وزیراعظم سمیت دیگر کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
26 نومبر احتجاج میں بیٹے ہلاکت کے خلاف وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر اعلی پنجاب، آئی جی و دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔
ایڈیشنل یشن جج افضل مجوکا نے 9 صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ مقدمہ اندراج درخواست میں ایف آئی آر کی ہدایت دیتے عدالت مطمئن ہونی چاہیے کافی مواد ریکارڈ پر موجود ہے، قانونی طور پر درخواست گزار وکیل کی اس دلیل کی کوئی حیثیت نہیں،۔
عدالت نے کہا کہ پٹیشن کی سپورٹ میں کوئی مواد ضرورت نہیں ، فیصلہ درخواست گزار کے دعوی کے مطابق 26 نومبر کو ان کے بیٹے محمد علی سمیت 9 ہلاکتیں ہوئیں، درخواست گزار کی جانب سے کوئی ڈیتھ سرٹیفکیٹ پوسٹمارٹم رپورٹ ریکارڈ پر موجود نہیں، درخواست گزار نے کہا پولیس اور اسلام آباد کی اتھارٹیز نے انہیں کوئی ریکارڈ نہیں دیا جو پیش کرتے۔
فیصلے کے مطابق درخواست کے مطابق 9 ہلاک ہونے والوں کا تعلق خیبرپختونخواہ سے ہیں، 9 افراد کی موت کی وجہ جانچنے کے لیے مجسٹریٹ کو قبر کشائی درخواست بھی دے سکتے تھے، درخواست گزار کے وکیل نے کہا موت کی وجہ معلوم کرنا درخواست گزار کی نہیں پولیس کی ذمہ داری تھی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پٹشنر نے الزام لگایا ہے پولیس نے ڈیڈ باڈی حوالے کرتے زبردستی سادہ کاغذ پر دستخط کروائے، درخواست گزار کے مطابق دیگر ہلاک شدگان کے لواحقین کے ساتھ تھانے مقدمہ درج کرانے گیا، درخواست کے مطابق تھانہ سیکرٹریٹ پولیس نے اسے اور دیگر کو وہیں حراست میں لے لیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار کے مطابق دیگر افراد سے بیان حلفی لیکر رہا کر دیا گیا، درخواست گزار کے مطابق رہا ہونے کے بعد ایس ایچ او کو بیان ریکارڈ کرانے گیا تو اس نے انکار کر دیا ،پولیس حکام کے مطابق ملزمان کے نام کا درخواست میں ذکر ہی موجود نہیں، فرانزک میڈیسن ، لیگل میڈیسن اور میڈیکو لیگل رپورٹ کرمنل جسٹس سسٹم کے ساتھ جڑی ہوئیں ہیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ تمام رپورٹ آرٹیکل 10 اے فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بھی ضروری ہیں، کرمنل جسٹس سسٹم اور میڈیکو لیگل سسٹم میں میڈیکل ایگزیمینر بہت کلیدی کردار ہے، درخواست گزار کی بات سے واضع ہوتا ہے اسے اور دیگر کو ڈیڈ باڈیز حوالے کی گئیں تھیں، ایک دلیل کے طور یہ کہہ سکتے ہیں اسلام آباد اتھارٹیز نے پوسٹمارٹم نہیں کرایا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس صورت حال میں لواحقین اپنی پسند کی جگہ سے پوسٹمارٹم کرا سکتے تھے ، لواحقین قبر کشائی کی درخواست بھی مجسٹریٹ کو دے سکتے تھے، نا درخواست گزار نا کسی اور نے موت کی وجہ جانچنے کے لیے کوئی درخواست دائر کی، محمد علی اور دیگر 8 کی موت کے حوالے سے کوئی مواد موجود نہیں کہ ان کی غیر طبعی موت ہوئی، وزیراعظم و دیگر کے خلاف مقدمہ اندراج کی 22 اے کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: درخواست گزار کے کی درخواست کے مطابق نے کہا
پڑھیں:
حافظ آباد: شوہر کے سامنے خاتون کے گینگ ریپ میں ملوث تیسرا ملزم بھی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک
پنجاب کے شہر حافظ آباد میں شوہر کے سامنے خاتون کے مبینہ گینگ ریپ میں ملوث تیسرا ملزم بھی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا جب کہ گھناؤنے فعل میں ملوث 2 ملزمان پہلے ہی مبینہ پولیس مقابلے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق پنچ پلہ کے قریب پولیس گشت پر تھی کہ ملزم کے ساتھیوں نے پولیس وین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔
گینگ ریپ کا دوسرا ملزم لئیق عرف لئیقی 2 روز قبل مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا تھا۔
