مہاراشٹر میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کے مطالبات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کے واقعات نے ریاست میں سیاسی اور سماجی تناؤ کو بڑھا دیا ہے۔

ناگپور میں حالیہ جھڑپیں اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ معاملہ محض تاریخی یادگار سے متعلق نہیں، بلکہ اس کے پیچھے سیاسی اور مذہبی محرکات کارفرما ہیں۔

بی جے پی کے رہنما اور ستارا کے شاہی خاندان کے رکن چھترپتی ادین راجے بھوسلے نے اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے ’چور اور لٹیرا‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کی مسماری کے لیے جے سی بی مشین بھیجی جائے۔

ہندو جن جاگرتی سمیتی جیسی تنظیموں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اورنگزیب کے مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے مالی امداد بند کی جائے، جبکہ شیواجی مہاراج کے مندر کو برائے نام مدد ملتی ہے۔

یہ بیانات اور مطالبات نہ صرف تاریخی ورثے کے تحفظ پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں بلکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

سماج وادی پارٹی کے رہنما ابو عاصم اعظمی کے اورنگزیب کی تعریف میں بیان کے بعد اس تنازعے نے مزید شدت اختیار کرلی۔ اس بیان کے بعد اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کے مطالبات میں اضافہ ہوا، جو مذہبی جذبات کو مزید بھڑکانے کا سبب بن رہا ہے۔

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے کہا کہ اورنگزیب کا مقبرہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت ایک محفوظ یادگار ہے اور اس کے بارے میں کوئی بھی کارروائی قانونی طریقہ کار کے مطابق ہونی چاہیے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’ہم سبھی لوگوں کو لگتا ہے کہ اورنگزیب کی قبر کو منہدم کردیا جائے‘، جو ان کے متضاد موقف کو ظاہر کرتا ہے۔

ناگپور میں اورنگزیب کے مقبرے کو ہٹانے کے مطالبے پر ہونے والے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا، جس میں متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور پتھراؤ کیا گیا۔

پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ یہ واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے سیاسی اقدامات کس طرح عوامی امن و امان کو متاثر کر سکتے ہیں۔

بھارت میں ماضی میں ہونے والے ایسے ہی واقعات

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت میں مذہبی بنیادوں پر سیاسی تنازعات کو ہوا دی گئی ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی کئی واقعات ہو چکے ہیں جہاں مذہبی حساسیت کو سیاسی فوائد کے لیے استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔

1992 میں بابری مسجد کی مسماری ایک ایسا واقعہ تھا جس نے پورے بھارت میں مذہبی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں کے کارکنوں نے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو گرا دیا، جس کے بعد پورے بھارت میں فسادات پھوٹ پڑے۔

ان جھڑپوں میں تقریباً 2 ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ اس واقعے نے بھارت کی سیاست میں مذہبی بنیاد پرستی کو مزید مضبوط کیا۔

2002  میں گجرات فسادات اسی نوعیت کے ایک اور افسوسناک سانحے کی مثال ہیں۔ گودھرا میں ایک ٹرین حادثے کے بعد، جس میں ہندو یاتریوں کی ہلاکت ہوئی تھی، پورے گجرات میں مسلم مخالف فسادات برپا ہوگئے۔

ان فسادات میں تقریباً 2 ہزار افراد قتل کیے گئے، جب کہ ہزاروں مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور کاروبار جلا دیے گئے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی حکومت پر ان فسادات میں جانبداری برتنے اور کارروائی نہ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

2020  میں دہلی فسادات بھی اسی سلسلے کی کڑی تھے۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف مظاہروں کے دوران دہلی میں ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے، جس میں 53 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔

 فسادات کے دوران کئی مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور دکانوں و گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ ان فسادات میں حکومتی مشینری کی جانبداری واضح طور پر دیکھی گئی، کیوں کہ پولیس پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کرنے اور ہندو شدت پسندوں کو نظر انداز کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔

مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے حکومتی فیصلے

بھارت میں گزشتہ چند سالوں میں کئی ایسے فیصلے کیے گئے جو مذہبی بنیادوں پر سیاست کو ہوا دینے کا ذریعہ بنے۔ شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) اس کی ایک واضح مثال ہیں، جن کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم تارکین وطن کو بھارتی شہریت دی گئی، جب کہ مسلمانوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔

اس امتیازی قانون کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا، خاص طور پر دہلی کے شاہین باغ میں مسلم خواتین کے مظاہروں نے عالمی توجہ حاصل کی، لیکن حکومت نے ان مظاہروں کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی۔

اسی طرح مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے “لو جہاد” اور “لینڈ جہاد” جیسے قوانین متعارف کروائے گئے۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور دیگر بی جے پی حکومتوں والی ریاستوں میں “لو جہاد” کے نام پر بین المذاہب شادیوں پر پابندیاں لگائی گئیں، جن کا نشانہ خاص طور پر مسلمان مردوں کو بنایا گیا۔

اسی طرح، “لینڈ جہاد” کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے مسلمانوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ ہندو علاقوں میں زمین خرید کر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ ایسے دعوؤں کے حق میں کوئی مستند شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی بھی مذہبی تعصب کی ایک واضح مثال ہے۔ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کرنے سے کئی مسلم طالبات کو امتحانات دینے سے روکا گیا، جس سے ان کے تعلیمی حقوق متاثر ہوئے اور یہ معاملہ عالمی سطح پر بھی زیر بحث آیا۔ اس اقدام کو مسلمانوں کو سماجی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھنے کی ایک منظم کوشش قرار دیا گیا۔

یہ تمام فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں مذہبی بنیادوں پر سیاست کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جہاں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے قوانین اور سرکاری پالیسیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایسے اقدامات نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ بھارت کی جمہوریت اور سیکولر تشخص پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر رہے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شاہزیب نجی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اورنگزیب کے مقبرے کو مذہبی بنیادوں پر استعمال کیا کرتے ہیں کہ بھارت میں کیے گئے کرنے کے رہا ہے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

بھارتی ریاست منی پور نسلی فسادات کی لپیٹ میں، کرفیو نافذ، انٹرنیٹ سروس معطل

بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں نسلی کشیدگی کی تازہ لہر کے بعد حکام نے متعدد اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا ہے جبکہ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے پیش نظر انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروسز بھی معطل کر دی گئی ہیں۔

پولیس کے مطابق یہ اقدام اس وقت کیا گیا جب ارمبائی تنگول نامی انتہا پسند میتئی گروپ کے کمانڈر سمیت 5 افراد کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، مظاہرین نے ریاستی دارالحکومت امپھال میں ایک پولیس چوکی پر حملہ کیا، ایک بس کو نذر آتش کیا اور کئی علاقوں میں سڑکیں بند کر دیں۔

امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر امپھال ویسٹ، امپھال ایسٹ، تھوبل، بشنوپور اور کاکچنگ اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے, ریاستی وزارت داخلہ نے 5 روز کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروسز بند کرنے کا اعلان بھی کیا ہے جبکہ وی سیٹ اور وی پی این جیسی سہولیات بھی معطل کر دی گئی ہیں۔

منی پور میں ہندو میتئی اور مسیحی کوکی برادریوں کے درمیان گزشتہ دو برسوں سے نسلی تنازعات جاری ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان جھڑپوں میں اب تک 250 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ 60 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں, اب بھی ہزاروں شہری کشیدہ حالات کے باعث اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکے۔

ارمبائی تنگول پر کوکی برادری کے خلاف تشدد بھڑکانے کا الزام ہے اور حالیہ گرفتاریوں کے بعد اس گروپ نے وادی کے اضلاع میں 10 روزہ ہڑتال کا اعلان بھی کیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ زمین اور سرکاری ملازمتوں جیسے مسائل پر شروع ہونے والی کشیدگی کو سیاسی مفادات کے تحت مزید ہوا دی جا رہی ہے۔

حکام کے مطابق صورت حال پر قابو پانے کے لیے سیکیورٹی فورسز تعینات ہیں اور حالات کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انٹرنیٹ بھارتی ریاست کرفیو معطل منی پور

متعلقہ مضامین

  • لاس اینجلس میں مظاہرے و گرفتاریاں، گورنر و میئر ٹرمپ پر بھڑک اٹھے
  • بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس لے، بلاول
  • گورنر کیلیفورنیا نے صدر ٹرمپ کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا
  • فلاڈیلفیا میں پرانے بس ڈپو میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی، متعدد بسیں جل گئیں
  • لاس اینجلس فسادات: نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے بعد مظاہروں کی شدت میں اضافہ
  • بھارت نے سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے سے روک دیا، واہگہ بارڈر پر علامتی استقبال کی تیاریاں مکمل
  • بھارتی ریاست منی پور نسلی فسادات کی لپیٹ میں، کرفیو نافذ، انٹرنیٹ سروس معطل
  • عید پر فلاحی و مذہبی اداروں کی کھالیں جمع کرنے کی سرگرمیاں تیز
  • پاکستان کو 30 سیکنڈ میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ بھارت نے ایٹمی حملہ کیا یا نہیں، بلاول بھٹو
  • قارئین کو عید مبارک، پاکستان بھر میں عیدالاضحیٰ آج مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے، جانور قربان کرنے کا سلسلہ جاری