معمول سے کم بارشوں کے باعث ڈیموں میں پانی کی شدید قلت، خشک سالی کے باعث فصلیں متاثر ہونے کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
پاکستان میں چالیس فیصد کم بارشیں ہونے کے باعث خشک سالی کا خطرہ بڑھ گیا جبکہ محکمہ موسمیات کے خشک سالی مانیٹرنگ سینٹر نے ایڈوائزی جاری کردی۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں 62، بلوچستان 52 اور پنجاب میں38 فیصد کم بارش ہوئی۔ سندھ، بلوچستان کے جنوبی اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال بدستور برقرار ہے۔
پانی بحران سے فصلیں متاثرہ ہونے کا خدشہ ہے، پاکستان میں معمول سے کم بارشوں کے باعث خشک سالی کا خطرہ بڑھ گیا، محکمہ موسمیات کے خشک سالی مانیٹرنگ سنٹر نے ایڈوائزی جاری کردی۔
ایڈوائزی میں بتایا گیا کہ ملک میں حالیہ بارشوں کے باعث سے ملک کے وسطی اور بالائی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، سندھ، بلوچستان کے جنوبی اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال بدستور برقرار ہے۔
خاص طور پر یکم ستمبر 2024 سے 21 مارچ 2025 تک پورے پاکستان میں معمول سے کم چالیس فیصد بارش ہوئی ہے، سندھ میں 62 فیصد، بلوچستان 52 فیصد اور پنجاب میں38 فیصد بارش کی میں کمی ہوئی ہے۔
جاری ایڈوائزی میں بتایا گیا کہ دادو، تھرپارکر، ٹھٹہ، کراچی، بدین حیدرآباد، عمر کوٹ، گھوٹکی، جیکب آباد، لاڑکانہ، سکھر،خیر پور، سانگھڑ خشک سالی کی ذد میں ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ گوادر، کیچ، لسبیلہ،پنجگور، آواران اور چاغی بھی متاثر ہیں، پنجاب میں ۔بہاولپور،بہاولنگر، اور رحیم یار خان بھی خشک سالی سے متاثرہورہے ہیں۔
ایڈوائزی میں مزید بتایا گیا کہ تربیلااور منگلا ڈیموں میں ذخیرہ شدہ پانی کی شدید قلت ہے، مختلف دریاؤں میں پانی انتہائی نچلی سطح پر بہہ رہا ہے، بارشوں میں کمی کے باعث آئندہ مہینوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے خشک سالی کا بھی امکان ہے۔
ارسا حکام نے بتایا کہ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1402 فٹ پر ہے، ڈیم میں پانی کی آمد 15 ہزار جبکہ اخراج 15 ہزار کیوسک ہے، اس کے علاوہ منگلا ڈیم میں پانی کی سطح 1068 فٹ پر ہے، ڈیم میں پانی کی آمد 17 ہزار جبکہ اخراج 14 ہزار کیوسک ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ارسا ذرائع نے کہا تھا کہ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح صرف 3 فٹ رہ گئی، تربیلا ڈیم کے ڈیڈ لیول پر پہنچنے پر پانی کا قابل استعمال ذخیرہ ختم ہوجائے گا۔
ارسا نے کہا کہ تربیلا ڈیم میں پانی 1402 فٹ تک زراعت کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے، دریائے سندھ میں تربیلا کے مقام پر پانی کی آمد 14 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا، تربیلا ڈیم سے پانی کا اخراج 20 ہزار کیوسک ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ ملک کے شمالی علاقوں کا درجہ حرارت کم ہونے کے باعث برف پگھلنے کا عمل انتہائی سست ہے، اسکردو سمیت شمالی علاقوں میں درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈیم میں پانی کی خشک سالی کی تربیلا ڈیم علاقوں میں ہزار کیوسک اور پنجاب کے باعث گیا کہ
پڑھیں:
صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد قومی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس تیزی سے بڑھتا ہوا قرض ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرے کی علامت بن چکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمے قرضوں کا تناسب اگلے 3 سال میں 70.8 فیصد سے کم ہوکر 60.8 فیصد تک لانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ہے، تاہم خطرات اب بھی موجود ہیں۔
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جون 2025ء تک مجموعی قرض 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا، جب کہ صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا جب کہ فنانسنگ کی ضروریات آئندہ برسوں میں 18.1 فیصد کی بلند سطح پر برقرار رہیں گی۔
وزارت خزانہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی، تاہم قرضوں کا حجم اب بھی تشویشناک حد تک بلند ہے۔
رپورٹ میں قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی تفصیلی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے جب کہ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاؤ اور شرح سود میں تبدیلی کو قرض کے بوجھ میں اضافے کی بنیادی وجوہات بتایا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد اندرونی جب کہ 32.3 فیصد بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، جس سے شرح سود کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کا دباؤ بڑھا ہوا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں، جو دوطرفہ اور کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ ریٹ والے بیرونی قرضوں کی شرح 41 فیصد ہے، جو درمیانی سطح کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