پولیس کے مطابق پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لئے کوٹ نانک کے قریب چھاپہ مارا تو انہوں نے پولیس پر فائرنگ کردی، جواب میں پولیس نے بھی اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کی، فائرنگ کے نتیجے میں ملزم اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔
حافظ آباد پولیس کے مطابق ملزم کی لاش کو مردہ خانے منتقل کردیا گیا، ملزم لئیق نے اپنے دو ساتھیوں اکرام مانگٹ اور خاور کے ساتھ مل کر خاتون سے اس کے خاوند کے سامنے باری باری جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا تھا۔
حافظ آباد پولیس کے مطابق ملزمان کا چوتھا ساتھی چاند جنسی زیادتی کی وڈیو بناتا رہا، واقعہ ڈیرھ ماہ قبل مانگٹ اونچا کے علاقہ میں ہوا۔ واقعے کا ۔مقدمہ درج ہونے کے بعد چاروں ملزمان فرار ہوگئے تھے۔
گینگ ریپ کیس کا ایک ملزم خاور گزشتہ روز پولیس ریڈ کے دوران مبینہ طور پر اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا، ایک ملزم لئیق آج مبینہ پولیس مقابلہ میں مارا گیا جب کہ اس کے 2 ساتھی ملزمان فرار ہو گئے۔
حافظ آباد پولیس کے مطابق فرار ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
2 جون کو حافظ آباد کے میں درج ہونے والے مبینہ گینگ ریپ کے مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق خاتون کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد ملزمان نے دونوں میاں بیوی سے بھی مبینہ طور پر اسلحہ کے زور پر جنسی عمل کروایا، اس کی بھی ویڈیو بنائی اور فرار ہو گئے۔
مقامی پولیس نے کہا کہ واقعہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے قبل پیش آیا لیکن گینگ ریپ کا شکار خاتون کے شوہر کے جانب سے مقدمے کا اندراج اس وقت کروایا گیا جب ملزمان کی جانب سے مبینہ گینگ ریپ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی۔
مقدمے کے اندراج کے اگلے ہی دن 4 جون بروز بدھ کو مقامی پولیس نے ایک ملزم کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا اور پھر اسی رات ملزم کی پراسرار حالات میں ہلاکت ہوئی۔
سی ٹی ڈی حافظ آباد کے انچارج اعجاز احمد نے کہا تھا کہ ’ملزم کو حراست میں لینے کے بعد دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیم انھیں اپنے ساتھ لیکر جا رہی تھی کہ راستے میں ملزمان نے اپنے ساتھی کو چھڑانے کے لیے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی۔
اس واقعے سے متعلق حافظ آباد کے تھانہ کسوکی میں درج ایف آئی ار میں مدعی مقدمہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ 25 اپریل کو اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنی بہن کو ملنے کے لیے موٹر سائیکل پرنوشہرہ ورکاں گئے جب کہ گھر واپسی پر شام ہو گئی تھی اور راستے میں ان کی بیوی ایک شوگر مل کے پاس رفع حاجت کے لیے موٹرسائیکل سے اتریں۔
ایف آئی ار کے مطابق اسی اثنا میں ایک شخص نے مدعی مقدمہ سے شام کے وقت اس جگہ پر رکنے کی وجہ پوچھی جس پر انھوں نے بتایا کہ ان کی بیوی رفع حاجت کے لیے گئی ہے تو اسی وجہ سے وہ یہاں پر رکے ہوئے ہیں۔
مدعی مقدمہ کا مزید کہنا تھا کہ اسی دوران میں ملزم کا ایک اور ساتھی بھی وہاں پر آگیا اور اس کے کچھ دیر بعد ہی ملزمان کا تیسرا ساتھی بھی وہاں پہنچ گیا۔
اس واقعے کی ایف آئی آر میں مدعی مقدمہ نے دعویٰ کیا کہ ملزمان ان دونوں میاں بیوی کو کچھ فاصلے پر واقعہ قبرستان کے پاس لے گئے جہاں پر ان مسلح ملزمان نے دونوں میاں بیوی کو برہنہ کر دیا۔
مدعی مقدمہ نے بتایا کہ ملزمان نے (مدعی مقدمہ) کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی بیوی کو مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا جبکہ مدعی مقدمہ ایسا نہ کرنے کے حوالے سے ملزمان کی منتیں بھی کرتے رہے لیکن ملزمان باز نہ آئے اور ان کی بیوی کو ریپ کا نشانہ بناتے رہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان جب اس خاتون کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنا رہے تھے تو ان کا ایک ساتھی اس واقعے کی ویڈیو بھی بنا رہا تھا۔