Express News:
2025-07-02@04:25:45 GMT

لاہور اور کراچی کی شاندار تقریبات

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

بہت سے دوستوں کا اصرار تھا کہ یومِ اقبال کے سلسلے میں لاہور اور کراچی میں منعقد ہونے والی تقریبات کا احوال قارئین تک ضرور پہنچنا چاہیے۔ کچھ ناگزیر وجوہات کی بناء پر تاخیر تو ہوچکی مگر اب ان کا ذکر سن لیجیے۔

پچھلے سال نومبر میں جب علّامہ اقبال کونسل نے مفکّرِ پاکستان حضرت علاّمہ اقبالؒ کی یاد میںتقریب منعقد کرنے کے لیے الحمراء آرٹس کونسل کا ہال نمبر۱ بک کرایا تو بہت سے دوستوں نے تحفّظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو موسم ناخوشگوار ہے اور اوپر سے آپ نے الحمراء کے سب سے بڑے ہال کا انتخاب کیا ہے، فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یا تو تقریب ملتوی کردیں یا تقریب چھوٹے ہال میں رکھیں۔

بڑا ہال اگر آدھا خالی نظر آئے تو تقریب کو کامیاب قرار نہیں دیا جائے گا۔ مگر ہوا یوں کہ ملّتِ اسلامیہ کے عظیم محسن، علاّمہ اقبالؒ کے نام پر جس کو بھی بلایا، اس نے لبّیک کہا، جس کو دعوت دی اس نے بے حد مسرّت کا اظہار کیا، جس تعلیمی ادارے کے سربراہ سے بات کی اس نے پرجوش انداز میں کہا ’’ہماری آزادی، ہماری جائیدادیں اور ہمارے عہدے اس عظیم محسن ہی کی مرہونِ منّت ہیں، ہم تقریب میں بھرپور شرکت کریں گے، ہمارے اساتذہ بھی آئیں گے اور طلباء بھی شریک ہوںگے‘‘ اُس روز لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تقریب شروع ہونے سے پہلے ہی ہال بھر چکا تھا اور جب اسٹیج سیکریٹری سیّد تنویر تابش روسٹرم پر آئے تو بہت سے نوجوان سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے، رش کے باعث الحمراء کا مین گیٹ بند کرانا پڑا اور بہت سے مہمانوں کو گیٹ کے باہر ہی سے واپس لوٹنا پڑا۔ اُس تقریب میں استادوں کے استاد ڈاکٹر خورشید رضوی، الخدمت کے جناب عبدالشکور اور فارسی زبان و ادب کی ماہر ڈاکٹر حمیرا شہباز نے بڑی موثّر تقاریرکیں، بہت سے مہمان میری تقریر کی ریکارڈنگ مانگتے رہے۔

بہت سے اہم لوگ تقریب میں تقریر کے خواہش مند تھے مگر ہم مقررّین کی تعداد چار سے بڑھانے پر تیار نہ ہوئے۔ چائے پر اکثر شرکاء نے کہا کہ بڑی مدّت کے بعد لاہور میں اتنی شاندار تقریب دیکھنے کو ملی ہے۔ تمام شرکاء نے علاّمہ اقبال کونسل کے بہترین انتظامات کو سراہا اور سب مہمانوں نے مقررّین اور سامعین دونوں کے اعلیٰ معیار کی تعریف و توصیف کی۔ بہت سے دانشوروںکومرکزیہ مجلسِ اقبال کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی تقریبات یاد آگئیں۔ مجھے خود جی سی کے طالبِ علم کے طور پر مرکزیہ مجلسِ اقبال کی کئی تقریبات میں شریک ہونے کا موقع ملا، ملک کے سب سے بڑے خطیب آغا شورش کاشمیری یومِ اقبال کی تقریب کے اسٹیج سیکریٹری ہوا کرتے تھے اور ملک کی چوٹی کی شخصیات اس تقریب سے خطاب کرنا اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب یونیورسٹی لاء کالج میں ہمارے استاد تھے ، ایک بار ہم نے اسٹوڈنٹس یونین کے زیرِاہتمام ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں جج صاحبان اور سینئر وکلاء کے علاوہ طاہر القادری صاحب بھی مقررّین میں شامل تھے۔

