توہینِ مذہب الزامات کیس؛ عدالتی کارروائی براہِ راست دکھانے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
اسلام آباد:
توہینِ مذہب الزامات سے متعلق کیس میں عدالت نے کارروائی کو براہ راست دکھانے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے توہینِ مذہب الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کے کیس میں مفاد عامہ کے پیش نظر عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے کہا کہ کمرہ عدالت بھر چکا ہے، عدالت کے باہر بھی کثیر تعداد میں لوگ موجود ہیں۔ کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ بن چکا ہے،ا س لیے براہ راست دکھانے کا حکم دیتے ہیں۔
عدالت نے آئی ٹی حکام کو فوری طور پر براہ راست دکھانے کے انتظامات کرنے کا حکم دیا اور پولیس کو حکم دیا کہ کمرہ عدالت کے باہر لوگوں کو آگاہ کردیں، جو بھی کارروائی دیکھنا چاہتے ہیں وہ آن لائن دیکھ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: راست دکھانے براہ راست کا حکم
پڑھیں:
ایف بی آر میں تعینات گریڈ 20 کا افسر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر برطرف
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)نے وزیراعظم کی ہدایت پر کرپشن اور بدعنوانیوں میں ملوث اعلی افسران کے خلاف باقاعدہ کاروائی شروع کرتے ہوئے سینئر افسر کو برطرف کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ایک سینئر افسر کو مبینہ طور پر ریفنڈ کیسز کی پراسیسنگ کے عوض سپیڈ منی لینے کے الزام میں ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔
اس حوالے سے ایف بی آر کی جانب سے پیر کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق، ان لینڈ ریونیو سروس کے گریڈ 20 کے افسر رانا وقار علی جو اس وقت چیف (ایڈمن پول) ایف بی آر ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں تعینات تھے (اور لاہور میں تعیناتی کے فرائض انجام دے رہے تھے)۔
اعلامیے کے مطابق مذکورہ افسر کے خلاف سول سرونٹس (ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن) رولز 2020 کے تحت انضباطی کارروائی شروع کی گئی، ان پر غفلتِ منصبی بدعنوانی اور غیر اخلاقی رویےکے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
تحقیقات کے لیے ان لینڈ ریونیو سروس کی گریڈ 21 افسر آمنہ حسن کو انکوائری آفیسر مقرر کیا گیا انہوں نے 27 جون 2025 کو اپنی رپورٹ پیش کی جس میں تمام الزامات درست ثابت ہوئے اور پھر مذکورہ افسر کی ملازمت سے برطرفی کی سفارش کی گئی۔
اعلامیے میں مزید تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ سات جولائی 2025 کو رانا وقار علی کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا، جس کے جواب میں انہوں نے 4 اگست 2025 کو تحریری وضاحت جمع کرائی۔
وزیرِ اعظم نے کیس کی مزید سماعت کے لیے سید ندیم حسین رضوی (گریڈ 22)ڈائریکٹر جنرل ان لینڈ ریونیو سروس اکیڈمی لاہور کو کیس کی سماعت کیلئے ہیئرنگ آفیسر مقرر کیا جنہوں نے یکم ستمبر 2025 کو رانا وقار علی کو ذاتی سماعت کا موقع دیا اور تمام ریکارڈ، انکوائری رپورٹ اور سفارشات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد وزیرِ اعظم نے رانا وقار علی پر سروس سے برطرفی کی بڑی سزا عائد کر دی۔
نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ رانا وقار علی کو سول سرونٹس (اپیل) رولز 1977 کے تحت فیصلے کے بعد 30 روز کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہے۔