سماعت کے دوران ملزم ارمغان نے اپنے والد کے وکیل کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے والد سے نہیں ملنا، میں یہ وکیل نہیں کروں گا، میرا والد سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس پر کامران قریشی نے شور شرابہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے باپ نہیں مانتے تو مجھے طلاق دو۔ اسلام ٹائمز۔ مصطفی عامر قتل کیس کی سماعت کے دوران ملزم ارمغان نے اپنے والد سے اعلان لاتعلقی کردیا جب کہ عدالت میں عجیب و غریب بیان دینے لگا۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں مصطفی عامر قتل کیس کی سماعت ہوئی، جس میں ملزم ارمغان کو پیش کیا گیا۔ ملزم ارمغان کے والد کی پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسرکو دھمکیوں کا معاملے پر پولیس نے انسدادِ دہشت گردی کورٹ کمپلیکس کے دروازے بند کردیئے۔ پولیس کے مطابق ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ کسی کو اندر نہ آنے دیا جائے، تاہم دھمکیاں دینے والے کامران قریشی کو اے ٹی سی کمپلیکس میں داخلے کی اجازت دے دی گئی اور صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ پابندی پراسیکیوٹر جنرل منتظر مہدی کے خط کی روشنی میں لگائی گئی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ایڈمن کورٹ نے پابندی لگائی ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ کورٹ 4 نے پابندی لگائی۔ دوران سماعت ملزم ارمغان کے وکیل عابد زمان خان نے مقدمے کی پیروی سے انکار کردیا اور مؤقف اختیار کیا کہ میری ملزم کے والد کامران قریشی سے انڈراسٹینڈنگ نہیں تھی۔ کیس وکیل چلاتا ہے یا کلائنٹ؟۔ اس موقع پر ملزم ارمغان کو عدالت کے روبرو پیش کردیا گیا جب کہ ملزم کی والدہ اور والد کو وکلائے صفائی کی استدعا پر عدالت میں بلالیا گیا۔ وکیل طاہر تنولی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم گارنٹی دیتے ہیں کوئی شور شرابہ نہیں ہوگا۔

بعد ازاں عدالت نے ملزم ارمغان کے والد کو شور شرابہ کرنے پر باہر نکال دیا۔ کامران قریشی کو پولیس اہلکار کھینچ کر کورٹ سے باہر لائے۔ سماعت کے دوران ملزم ارمغان نے اپنے والد کے وکیل کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے والد سے نہیں ملنا، میں یہ وکیل نہیں کروں گا، میرا والد سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس پر کامران قریشی نے شور شرابہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے باپ نہیں مانتے تو مجھے طلاق دو۔ بعد ازاں عدالت نے صحافی پر فائرنگ کے کیس میں بھی ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں 24 مارچ تک توسیع کردی۔ ملزم ارمغان اس موقع پر عجیب بیان دیتا رہا اور کہا کہ مجھے پاک فوج کی مدد کی ضرورت ہے، مجھے موساد جیوش مافیا ٹارگٹ کررہا ہے۔ اس دوران ملزم ریمانڈ کے بعد بار بار چہرے سے کپڑا ہٹاتا رہا۔ وکیل صفائی طاہر تنولی کے مطابق ملزم ارمغان نے عدالت کے روبرو اعتراف جرم کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو اعتراف جرم کی ہدایت کی ہے۔ ملزم ارمغان کو اتنا پریشان کیا ہوا کہ وہ اعتراف جرم کے لیے بھی تیار ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ملزم ارمغان کے کامران قریشی کہا کہ مجھے عدالت میں والد سے

پڑھیں:

ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے  لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات

اسلام آ باد:

این سی سی آئی اے  کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔

لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا  ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے  اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔

جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔

وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے  تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں  ہے۔ اگر  اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔

وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت  لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ مضامین

  • سابق آئی جی پنجاب عامر ذوالفقار کے والد انتقال کر گئے
  • لاہورہائیکورٹ :شیخ رشید کو بیرون ملک جانے کی اجازت
  • کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان
  • ٹکٹ ہولڈرز کا کالعدم ٹی ایل پی سے لاتعلقی کا اعلان
  • جنوبی پنجاب کے سابق ٹکٹ ہولڈرز کا تحریک لبیک پاکستان سے لاتعلقی کا اعلان
  • ’مجھے اکیلا چھوڑ دو‘، بھارتی اداکار عامر خان کی گرل فرینڈ میڈیا پر برہم
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے  لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • شیخ رشید کی بیرون ملک جانے کی درخواست منظور
  • والد کی موت طبعی نہیں قتل ہے،  ایرانی صدر رفسنجانی کی بیٹی، عدالت نے نوٹس لے لیا