سیمینار کے بعد میں نے صدر یونین کی حیثیت سے ڈاکٹر قادری صاحب کو مبارکباد دی اور ہنستے ہوئے کہا’’اب اگلی منزل ایم ایم آئی ہے اور اب انشاء اﷲ آپ جلد مرکزیہ مجلسِ اقبال کے مقررّین میں شامل ہوںگے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بھی جواباً انشااﷲ کہا اور وہ وقت بھی آیا جب قادری صاحب اس اسٹیج سے بھی تقریر کے لیے مدعو کیے گئے، یعنی وہ تقریب لاہور کی سب سے باوقار اور سب سے prestigious تقریب سمجھی جاتی تھی۔ نومبر کی تقریب کا اعلیٰ معیار دیکھ کر بہت سے صاحبانِ فکر و دانش نے وہیں کہہ دیا کہ مرکزیہ مجلسِ اقبال تو ختم ہوچکی لہٰذا اب علاّمہ اقبال کونسل آگے بڑھے اور علاّمہ اقبال کی یاد میں لاہور میں بھی ایک جاندار تقریب منعقد کیا کرے۔ چنانچہ ہم نے یہ ذمّہ داری قبول کی اور یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ ہر سال اپریل میں علاّمہ اقبال کے یومِ وفات کے حوالے سے ایک بڑی تقریب منعقد کی جائے گی۔

 اس سال کی تقریب 24 اپریل کو الحمراء کے ہال نمبر۱ میں منعقد کی گئی۔ الحمراء کے نئے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرتوقیر حیدر نے اپنی پیشرو میڈم سارہ کی طرح ہر لحاظ سے تعاون کیا اور پچھلے سال کی طرح تعلیمی اداروں کے سربراہان نے بھی مکمّل تعاون کیا۔ سامعین کے سلسلے میں اس بار بھی وہی فارمولا اپنایا گیا کہ چارسو کے قریب نوجوان اسٹوڈنٹس ہوںگے اور اتنے ہی معزّزینِ شہر، سو کے قریب نشستوں کو تعلیمی اداروں کے سربراہان، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان، یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان، پولیس اور انتظامیہ کے سرونگ اور ریٹائرڈ افسران، اخبارات کے مدیران اور صاحبانِ علم و دانش کے لیے مختص کیا گیا۔ مقرّرین کا انتخاب سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور وہی کسی تنظیم کی ساکھ اور وقار کو بڑھاتا یا گھٹاتا ہے۔

پچھلے سال مقررّین میں صرف اسکالرز شامل کیے گئے تھے، مگر اس سال یہ طے ہوا کہ ماہرینِ اقبالیات کے علاوہ اُن دانشوروں اور سیاستدانوں کو بھی مقررّین میں شامل کیا جائے جو شاعرِ مشرق سے دلی عقیدت رکھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ لاہور کے سینئر صحافی، دانشور اور کالم نگار جناب مجیب الرحمن شامی نے میڈیا کی نمایندگی کی، خانوادۂ اقبال کی نمایندگی کے لیے ہم محترمہ (ر) جسٹس ڈاکٹر ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ کو مدعو کرتے رہے ہیں مگر اب وہ پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے باعث آنے سے قاصر تھیں لہٰذا ہم نے ان کے صاحبزادے سابق سینیٹر ولید اقبال کو مدعو کیا، انھیں اب کافی تقریبات میں بلایا جاتا ہے جہاں وہ بڑے جوش و خروش سے کلامِ اقبال پڑھتے ہیں۔

کچھ دوستوں نے کہا کہ ولید اقبال پی ٹی آئی کے بھی سرگرم رکن ہیں، اگر اس پارٹی کے نمایندے کو بلایا جارہا ہے تو پھر مسلم لیگ کی طرف سے بھی کسی کو بلایا جائے، مسلم لیگ ن کے لیڈران کے ناموں پر غور کیا تو نظر فوراً خواجہ سعد رفیق پر ٹھہر گئی کہ جو دوسرے مسلم لیگیوں کی طرح اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے نہیں اور اقبالؒ اور قائدِاعظم ؒ کے افکار ونظریات سے بھی عقیدت اور وابستگی رکھتے ہیں۔

خواجہ صاحب کو جب کہا گیا کہ آپ نے ’’فکرِ اقبال کے فروغ کے لیے حکومت کے ذمّے داریاں‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرنی ہوگی، تو انھوں نے صاف کہہ دیا کہ میں حکومت کے نمایندے کے طور پر بات نہیں کروںگا، میں اپنے ذاتی حوالے سے اپنے عظیم محسن کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضر ہوجاوںگا۔ علاّمہ کا زیادہ کلام چونکہ فارسی میں ہے، اس لیے فارسی زبان و ادب کی ماہر اور پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹرعظمٰی زریں صاحبہ سے کہا گیا کہ وہ ’’پیامِ مشرق‘‘ میں نوجوانوں کے نام علاّمہ اقبال کے پیغام کا خلاصہ بتائیں گی۔

