کسی طرح بھی ایک شیعہ عالم نہیں لگتے تھے، لیکن مجلس سے پہلے اور بعد جتنی دیر ہمارے پاس رہے، اپنی گفتگو اور انتہائی مشفقانہ رویئے کیوجہ سے محفل میں بیٹھے افراد کے دل و دماغ پر چھاتے چلے گئے۔ ایک ایک جملے کیساتھ دس دس دعائیں دیتے تو پاس بیٹھے افراد کا دل چاہتا کہ کاش محفل جمی ہی رہے اور قاضی صاحب بولتے اور دعائیں دیتے ہی رہیں۔ 1996ء کی یہ مجلس قاضی صاحب کو ہمارے گاؤں کی سالانہ مرکزی مجلس کا حصہ بنا گئی اور وہ ایک طویل عرصے تک پڑھتے رہے۔ تحریر: محمد اشفاق شاکر

سرو صنوبر شہر کے مرتے جاتے ہیں
سارے پرندے ہجرت کرتے جاتے ہیں
گذشتہ کل سے پیوستہ شب میں ملتان سے گلستانِ گلاب سے قبلہ علامہ سید علی رضا نقوی کی موت کی خبر ملی کہ جن کی۔ نماز جنازہ کل سہ پہر ملتان میں ان کے بھائی جناب علامہ سید محمد تقی نقوی کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد جامعہ محزن العلوم جعفریہ شیعہ میانی ملتان میں ان کے والد بزرگوار کے پہلو میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ابھی ان کی تدفین کی پہلی رات تھی کہ ملتان سے ہی ایک اور افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ قبلہ علامہ قاضی غلام شبیر علوی بھی اس دارالافتاء سے کوچ کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قاضی غلام شبیر علوی صاحب نہ صرف ایک بزرگ عالم دین، ایک شفیق انسان، ڈوب کر دعا کرنے والے مخلص مربی اور بہترین استاد تھے بلکہ وہ روانی سے مدلل اور بھرپور گفتگو کرنے والے انتہائی شیریں بیاں ایسے مقرر بھی تھے، کہ جن کی گفتگو سننے والوں کو خود میں جذب کر لیتی تھی۔

قبلہ قاضی غلام شبیر علوی صاحب کا ہر مجلس کی ابتدا میں بولا جانے والا یہ بہت خوبصورت، ٹھوس اور مدلل جملہ نہ صرف ان کی پہچان بن چکا تھا بلکہ ان کے سامعین میں زباں زدِ عام بھی تھا فرمایا کرتے تھے "ابتدائے کلام میں قاضی غلام شبیر حسین نے قرآن مجید کی آیت مبارکہ اور نبی رحمت کے فرمان ذیشان کو اس لیے تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے، تاکہ اپنے شیعہ سنی بھائیوں کو بتا دے کہ مذہب شیعہ، اثناء عشریہ، خیرالبریہ کسی کے تصورات و تخیلات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ عظیم مذہب ہے، جس کی بنیاد اللہ کے قرآن پر ہے یا مصطفیٰ کے فرمان پر ہے۔؟" میرا قبلہ قاضی غلام شبیر علوی صاحب سے پہلا تعارف اس وقت ہوا، جب وہ 1996ء میں ہمارے گھر میری ہمشیرہ مرحومہ کی برسی پر ایصال ثواب کی مجلس پڑھنے تشریف لائے۔ ان کو مجلس کی دعوت جنڈ سے ہمارے مرحوم دوست ملک غلام شبیر کے توسط سے دی گئی تھی۔

جب قاضی صاحب مقررہ تاریخ پر تشریف لائے اور ان کی زیارت ہوئی تو وہ  ڈیل ڈول، ریش، لباس اور حلیے سے کسی طرح بھی ایک شیعہ عالم نہیں لگتے تھے، لیکن مجلس سے پہلے اور بعد جتنی دیر ہمارے پاس رہے، اپنی گفتگو اور انتہائی مشفقانہ رویئے کی وجہ سے محفل میں بیٹھے افراد کے دل و دماغ پر چھاتے چلے گئے۔ ایک ایک جملے کے ساتھ دس دس دعائیں دیتے تو پاس بیٹھے افراد کا دل چاہتا کہ کاش محفل جمی ہی رہے اور قاضی صاحب بولتے اور دعائیں دیتے ہی رہیں۔ 1996ء کی یہ مجلس قاضی صاحب کو ہمارے گاؤں کی سالانہ مرکزی مجلس کا حصہ بنا گئی اور وہ ایک طویل عرصے تک پڑھتے رہے۔ میرے والد محترم جو سنی العقیدہ تھے، قاضی صاحب ان کے بھی پسندیدہ عالم بن گئے اور وہ ہر سال محرم الحرام میں باقاعدہ پوچھتے کہ قاضی صاحب کو بلا رہے ہو یا نہیں، یوں ان کی خواہش پر قبلہ قاضی صاحب ایک طویل عرصے تک ہمارے ہاں 5 محرم الحرام کی سالانہ مجلس سے خطاب فرماتے رہے۔

