بیٹے کی خواہش میں 9 بیٹیوں کے والدین بننے والا جوڑا جنہوں نے تمام بچیوں کا ایک ہی نام رکھ دیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
بیجنگ(نیوز ڈیسک)اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیٹے کی خواہش میں بیٹیوں کی پیدائش ہوتی رہتی ہے اور ایسا ہی چین سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے کے ساتھ بھی ہوا۔
مشرقی چین سے تعلق رکھنے والے ایسے جوڑے کی کہانی سامنے آئی ہے جن کی 9 بیٹیاں ہیں اور ان سب کا نام ایک جیسا ہے۔
ان سب کے نام میں Di موجود ہے جس کا مطلب بھائی ہوتا ہے۔
ناموں کے اس غیر معمولی انتخاب سے خاندان کی جانب سے بیٹے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
چینی صوبے جیانگسو کے گاؤں ہویان سے تعلق رکھنے والی 9 بہنوں کی عمر میں 20 سال کا فرق ہے اور ان کے 81 سالہ فادر جائی نے ان کے ناموں کے اختتام di پر کیا۔
سب سے بڑی بیٹی کی عمر 60 سال جبکہ سب سے چھوٹی کی 40 سال ہے۔
بڑی بیٹی کا نام Zhaodi ہے چینی زبان کے اس لفظ کا مطلب بھائی کی طلب ہے جبکہ اس سے چھوٹی بیٹی کا نام Pandi رکھا گیا جس کا مطلب بھائی کی خواہش ہے۔
اسی طرح دیگر تمام بیٹیوں کے ناموں میں بھائی کے لفظ کو شامل کیا گیا ہے جس سے والدین کی بیٹے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔
چوتھے نمبر کی بیٹی Xiangdi نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میرے والد کو بیٹے کی بہت زیادہ خواہش تھی اور یہی وجہ ہے کہ اب ہم 9 بہنیں ہیں، اگرچہ ہم سب لڑکیاں ہیں مگر ہمارے والدین ہمیشہ ہم سے بہت زیادہ محبت کرتے رہے ہیں اور کبھی کوئی غلط سلوک نہیں کیا’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ ہم غریب خاندان سے ہیں مگر ہمارے والد نے ہمیشہ ہماری تعلیم کو ترجیح دی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے حوصلہ افزائی کی۔
اس خاندان کی کہانی اس وقت وائرل ہوئی جب Xiangdi نے اپنی روزمرہ کی زندگی سے متعلق ویڈیوز چین کے ایک مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں شیئر کیں۔
ان ویڈیوز سے اس خاندان کے حوالے سے لوگوں کی دلچسپی بڑھی۔
Xiangdi کے مطابق ‘ہم بہنیں بچپن میں اکٹھا کھیلتی اور لڑتی تھیں، بہنیں زندگی بھر کے لیے بہترین دوست ثابت ہوتی ہیں’۔
مزیدپڑھیں:پاکستانی شہری کا بغیر ویزا کے بھارتی فلائٹ کے ذریعے بھارت کا سفر، ممبئی ایئرپورٹ کے حکام حیران
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
غزہ جنگ کے خلاف احتجاج پر امریکہ میں قید خلیل، نومولود بیٹے کو نہ دیکھ سکے
اسرائیل کی ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے غزہ میں جاری جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کرنے پر امریکی جیل میں قید محمود خلیل اپنے بیٹے کی ولادت کے موقع پر بھی جیل سے باہر آ کرنومولود کو نہ دیکھ سکے۔
اسرائیلی جنگ کی مخالفت اور فلسطینیوں کی حمایت کے لیے احتجاج کو امریکی صدر کے مشیران یہود دشمنی قرار دیتے ہیں۔ تاہم احتجاج کرنے والے فلسطینی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
امریکہ کے علاوہ یورپی ملکوں میں بھی اسرائیل کی غزہ جنگ کی مخالفت اور فلسطینی بچوں اور عورتوں کی ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کو یہود دشمنی ہی قرار دیا جاتا ہے۔
ادھر اسرائیل بھی ایسے احتجاج پر ناپسندیدگی ظاہر کرتا ہے جس میں کوئی احتجاجی غزہ کے ہلاک شدہ فلسطینی بچوں کی تصاویر اٹھا کر لانے کی کوشش کرتا ہے۔
محمود خلیل کو بھی فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھانے کے اسی جرم میں امریکی امیگریشن حکام نے آٹھ مارچ سے حراست میں لے رکھا ہے۔ امریکی حکام اس کے باوجود محمود خلیل کو امریکہ سے ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ کیے ہوئے ہیں کہ محمود خلیل کی اہلیہ نور عبداللہ امریکی شہری ہیں اور اپنی اہلیہ کی وجہ سے وہ امریکہ میں رہنے کا حق رکھتے ہیں۔
ان کی اہلیہ نور عبداللہ نے پیر کے روز بتایا ہے کہ امریکہ کے متعلقہ حکام نے بیٹے کی پیدائش کے موقع پر محمود خلیل کو عارضی طور پر رہا کرنے سے بھی انکار کر دیا کہ وہ اپنے نومولود بیٹے کو دیکھ سکتے ۔
خلیل نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف امریکہ میں احتجاج کرنے والوں میں نمایاں رہے ہیں۔ نور عبداللہ کے مطابق ‘آئی سی ای’ نامی ادارے نے ان کے شوہر کو اپنے خاندان کے لیے اس اہم موقع پر بھی عارضی رہائی دینے سے انکار کر دیا ہے۔
نور عبداللہ نے اس انکار پر اپنے بیان میں کہا’ آئی سی ای’ نے عارضی رہائی سے انکار کر کے مجھے ، محمود اور ہمارے نومولود کو سوچ سمجھ کر اذیت میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس وجہ سے میرے نومولود بیٹے نے دنیا میں آنے کے بعد پہلا دن ہی اپنے والد کے بغیر دیکھا۔ میرے لیے بھی یہ بہت تکلیف دہ صورت حال ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ہم سے یہ ہمارے قیمتی اور خوبصورت لمحات چھین لیے ہیں۔ تاکہ محمود کو فلسطینیوں کی آزادی کی حمایت کرنے سے خاموش کرا سکیں۔
یاد رہے خلیل کی اہلیہ نے بچے کو نیو یارک میں جنم دیا ہے جبکہ خلیل کو نیو یارک سے ایک اور امریکی ریاست میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ تاکہ انہیں اس جج کی عدالت میں پیش کرنا ممکن ہو سکے جو ٹرمپ کی حالیہ کریک ڈاؤن پالیسی کا حامی ہو۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نےحال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ 1950 کے قانون کے تحت امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس غیر ملکی کو ڈی پورٹ کر دے جو امریکی خارجہ پالیسی سے اختلاف رکھتا ہو۔ تاہم روبیو نے یہ بھی کہا امریکہ میں اظہار رائے کی پوری آزادی ہے
Post Views: 1