صدارت کس سے کرائی جائے؟ اس سلسلے میں بھی بہت سی تجاویز اور بہت سے نام پیش ہوئے۔ ان میں حکمرانوں، کے نام بھی تھے ، عدلیہ اور انتظامیہ کی معروف شخصیات بھی تھیں اور وزیروں اور جرنیلوں کے نام بھی تھے مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ علاّمہ اقبال کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب کی صدارت ایک استاد کرے گا۔ چنانچہ گورنمنٹ کالج لاہور (جہا ں علاّمہ اقبال پڑھتے بھی رہے اور پڑھاتے بھی رہے) کے سربراہ کا انتخاب کیا گیا اور اُس شاندار اور یادگار تقریب کی صدارت جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد عمر صاحب نے کی۔ ماضی میں مرکزیہ مجلسِ اقبال کی تقریبات کے اسٹیج سیکریٹری تو وقت کے سب سے بڑے خطیب آغا شورش کاشمیری ہوا کرتے تھے۔

ان کی جانشینی کا فریضہ کون انجام دے؟ کیا کوئی شورش کاشمیری جیسے بے مثل خطیب کا خلاء پر کرسکتا ہے،اس کے جواب میں ایک ساتھ بہت سی آوازیں آئیں، صرف ایک شخص ان کا جانشین کہلانے کا حقدار ہے اور اس کانام ہے سید تنویر عباس تابش، انھیں آغا صاحب نے خود اپنا جانشین قرار دیا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سیّد تنویر عباس تابش صاحب اسٹیج سنبھالتے ہیں تو آغا شورش کاشمیری کی جانشینی کا حق ادا کردیتے ہیں اور تقریب میں جان ڈال دیتے ہیں۔ اس بار بھی بہت بڑی تعداد میں طلباء اور اساتذہ نے شرکت کی۔ پہلی دوتین قطاریں جج صاحبان، دانشوروں، اخبارات و رسائل کے مدیران، سابق چیف سیکریٹری اور آئی جی صاحبان، تعلیمی اداروں کے سربراہان، اعلیٰ افسران اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدیداران سے بھر گئیں اور ساڑھے تین سو سے زیادہ طلباء و طالبات شریک ہوئے۔

 (جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شورش کاشمیری علا مہ اقبال مرکزیہ مجلس اقبال کو اقبال کے اقبال کی کی تقریب کے نام اور اس بہت سے گیا کہ کے لیے ہے اور

پڑھیں:

جیف بیزوس اور لورین سانچز کی شادی کی مہنگی ترین تقریب؛ پُرتعیش عروسی لباس

دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل جیف بیزوس اور لورین سانچز کی 3 روزہ شادی کی شاندار تقریب اٹلی کے تاریخی شہر وینس میں ہوئی جس میں عالمی شخصیات نے شرکت کی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اس شادی کو سال کی سب سے پُرشکوہ اور مکمل رازداری کے ساتھ انجام پانے والی شادی قرار دیا جا رہا ہے۔

تاریخی جزیرے سان جیورجیو ماجیور پر منعقد ہونے والی تقریب میں 200 قریبی مہمان شریک تھے۔ اس شادی کو دنیا کی مہنگی ترین تقاریب میں شمار کیا جارہا ہے جس پر تقریباً 55 ملین امریکی ڈالر (تقریباً 15 ارب پاکستانی روپے) خرچ ہوئے۔

شادی کی اختتامی تقریب آرسینالے میں منعقد ہوئی، جو قرون وسطیٰ کا بحری جہاز ساز مرکز رہا ہے اور آج کل وینس بینالے جیسے عالمی فنون لطیفہ کے میلے کی میزبانی کرتا ہے۔

جیف بیزوس اور لورین کو کشتی میں تقریب کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا، جبکہ رپورٹرز اور فوٹوگرافرز ان کے تعاقب میں تھے۔

لورین سانچز نے تقریب کے دوران ایٹلیئر ورساچی کا گلابی لباس زیب تن کیا، جبکہ جیف بیزوس نے سیاہ قمیص کے ساتھ سوٹ پہن رکھا تھا۔ تقریب سے قبل جوڑے کو مشہور ہیری بار میں داخل ہوتے دیکھا گیا، جہاں کبھی ارنَسٹ ہیمنگوے جیسے ادیب بھی آتے تھے۔

خفیہ تقریب، ستاروں سے سجی شرکت

شادی کی اصل تقریب جمعہ کو سان جارجیو مَجوری جزیرے پر منعقد ہوئی، جہاں صرف 200 مہمانوں کو مدعو کیا گیا۔ مہمانوں میں کارداشیئن فیملی، بل گیٹس، اوپرا وِنفرے، کارلی کلاس، جیرڈ کُشنر، ایوانکا ٹرمپ، اور اُشر شامل تھے۔

تقریب گاہ کے اندر کی کسی قسم کی ویڈیو یا تصویر سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کی گئی۔

