’’خوشخبری‘‘ ، عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
وزیر اعظم شہباز شریف نے پٹرول اور ڈیزل کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس میں 10روپے لیٹر اضافہ کردیا ہے۔اس سے حاصل آمدنی بجلی کے نرخوں میں ڈیڑھ روپے فی یونٹ کمی کے لیے استعمال ہو گی۔
خزانہ اور توانائی کی وزارتوں کے حکام کے مطابق پٹرولیم لیوی بڑھا کر 70روپے فی لیٹر کرنے سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی نہیں ہو سکے گی۔ اس طرح پٹرولیم ٹیکس میں اضافے سے حکومت نے شہریوں کو بڑے ریلیف سے محروم کردیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کے نتیجے میں عالمی معیشت بحران کا شکار ہو گئی ہے ۔ خاص طور پر امریکا کینیڈا کی ٹیرف لڑائی میں اس بحران کے باعث پٹرول کی قیمتوں میں بڑی کمی واقع ہو گئی ہے ۔
عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتوں میں جتنی کمی واقع ہوئی ہے اس حساب سے تو 15روپے فی لیٹر کمی ہونی چاہیے ۔ پچھلے کئی ہفتوں سے خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پٹرول کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر کمی ہوگی لیکن عین اس وقت جب یہ کمی ہونا تھی حکومت نے عوام کو ریلیف دینے سے انکار کردیا اور بجائے اس کے پٹرول پر ٹیکس مزید دس روپے بڑھا دیا۔ کیونکہ وفاقی حکومت کے پاس پٹرول پر 70روپے فی لیٹر تک لیوی لگانے کا اختیار ہے ۔
وزیر پٹرولیم نے کہا کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں ردوبدل ، بجلی کے بھاری بلوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے ۔ جس سے گھریلو صارفین اور صنعت دونوں متاثر ہو رہے ہیں ۔ خطے میں بجلی کی قیمتیں پاکستان میں سب سے زیادہ ہیں حکومتی اندازے کے مطابق اضافی لیوی سے 180ارب روپے سالانہ حاصل ہونگے جو بجلی کی قیمت 1.
ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں پٹرول کی زیادہ قیمت کی اصل وجہ روپے کی کمزور قدر ہے اور اس کے بعد دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمسایوں ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں فی کس آمدن کم ہونے کی وجہ سے شہری ایندھن اور بجلی کی زیادہ قیمتیں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔لیوی میں نئے اضافے سے پٹرول پر مجموعی ٹیکس بڑھ کر 86روپے فی لیٹر ہوجائیں گے ۔ لیوی بڑھانے سے 16دنوں میں 50ارب روپے کی آمدن متوقع ہے ۔ ذرایع کے مطابق گزشتہ جولائی تا فروری تک 718ارب روپے لیوی حاصل ہوئی۔ جب کہ رواں مالی سال پٹرولیم ، ڈویلپمنٹ لیوی کا ہدف 1281ارب روپے ہے ۔ اب لیوی میں اضافے سے ہر ماہ دس ارب روپے اضافی زیادہ ملیں گے ۔
عوام کے ساتھ کیا ہورہا ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ فیصل آباد چیمبر آف اسمال انڈسٹریز کے صدر نے کہا ہے کہ حکومت نیٹ میٹرنگ سے گرڈ میں آنے والی بجلی 27روپے سے کم کرکے 10روپے فی یونٹ مقرر کر کے گھریلو صارفین کا استحصال کررہی ہے۔ حکومت کوگھریلو صارفین سے نیٹ میٹرنگ کے ذریعے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت کم کرنے کے بجائے نجی بجلی گھروں سے حاصل ہونے والی مہنگی بجلی کی قیمت کم کروانے پر توجہ دینی چاہیے ۔
حکومت کے اس فیصلے سے عام شہریوں کی سولر سسٹم لگوانے پر ہونے والی اربوں روپے کی سرمایہ کاری متاثرہونے کا اندیشہ ہے ۔ اگر حکومت سولر انرجی اور نیٹ میٹرنگ کی پالیسی کو عوام دوست بنائے تو پاکستان کے شہری نجی بجلی گھروں کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا سستی بجلی پیدا کرکے ریاست پاکستان کے لیے کھربوں روپے کی بچت کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے چیئر مین نے بھی ان نئے حکومتی اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
مزید خوشخبری یہ کہ اس مرتبہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھیں گی اتنی شدید مہنگائی کے باوجود عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا ۔ لگتا ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ عوام خوشحال ہو گئے ہیں ۔ جب کہ وفاقی وزرائے مملکت مشیروں کی تنخواہوں اور الاؤنسز کی مد میں تین گنا سے بھی زیادہ اضافہ کردیا گیا ہے ۔ یعنی اب وفاقی وزیر تنخواہ 2لاکھ روپے کے بجائے 5لاکھ روپے سے زائد لے گا۔ الاؤنسز ، گاڑی ، دفتر اخراجات اندرون اور بیرون ملک مفت سفر اس کے علاوہ ہیں ۔ اس میں فیملی بھی شامل ہے ۔جب کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں دو ماہ پہلے ہی بڑھائی جا چکی ہیں ۔