پھر ایک طویل وقفہ یوں آگیا کہ قاضی صاحب کچھ تو مدرسے کے کاموں میں مصروف ہوگئے اور کچھ عشرہ محرم الحرام کی مجالس ہمارے علاقے سے دور پڑھنے لگے تو ہمارے ہاں نہ آسکے۔ ابھی چند سال پہلے ایک بار پھر میں نے رابطہ کیا تو فرمانے لگے کہ میں بیمار بھی ہوں اور مجھے رات 12 بجے مجلس کے بعد لگاتار سفر بھی کرنا پڑے گا، لیکن آپ کی محبت ہے، میں ان شاء اللہ آنے کی پوری کوشش کروں گا اور پھر تشریف لائے، یہ آخری ملاقات تھی۔ دورِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت اتحاد بین المسلمین ہے اور قبلہ صاحب جیسے انتہائے شفیق اور محبت کرنے والے انسان اس مقدس کام کے لیے ہروقت میدان عمل میں موجود رہتے۔ جب تک صحت ٹھیک تھی تو حج و عمرہ اور زیارات پر قافلے لے کر جاتے تھے تو ان کے قافلوں میں برادران اہل سنت بھی اسی چاہ اور محبت سے ہمسفر بنتے۔

جس کی ایک مثال ہمارے قریبی گاؤں ناڑہ (ڈاکٹر سید راشد عباس نقوی کا آبائی گاؤں ہے) سے محترم جناب عطا رسول صاحب اور ان کے ساتھیوں کا قافلہ تھا، جو کئی سالوں بعد ابھی بھی اس سفر کے دوران قاضی صاحب کی محبت و شفقت کو یاد کرتے ہیں۔ پچھلے سال سوشل میڈیا امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ڈویژنل کنونشن میں دیکھا اور گفتگو سنی تو حوصلہ ہوا کہ ماشاء اللہ قبلہ صاحب کی صحت ٹھیک ہے، لیکن پھر وقتاً فوقتاً ملی جلی خبریں آتی رہیں، کبھی ہسپتال کبھی گھر اور بالآخر آج بارگاہ خداوندی میں منتقل ہوگئے۔
خاموش ہوگیا اک چمن بولتا ہوا
یہ درویش صفت انسان صرف کہنے کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں فقیر انسان تھے اور مجالس میں بھی کہا کرتے تھے کہ مجھ فقیر کی نیاز دو نعرے ہیں، کتنا جچتا تھا۔

ان کی زباں پر یہ جملہ کہ امیر المومنین، امام المتقین، لنگرِ آسمان و زمیں علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور کبھی کبھی جھومتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ
کیسے کہہ دوں میں علی (ع) کو مولائے کائنات
بڑا ہے نامِ علی کائنات چھوٹی ہے
اور آج جب آخری لمحات کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے کہ جس میں مطمئن چہرے کے ساتھ اپنے چاہنے والوں کو ہاتھ ہلا کر الوداع کر رہے ہیں تو بالکل ایسے لگ رہا ہے کہ اپنے مولا علیہ السلام کی زیارت کرتے ہوئے اپنے گرد موجود عزیز و اقارب کو کہہ رہے ہیں خدا حافظ
میں چلا ہوں علی (ع) سے ملاقات کو
جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آگئی

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: قاضی غلام شبیر علوی دعائیں دیتے بیٹھے افراد تشریف لائے ایک طویل اور ان ہے اور

پڑھیں:

آسان دین کو مشکل بنانے والے کون؟

دین اسلام واقعتا بڑا آسان دین و مذہب اور انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار بھی ہے، اور یہ بات صدرمملکت،وزیر اعظم ،آرمی چیف،چیف جسٹس سے لے کر سیکولر شدت پسند کالم نگاروں ،تجزئیہ کاروں،ملحد اینکروں اور اینکرنیوں کی فوج ظفر موج تک کی طرف سے قوم کو بار بار بتائی بھی جاتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس آسان ترین مذہب کے خوبصورت احکامات پر یہ خود کتنا عمل کرتے ہیں؟اس لئے میرا یہ دعویٰ ہے کہ دین کو مشکل مولویوں نے نہیں،بلکہ دینی احکامات پر عمل نہ کرنے والی اشرافیہ لنڈے کے لبرلز اور ملک میں طاقتور سمجھی جانے والی قوتوں نے بنایا ہے ، آئیے پڑہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات ہیں کیا؟حضرت ابو رمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص کسی کو ضرر پہنچائے، اللہ تعالیٰ اس کو ضرر پہنچائیں گے اور جو شخص دوسروں پر مشقت ڈالے اللہ تعالیٰ اس پر مشقت ڈالیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ملعون ہے وہ شخص جوکسی مومن کو نقصان پہنچائے یا اس کیخلاف کوئی سازش کرے۔حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کے گھر میں بکری ذبح کی گئی‘حضرت عبداللہ گھر تشریف لائے تو فرمایا؟ تم لوگوں نے ہمارے یہودی ہمسائے کو بھی گوشت بھیجا کہ نہیں؟ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جبریل علیہ السلام مجھے ہمسائے کے بارے میں ہمیشہ وصیت وتاکید فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ اسے وارث بنا کے چھوڑیں گے۔
حضرت عائشہ ام المومنین صدیقہ بنت صدیقؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جبریل علیہ السلام مجھے ہمسائے کے بارے میں ہمیشہ (حسن سلوک کی)وصیت وتاکید فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ اس کو وارث بنا دیں گے۔تشریح: یعنی ہمسائے کے حقوق کے بارے میں اتنی تاکید فرماتے رہے کہ مجھے گمان ہوا کہ جس طرح کسی شخص کے مرنے پر اس کے عزیز واقارب وارث ہوتے ہیں اسی طرح ہمسائے کو بھی وارث نہ بنادیا جائے، اس حدیث سے ہمسائے کے حقوق کی حفاظت میں مبالغہ مقصود ہے۔ ہمسایہ عموما ًاس شخص کو کہا جاتا ہے جس کا گھر اس کے گھر سے ملا ہوا ہو، ہمسائے کا لفظ مسلم اور کافر، عابد اور فاسق، دوست اور دشمن، اجنبی اور شہری، عزیز واقارب اور اجنبی سب کو شامل ہے اور حسب مراتب ہر ہمسائے کے حقوق کی نگہداشت لازم ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ پڑوسی تین قسم کے ہیں، ایک وہ ہے جس کا ایک ہی حق ہے اور وہ کافر ومشرک ہمسایہ ہے جس کے ساتھ قرابت کا کوئی تعلق نہ ہو، اس کا صرف ایک ہی حق ہے یعنی ہمسائیگی کا حق اور ایک وہ ہے جس کے دو حق ہیں، یہ مسلمان ہمسایہ ہے اس کا ایک حق ہمسائیگی کا ہے، دوسرا اسلام کا اور ایک وہ ہے جس کے تین حق ہیں، یہ وہ مسلمان ہے جو رشتہ دار بھی ہو، اس کا ایک حق ہمسائیگی کا ہے، دوسرا اسلام کا اور تیسرا قرابت کا۔شیخ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’ہمسائے کی نگہداشت کمال ایمان میں سے ہے، اہل جاہلیت بھی اس کی نگہداشت کرتے تھے اور ہمسائے کے بارے میں جو وصیت فرمائی گئی ہے اس کی تعمیل اس طرح ممکن ہے کہ حسب طاقت اس کے ساتھ نوع درنوع حسن سلوک کیا جائے، مثلا ہدیے دینا، سلام کہنا، بوقت ملاقات خندہ پیشانی سے پیش آنا، اس کی خبر گیری کرنا اور جن چیزوں کی اس کو ضرورت ہو ان میں اس کی مدد کرنا اور اس نوعیت کے دوسرے امور۔ نیز ہمسائے کی ایذا کے اسباب کی مختلف قسمیں ہو سکتی ہیں حسی بھی اور معنوی بھی۔ ان تمام اسباب ایذا سے باز رہنا اور آنحضرتﷺ نے اس شخص سے ایمان کی نفی فرمائی ہے جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو اور اس بارے میں ایسا مبالغہ فرمایا ہے جس سے ہمسائے کے حق کی عظمت کا پتہ چلتا ہے اور یہ کہ ہمسائے کو نقصان پہنچانا کبیرہ گناہوں میں شامل ہے اور ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں نیک اور برے ہمسائے کی حالت میں فرق ملحوظ رہے گا۔‘‘ ۔حضرت ابو ذر غفاری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا(یہ غلام اور نوکر)تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے زیردست بنادیا ہے۔ پس جس کا بھائی اس کے زیردست ہو اسے چاہئے کہ اس کو اپنے کھانے میں سے کھلائے اور اپنے لباس میں سے پہنائے اور اس کے ذمہ ایسا کام نہ لگائے جو اس کی ہمت سے زیادہ ہو، پس اگر اس کی ہمت سے زیادہ کام اس کے ذمہ لگادیا تو اس کی مدد کرے۔تشریح: اس حدیث کے ساتھ حضرت ابوذر غفاریؓ نے اپنا قصہ بھی بیان فرمایا ہے، موردبن سوید کہتے ہیں میں ربذہ میں حضرت ابوذرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھا کہ انہوں نے ایک حلہ پہن رکھا ہے اور ٹھیک ویسا ہی حلہ اپنے غلام کو پہنا رکھا ہے، میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میری ایک غلام کے ساتھ تلخ کلامی ہوگئی تھی، میں نے اس کو ماں کا طعنہ دیا، آنحضرتﷺ نے فرمایا!ابوذرؓ تجھ میں جاہلیت پائی جاتی ہے، تو نے اس کو ماں کا طعنہ دے ڈالا؟آگے وہی ارشاد ہے جو اوپر آچکا(صحیح بخاری ومسلم) اس حدیث میں جو فرمایا گیا ہے کہ ان کو وہی کھلائو، جو خود کھاتے ہو اور وہی پہنائو جو خود پہنتے ہو، یہ حکم استحباب پر محمول ہے۔حضرت ابوبکرصدیقؓ آنحضرتﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جو اپنے غلاموں اور ماتحتوں سے بدسلوکی کرنے والا ہو۔تشریح:غلاموں اور ماتحتوں سے بدسلوکی کرنا اور ان کو مارنا پیٹنا نحوست اور ہلاکت کا موجب ہے جیسا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا برکت وسعادت اور جنت کا موجب ہے۔ ابن ماجہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ’’غلام کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘تو صحابہؓ نے عرض کیا، یارسول اللہ!کیا آپﷺ نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ اس امت میں غلام اور یتیم پہلی امتوں کی بہ نسبت زیادہ ہوں گے؟ (اور عموماً غلام لونڈیوں سے لوگ اچھا سلوک نہیں کیا کرتے، اب اگر ان سے بدسلوکی جنت سے محرومی کا ذریعہ ہے تو اس امت کے زیادہ لوگ دوزخ میں جائیں گے(فرمایا، ہاں)! اس امت میں غلام اور یتیم تو ساری امتو ںسے زیادہ ہوں گے،اس لئے تم ان سے ایسا شریفانہ برتائو کرو جیسا کہ اپنی اولاد سے کرتے ہو اور ان کو وہی کچھ کھلائو جو خود کھاتے ہو، صحابہ نے عرض کیا، پس ہمیں کون سی چیز دنیا میں نفع دے گی؟ فرمایا وہ گھوڑا جس کو تم اس مقصد کے لئے رکھو کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو اور تمہارا غلام تم کو کافی ہے اور جب وہ نماز پڑھے تو تمہارا بھائی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آسان دین کو مشکل بنانے والے کون؟
  • قاضی احمد ،شراب خانے سے کی جانے والی فائرنگ کیخلاف کوئی مقدمہ درج نہ ہوسکا
  • وفاق میں شامل تمام قومی وحدتوں کے عوام علیحدگی پسند نہیں،کمیونسٹ پارٹی
  • آہنگِ قرآن،الفاظ کا درو بست
  • پانچ جولائی ایک تاریخ
  • کربلا حق کی خاطر کسی بھی ظالم قوت سے ٹکراجانے کا نام ہے، علامہ شبیر حسن میثمی
  • قاضی احمد ،شراب خانے عوام کیلیے وبال جان بن گئے ہیں
  • آپ انکوائری کا سامنا نہیں کریں گے تو مشکلات ہوں گی: عدالتی ریمارکس
  • شبیر شاہ کی رہائی کے لیے ڈی ایف پی کی پاکستانی سیاسی قیادت سے مدد کی اپیل
  • لاہور اور کراچی کی شاندار تقریبات