دلہن کا عروسی لباس، سب کی توجہ کا مرکز رہا 

فیشن میگزین ووگ کے مطابق لورین نے تقریب کے لیے ڈولچے اینڈ گبانا کا خصوصی تیار کردہ لباس پہنا، جس پر 180 ریشمی بٹن لگے تھے جس کی تیاری میں 900 گھنٹے لگے۔

رات کے کھانے کے لیے انھوں نے ایک اور لباس پہنا جس کا آئیڈیا 1946 کی فلم "گِلڈا" سے لی گیا۔

اسی طرح اختتامی تقریب کے لیے انھوں نے آسکر ڈی لا رینٹا کا کرسٹل زدہ لباس پہنا جس پر 1,75,000 کرسٹل لگے تھے۔

دولہا جیف بیزوس نے بھی ڈولچی اینڈ گبانا کا کلاسک بلیک ٹکسڈو پہنا اور اپنے مخصوص ایوی ایٹر چشمے لگائے، تقریب میں معروف اطالوی گلوکار ماتیو بوچیلی نے ایلوس پریسلے کا مشہور گانا Can’t Help Falling in Love لائیو گایا۔ 

شادی کی قانونی حیثیت

وینس کے میئر کے دفتر نے واضح کیا کہ انہیں شادی کے حوالے سے کوئی سرکاری درخواست موصول نہیں ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تقریبات صرف علامتی نوعیت کی تھیں۔ قانونی شادی شاید پہلے ہی امریکا میں ہوچکی ہو۔

مہمانوں کی چمک دمک

تقریبات کے دوران مہمانوں نے معروف ڈیزائنرز کے ملبوسات پہن رکھے تھے جیسے روبرٹو کاوالی، ورساچی، ڈولچے اینڈ گبانا، دیور، آسکر ڈی لا رینٹا وغیرہ۔ اوپرا وِنفرے نے گلابی مرمیڈ اسٹائل کا لباس پہنا، کم کارداشیئن نے چاکلیٹی ٹون والا لباس پہنا، جبکہ کائلی جینر نیلے رنگ کا لیس والا کارسیٹ گاؤن پہن کر آئیں۔

بعض مہمان، جیسے اُشر، رات کے اختتامی فنکشن میں نائٹ ویئر تھیم کے مطابق پاجامہ اور نائٹی اسٹائل کے ملبوسات میں آئے۔

احتجاج اور سیکیورٹی

اگرچہ شادی پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے گئے اور وینس کے سیاحتی ادارے کے مطابق اس سے شہر کو سال بھر کی آمدنی کا 68 فیصد ایک ہی ہفتے میں حاصل ہوا، لیکن ماحولیاتی کارکنوں نے احتجاج بھی کیا۔

گرین پیس اور ایکسٹنکشن ریبیلین جیسی تنظیموں نے شادی کے خلاف بینرز لگائے اور مظاہرے کیے، جن میں ایک بینر پر لکھا تھا:

"اگر آپ وینس کو شادی کے لیے کرائے پر لے سکتے ہیں، تو آپ مزید ٹیکس بھی دے سکتے ہیں۔"

رومانوی لمحات اور رسمی تبدیلی

شادی کے فوری بعد لورین سانچز نے اپنا انسٹاگرام نام بدل کر Lauren Sanchez Bezos رکھ لیا، جبکہ جیف بیزوس کو شادی کی انگوٹھی پہنے بھی دیکھا گیا۔

یہ شادی نہ صرف فیشن اور شہرت کی دنیا میں موضوعِ بحث بنی، بلکہ وینس کے ماحول، معیشت اور سیاست میں بھی نمایاں اثرات چھوڑ گئی۔

 

متعلقہ مضامین

  • نئے مالی سال کا شاندار آغاز، سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، نیا ریکارڈ قائم
  • ڈیجیٹل معیشت کے فروغ میں فری لانسرز کا کردار بہت اہم ہے، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کا آئی ٹی فری لانسنگ ایوارڈز 2025 کی تقریب سے خطاب
  • نئے مالی سال کا شاندار آغاز! سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، نیا ریکارڈ قائم
  • الخدمت فائونڈیشن حیدرآباد کے تحت ایمبولینس سروس کا افتتاح
  • جیف بیزوس اور لورین سانچز کی شادی کی مہنگی ترین تقریب؛ پُرتعیش عروسی لباس
  • پاکستان کی عالمی سطح پر شاندار کامیابی، ایک اور اعزاز کا اضافہ
  • مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینا سپریم کورٹ کے شاندار ترین فیصلوں میں سے تھا، سلمان اکرم راجا
  • کیشو مہاراج نے ٹیسٹ کرکٹ میں جنوبی افریقا کیلئے شاندار کارنامہ انجام دے دیا
  • جامعہ نجف سکردو میں ایران کی امریکہ و اسرائیل پر عظیم فتح کی مناسبت سے تقریب