عوام بیچارے بے بس ہیں کر بھی کیا سکتے ہیں ۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی قیمتوں میں روپے فی لیٹر بجلی کی قیمت پٹرول کی روپے کی کے لیے
پڑھیں:
زرعی ٹیکس کی وصولی سمیت بجٹ شرائط پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے: آئی ایم ایف
اسلام آباد (آئی این پی)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے بجٹ کے حتمی مشاورتی مراحل میں پروگرام کی شرائط پر سختی سے عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے، جس میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کی صوبائی بجٹ میں شمولیت بھی شامل ہے، تاکہ اس کی موثر وصولی ستمبر 2025 سے پہلے شروع کی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کے اضافی بجلی کی گنجائش کو استعمال کرنے کے لیے بجلی کے استعمال میں اضافے کی حوصلہ افزائی کے منصوبے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف صوبوں سے اخراجات پر کنٹرول کے لیے مضبوط وعدہ چاہتا ہے، حالاں کہ صوبوں نے ترقیاتی منصوبوں میں توسیع کی تجاویز دی ہیں، جنہیں نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی)نے منظور بھی کر لیا ہے، چاروں صوبے اگلے سال کے لیے آئی ایم ایف کے اندازوں سے تقریبا 850 ارب روپے زیادہ ترقیاتی اخراجات مختص کر چکے ہیں۔دوسری جانب مرکز کی محصولات میں کمی کی وجہ سے صوبے اس سال بجٹ سرپلس فراہم کرنے کے وعدے کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، اور آئندہ مالی سال کے لیے اپنے حصص کو زیادہ سے زیادہ مختص کر رہے ہیں، تاکہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے آئندہ اجلاس سے پہلے اپنے مالی حقوق سے محروم نہ ہو جائیں۔آئی ایم ایف زرعی آمدنی پر مکمل عملدرآمد اور متعلقہ خدمات کا بھی خواہاں ہے، جس پر ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اتفاق نہیں ہو سکا، کیوں کہ مرکز کا ماننا ہے کہ کارپوریٹ زراعت اس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ذرائع کے مطابق حکام نے 7 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کو کم قیمت پر بیچنے کی اجازت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، جس میں کسی سبسڈی کی گنجائش نہیں تھی، لیکن آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ اس قسم کے معاشی بگاڑ، بشمول ٹیکسیشن، مراعات، اور الائونسز نے ملک کو مشکلات میں ڈالا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ اضافی بجلی کو اگر نئے صارفین اور صنعتی شعبوں کو بیچنے کی اجازت دی جائے تو یہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے سکتی ہے، چاہے منافع کے بغیر ہی کیوں نہ ہو، مگر آئی ایم ایف اسے ان صارفین کے ساتھ ناانصافی سمجھتا ہے جو پہلے ہی بھاری نرخ ادا کر رہے ہیں۔یہ بھی غیر منصفانہ تصور کیا گیا کہ پرانے صنعتی یونٹس جو زیادہ پیداواری لاگت پر چل رہے ہیں، وہ ان نئی صنعتوں سے مقابلہ کریں، جو سستی بجلی پر چل رہی ہوں، حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بجلی کے شعبے میں استحکام کے لیے لاگت میں کمی کی کوششیں جاری رکھے اور تمام صارفین کے لیے مساوی مواقع فراہم کرے۔اس سلسلے میں یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا کرپٹو مائننگ کے لیے 2 ہزار میگاواٹ بجلی 3 سے 4 سینٹ فی یونٹ (یعنی 8-9 روپے) پر دینے کا منصوبہ کامیاب ہوسکے گا یا نہیں، کیوں کہ بنیادی نرخ 24 سے 25 روپے فی یونٹ ہیں۔آئی ایم ایف نے صوبوں کی جانب سے دی گئی بجلی اور گیس پر سبسڈی کی بھی مخالفت کی ہے، جیسا کہ رواں سال پنجاب نے یہ سبسڈی دی تھی، اور آئندہ سال بھی دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجلی، گیس چوری اور اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کی جائے، تاکہ مالی اور ٹیکس نقصان کم کیا جا سکے، اس حوالے سے، آئندہ سال صوبوں کو بھی اپنے محکموں میں کمی کرنا ہو گی تاکہ وہ وفاق کی اس سال کی جانے والی مشق کی حمایت کر سکیں۔اگلے سال کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ٹیکس ہدف تقریبا 14 ہزار 200 ارب روپے پر قائم رہے گا، جیسا کہ چند ماہ قبل توسیعی فنڈ پروگرام کے پہلے جائزے میں طے پایا تھا، دیگر زیادہ تر اندازے بھی وہی رہیں گے۔تنخواہ دار طبقے کے لیے معمولی ٹیکس رعایت دی جائے گی، لیکن خوردہ شعبے سے وصولیوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی، آئندہ سال کے بجٹ کا بنیادی موضوع ڈیجیٹائزیشن ہوگا، اور نقد و ڈیجیٹل لین دین کے لیے مختلف ٹیکس اور شرحیں لاگو کی جائیں گی۔