اورنگزیب کا مقبرہ مسمار کرنے کا فیصلہ، مہاراشٹر میں مذہبی منافرت کی آگ بھڑک اٹھی
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
مہاراشٹر میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کے مطالبات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کے واقعات نے ریاست میں سیاسی اور سماجی تناؤ کو بڑھا دیا ہے۔
ناگپور میں حالیہ جھڑپیں اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ معاملہ محض تاریخی یادگار سے متعلق نہیں، بلکہ اس کے پیچھے سیاسی اور مذہبی محرکات کارفرما ہیں۔
بی جے پی کے رہنما اور ستارا کے شاہی خاندان کے رکن چھترپتی ادین راجے بھوسلے نے اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے ’چور اور لٹیرا‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کی مسماری کے لیے جے سی بی مشین بھیجی جائے۔
ہندو جن جاگرتی سمیتی جیسی تنظیموں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اورنگزیب کے مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے مالی امداد بند کی جائے، جبکہ شیواجی مہاراج کے مندر کو برائے نام مدد ملتی ہے۔
یہ بیانات اور مطالبات نہ صرف تاریخی ورثے کے تحفظ پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں بلکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سماج وادی پارٹی کے رہنما ابو عاصم اعظمی کے اورنگزیب کی تعریف میں بیان کے بعد اس تنازعے نے مزید شدت اختیار کرلی۔ اس بیان کے بعد اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کے مطالبات میں اضافہ ہوا، جو مذہبی جذبات کو مزید بھڑکانے کا سبب بن رہا ہے۔
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے کہا کہ اورنگزیب کا مقبرہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت ایک محفوظ یادگار ہے اور اس کے بارے میں کوئی بھی کارروائی قانونی طریقہ کار کے مطابق ہونی چاہیے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’ہم سبھی لوگوں کو لگتا ہے کہ اورنگزیب کی قبر کو منہدم کردیا جائے‘، جو ان کے متضاد موقف کو ظاہر کرتا ہے۔
ناگپور میں اورنگزیب کے مقبرے کو ہٹانے کے مطالبے پر ہونے والے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا، جس میں متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور پتھراؤ کیا گیا۔
پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ یہ واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے سیاسی اقدامات کس طرح عوامی امن و امان کو متاثر کر سکتے ہیں۔
بھارت میں ماضی میں ہونے والے ایسے ہی واقعاتیہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت میں مذہبی بنیادوں پر سیاسی تنازعات کو ہوا دی گئی ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی کئی واقعات ہو چکے ہیں جہاں مذہبی حساسیت کو سیاسی فوائد کے لیے استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔
1992 میں بابری مسجد کی مسماری ایک ایسا واقعہ تھا جس نے پورے بھارت میں مذہبی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں کے کارکنوں نے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو گرا دیا، جس کے بعد پورے بھارت میں فسادات پھوٹ پڑے۔
ان جھڑپوں میں تقریباً 2 ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ اس واقعے نے بھارت کی سیاست میں مذہبی بنیاد پرستی کو مزید مضبوط کیا۔
2002 میں گجرات فسادات اسی نوعیت کے ایک اور افسوسناک سانحے کی مثال ہیں۔ گودھرا میں ایک ٹرین حادثے کے بعد، جس میں ہندو یاتریوں کی ہلاکت ہوئی تھی، پورے گجرات میں مسلم مخالف فسادات برپا ہوگئے۔
ان فسادات میں تقریباً 2 ہزار افراد قتل کیے گئے، جب کہ ہزاروں مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور کاروبار جلا دیے گئے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی حکومت پر ان فسادات میں جانبداری برتنے اور کارروائی نہ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
2020 میں دہلی فسادات بھی اسی سلسلے کی کڑی تھے۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف مظاہروں کے دوران دہلی میں ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے، جس میں 53 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔
فسادات کے دوران کئی مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور دکانوں و گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ ان فسادات میں حکومتی مشینری کی جانبداری واضح طور پر دیکھی گئی، کیوں کہ پولیس پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کرنے اور ہندو شدت پسندوں کو نظر انداز کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔
مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے حکومتی فیصلےبھارت میں گزشتہ چند سالوں میں کئی ایسے فیصلے کیے گئے جو مذہبی بنیادوں پر سیاست کو ہوا دینے کا ذریعہ بنے۔ شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) اس کی ایک واضح مثال ہیں، جن کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم تارکین وطن کو بھارتی شہریت دی گئی، جب کہ مسلمانوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔
اس امتیازی قانون کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا، خاص طور پر دہلی کے شاہین باغ میں مسلم خواتین کے مظاہروں نے عالمی توجہ حاصل کی، لیکن حکومت نے ان مظاہروں کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی۔
اسی طرح مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے “لو جہاد” اور “لینڈ جہاد” جیسے قوانین متعارف کروائے گئے۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور دیگر بی جے پی حکومتوں والی ریاستوں میں “لو جہاد” کے نام پر بین المذاہب شادیوں پر پابندیاں لگائی گئیں، جن کا نشانہ خاص طور پر مسلمان مردوں کو بنایا گیا۔
اسی طرح، “لینڈ جہاد” کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے مسلمانوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ ہندو علاقوں میں زمین خرید کر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ ایسے دعوؤں کے حق میں کوئی مستند شواہد پیش نہیں کیے گئے۔
کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی بھی مذہبی تعصب کی ایک واضح مثال ہے۔ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کرنے سے کئی مسلم طالبات کو امتحانات دینے سے روکا گیا، جس سے ان کے تعلیمی حقوق متاثر ہوئے اور یہ معاملہ عالمی سطح پر بھی زیر بحث آیا۔ اس اقدام کو مسلمانوں کو سماجی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھنے کی ایک منظم کوشش قرار دیا گیا۔
یہ تمام فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں مذہبی بنیادوں پر سیاست کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جہاں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے قوانین اور سرکاری پالیسیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایسے اقدامات نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ بھارت کی جمہوریت اور سیکولر تشخص پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر رہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اورنگزیب کے مقبرے کو مذہبی بنیادوں پر استعمال کیا کرتے ہیں کہ بھارت میں کیے گئے کرنے کے رہا ہے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
پاکستان سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکا ، اب فیصلہ بھارت کو کرنا ہوگا، دفتر خارجہ
پاکستان سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکا ، اب فیصلہ بھارت کو کرنا ہوگا، دفتر خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 24 July, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)ترجمان دفترخارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کو سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے، بھارت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کونسی پالیسی اپناتا ہے، پاکستان غزہ میں جنگ بندی اور 2 ریاستی حل کا مطالبہ کرتا ہے، پاکستان شام پر اسرائیلی حملوں کی شرید مذمت کرتا ہے، اسحاق ڈار نے دورہ امریکا میں اہم رہنماوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نیویارک کے دورے پر ہیں، اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ مباحثے میں پاکستان کی نمائندگی کی، انہوں نے یو این سیکرٹری جنرل اور صدر جنرل اسمبلی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، پاکستان کی صدارت میں یو این سلامتی کونسل نے اہم قرار داد بھی منظور کی، پاکستان کی صدارت میں سلامتی کونسل نے قرارداد 2788 متفقہ طور پر منظور کی۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اسحاق ڈار نے فلسطین میں اسپتالوں اور اسکولز پر حملوں کی مذمت کی، پاکستان نے غزہ میں جنگ بندی اور 2 ریاستی حل پر زور دیا، پاک، افغان، ازبک وزرائے خارجہ نے ریل منصوبے پر اجلاس کیا، پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان سیاسی مذاکرات برسلز میں ہوئے، پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ہتھیاروں کے عدم پھیلا اور جوہری توانائی پر مذاکرات ہوئے۔ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان نے اسرائیلی بمباری اور شام پر حملوں کی شدید مذمت کی، پاکستان نے فلسطین میں انسانی بحران پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا، صرف ایک خود مختار فلسطینی ریاست ہی مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل ہے، پاکستان شام پر اسرائیلی حملوں کی شرید مذمت کرتا ہے، عالمی برادری پر اسرائیلی حملوں کو رکوانے کے لیے زور دیتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان غزہ فلسطین میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں درجنوں فلسطینیوں کی شہادت کی مذمت کرتا ہے، پاکستان اسرائیل پر فوری حملے روکنے کا مطالبہ کرتا ہے، ایران پاکستان کا قریبی ہمسایہ دوست ملک ہے، ایرانی صدر کے دورے کی تاریخ پر کام ہو رہا ہے، 26 جولائی ایرانی صدر کے دورے کی تاریخ میڈیا رپورٹس میں چلائی گئی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہیں، امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات میں پاک بھارت جنگ بندی، مشرق وسطی کی صورتحال سمیت دیگر معاملات پر بات چیت ہوگی۔ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام مسائل کا حل مذاکرات سے نکالنے کے حق میں ہے، تنازعات کے حل کے لیے بھارت کو مذاکرات کا کہہ چکے ہیں، پاک بھارت مسائل کے حل کے لیے امریکی کردار قابل تعریف ہے۔شفقت علی خان نے مزید کہا کہ پی او آر کارڈز سے متعلق حکومت کی ہدایات کے منتظر ہیں، وزیر داخلہ محسن نقوی کا دورہ افغانستان انتہائی اہم تھا، افغانستان نے ہمارے تحفظات پر مثبت ردعمل دیا ہے، ملا امیر متقی کے دورہ پاکستان کی تاریخوں پر کام کررہے ہیں، محسن نقوی کے دورہ کابل میں سلامتی کے امور پر سرفہرست تھے۔ان کہنا تھا کہ ایران جوہری معاملے سفارت کاری سے حل ہونا چاہئیں، کسی بھی بھارتی مہم جوئی کے جواب کے لیے تیار ہیں، معرکہ حق کے دوران بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور لیبیا کے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں، پاکستان لیبیا میں قومی وحدت کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے، لیبیا میں ہمارا سفارت خانہ فعال ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاک افغان تجارتی معاہدہ انتہائی اہم ہے، مستقبل میں مزید اشیا کے شامل ہونے کی توقع ہے، ہم برکس کی رکنیت کے لیے سنجیدہ ہیں، ایس سی او وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی اہمیت سے مطمئن ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعمران کے بیٹے مہم چلا سکتے ہیں، مگر 190ملین پاونڈ کیس کا ذکر بھی کریں، عطا تارڑ عمران کے بیٹے مہم چلا سکتے ہیں، مگر 190ملین پاونڈ کیس کا ذکر بھی کریں، عطا تارڑ پاکستان میں اصلاحات اور ڈیجیٹائزیشن سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے، اسحاق ڈار صدر مملکت سے چینی سفیر کی ملاقات، خطے میں امن کیلئے مشترکہ اقدامات کا عزم پی ٹی آئی رہنما بشارت راجہ گرفتاری کے بعد رہا وزیراعظم سے ریجنل نائب صدر عالمی بینک کی ملاقات، تعاون کے فروغ پر اتفاق پانچ اگست کو اسلام آباد نہیں جارہے ہر جگہ پرامن احتجاج ہوگا، بیرسٹر گوہرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم