اقوام متحدہ کے ماہرین کا پاکستان سے بلوچ کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے آزاد ماہرین نے بدھ کے روز مطالبہ کیا کہ پاکستانی حکومت حالیہ مظاہروں کے بعد حراست میں لیے گئے بلوچ حقوق کے کارکنوں کو رہا کرے اور مبینہ جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کے دیگر مسائل کے خلاف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کو بند کرے۔
اسلام باد نے بھی بدھ کے روز ہی اقوام متحدہ کے ماہرین کے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا اور اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے بعض ماہرین کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کا اس نے نوٹس لیا ہے، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بظاہر منتخب اور غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔
ریاست چھینی ہوئی زندگیاں لوٹا دے، سمی دین بلوچ
کارکنان کی گرفتاریاں اور تشددگزشتہ جمعہ کی شام کو پولیس نے کوئٹہ میں دھرنا دینے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل، واٹر کینن اور خالی گولیوں کا استعمال کیا تھا۔
(جاری ہے)
تاہم صوبائی حکومت اور بی وائی سی دونوں نے اس واقعے میں تین افراد کی ہلاکت اور 13 کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
پولیس نے بھی تقریبا 10 اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع دی۔گرفتار ہونے والوں میں بی وائی سی کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں، جو انسانی حقوق کی ایک معروف علمبرادر ہیں اور طویل عرصے سے بلوچ نسلی گروپ کے لیے مہم چلاتی رہی ہیں۔
بلوچستان میں ماہ رنگ بلوچ زیر حراست، پولیس
ماہ رنگ بلوچ کو 150 دیگر افراد کے ساتھ دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا، جس کے خلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی ہوئی۔
کراچی میں بی وائی سی کی کارکن سمیع بلوچ کو احتجاج کرنے پر حراست میں لیا گیا، جنہیں بعد میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے رہائی کا حکم دیا گیا تاہم اس کے باوجود انہیں امن عامہ کو خراب کرنے کے الزام کے تحت دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے کیا کہا؟جنیوا سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کے آزاد ماہرین کے ایک گروپ نے کہا کہ حکومت کو "حراست میں لیے گئے بلوچ انسانی حقوق کے محافظوں کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے اور پرامن مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن بند کرنا چاہیے۔
"اس مشترکہ بیان میں ماہرین نے مزید کہا کہ "ہم گزشتہ کئی مہینوں سے بلوچ کارکنوں کی مبینہ گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کی بڑھتی ہوئی تشویشناک رپورٹس پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جبکہ گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات نے ہمارے خدشات میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔"
پاکستان کو مزید کتنا ’ہارڈ اسٹیٹ‘ بنانے کی ضرورت ہے؟
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ ماہرین نے بلوچستان کے ضلع بولان میں رواں ماہ جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے کے تناظر میں بی وائی سی کی قیادت کے خلاف کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے سلسلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بیان کے مطابق اسی واقعے کے بعد، "بی وائی سی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کئی سرکردہ محافظوں کو مبینہ طور پر پاکستان کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے گرفتار کیا یا انہیں جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔"
گزشتہ جمعہ کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ انہوں نے ایک بار پھر حکام کی جانب سے پہلے پرامن احتجاج کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کو دیکھا ہے۔
بلوچستان: سکیورٹی خدشات کے باعث تین یونیورسٹیاں بند
بیان میں کہا گیا، "ہم 11 مارچ کے دہشت گردانہ حملے کے گہرے تکلیف دہ اثرات کو سمجھتے ہیں اور ہم اس حملے کے متاثرین سے اپنی گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔"
ماہ رنگ اور سمیع کی حراست کے حالات کا حوالہ دیتے ہوئے، ماہرین نے کہا کہ وہ پرامن اجتماع کے حق کو استعمال کرنے پر حراست میں لیے گئے انسانی حقوق کے محافظوں کی فلاح و بہبود کے لیے "انتہائی فکر مند" ہیں۔
ماہرین نے کہا، "ہم پاکستانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ انہیں فوری طور پر رہا کریں اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف انسداد دہشت گردی یا عوامی تحفظ کے اقدامات کا غلط استعمال کرنے سے گریز کریں۔ ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلا تاخیر اس بات کی وضاحت کریں کہ مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والے تمام افراد آخر کس حال میں ہیں ان کا ٹھکانہ کہاں ہے۔
"بلوچستان: علیحدگی پسندوں کے حملوں میں آٹھ ہلاک چالیس زخمی
تبصرے 'توازن اور تناسب سے عاری' ہیں، پاکستانپاکستان کے دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کے ماہرین کے بیان کے جواب میں کہا کہ یہ تبصرے "منتخب اور غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس" پر مبنی ہیں اور اس میں "توازن اور تناسب" کا فقدان ہے۔
دفتر خارجہ نے بدھ کے روز جو بیان جاری کیا اس میں کہا گیا، "ہم نے اقوام متحدہ کے بعض ماہرین کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز کا نوٹس لیا ہے، جو بظاہر منتخب اور غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔
"بیان میں مزید کہا گیا، "یہ ضروری ہے کہ اس نوعیت کے عوامی بیانات معروضیت کے اصولوں پر عمل کریں، سلیکٹیو تنقید سے گریز کریں، حقائق کی درستگی کی عکاسی کریں، اور صورتحال کے مکمل تناظر کو تسلیم کریں۔"
بلوچستان ٹرین حملہ: ہلاکتوں کی تعداد 31 ہو گئی
بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے تبصروں میں دہشت گردانہ حملوں سے ہونے والی شہری ہلاکتوں کو کم کر کے پیش کیا گیا ہے اور ایسے شرپسندوں کے جرائم کو نظر انداز کر دیا گیا، جو جان بوجھ کر عوامی خدمات میں خلل ڈالتے ہیں، نقل و حرکت کی آزادی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کرتے ہیں۔
اسلام آباد نے اپنے بیان میں کہا کہ "کسی بھی معتبر جائزے کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ عناصر محض مظاہرین نہیں ہیں بلکہ لاقانونیت اور تشدد کی ایک وسیع مہم میں سرگرم طور پر شریک ہیں۔ ان کی قانون کی خلاف ورزیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔"
دفتر خارجہ نے کہا، "مبینہ شکایات کے پیچھے چھپنے والے یہ عناصر دہشت گردوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کر رہے ہیں، جو ریاستی ردعمل میں رکاوٹ ڈالنے کی ان کی مربوط کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
اس میں دہشت گردانہ حملوں کی سہولت فراہم کرنے والی ہم آہنگی والی رکاوٹیں بھی شامل ہیں۔"دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ان کے گٹھ جوڑ کا تازہ ترین ثبوت کوئٹہ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال پر ان کا غیر قانونی دھاوا تھا، جہاں انہوں نے جعفر ایکسپریس کے یرغمالیوں کو بچانے کے آپریشن کے دوران مارے گئے پانچ دہشت گردوں کی لاشیں زبردستی قبضے میں لے لیں۔
"ان میں سے تین لاشوں کو پولیس نے ان پرتشدد مظاہرین سے بڑی مشکل سے حاصل کیں۔"دفتر خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون واضح طور پر افراد، اداروں یا گروہوں کو دوسروں کے حقوق اور سلامتی کی خلاف ورزی کرنے کے لیے ہتھیاروں کے استعمال سے منع کرتا ہے اور خودمختار ریاستوں کے عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اور ضروری کارروائی کرنے کے حق کو مضبوطی سے برقرار رکھتا ہے۔
بیان کے مطابق "حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی جانوں اور سلامتی کی حفاظت کرے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بے گناہ شہری غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ حکومت نے نسلی یا مذہبی پس منظر سے قطع نظر معاشرے کے تمام طبقات کے لیے سماجی اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے مسلسل پالیسیوں پر عمل کیا ہے۔"
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، نیوز ایجنسیاں)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے ماہرین انسانی حقوق کے دفتر خارجہ نے بی وائی سی ماہرین نے نے کہا کہ مزید کہا کے خلاف میں کہا کرنے کے ہیں اور کہا گیا ماہ رنگ کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ: تنازعات کے پرامن حل سے متعلق پاکستانی قرارداد منظور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے منگل کے روز پاکستان کے زیر اہتمام اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا، جس کا مقصد تنازعات کے پرامن حل کے طریقہ کار کو مضبوط کرنا ہے۔
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اس وقت نیویارک کے دورے پر ہیں اور انہیں کے زیر صدارت اجلاس کے دوران "تنازعات کے پرامن حل کے لیے میکانزم کو مضبوط بنانے" والی (قرارداد 2788) پیش کی گئی اور پھر کھلی بحث کے دوران منظور کر لی گئی۔
قرارداد میں کیا ہے؟اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے وہ تنازعات سے بچنے کے لیے احتیاطی سفارت کاری، ثالثی اور بات چیت کا راستہ استعمال کریں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت پرامن تنازعات کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کریں۔
(جاری ہے)
قرارداد میں علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے درمیان قریبی تعاون پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ تنازعات کو بات چیت اور اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے حل کیا جا سکے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے اجلاس میں کیا کہا؟جولائی کے مہینے میں سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس اجلاس کی صدارت کی اور بحث کے دوران قرار داد کی منظوری کو "تصادم پر سفارت کاری کے لیے عالمی عزم کی اجتماعی توثیق" قرار دیا۔
"کثیر جہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینا" کے عنوان پر اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ کثیرالجہتی "محض سفارتی سہولت نہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "تنازعات کا پرامن تصفیہ صرف ایک اصول نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی استحکام کی لائف لائن ہے۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ حل نہ ہونے والے تنازعات، جغرافیائی سیاسی رقابتیں اور چن چن کر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ صرف بین الاقوامی امن کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ کثیر جہتی اداروں میں اعتماد کو بھی ختم کر رہا ہے۔
انہوں نے سکیورٹی کونسل کے تمام اراکین کا ان کی "تعمیری مصروفیت" کے لیے شکریہ ادا کیا اور قرار داد کی متفقہ منظوری کو "تنازعات کی روک تھام کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کو آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی ارادے کا خوش آئند اظہار" قرار دیا۔
کشمیر کا تنازعہ بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت حل ہوتنازعہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک بار پاکستان کے موقف کو دہرایا اور کہا کہ یہ "تنازعہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے میں سب سے پرانی چیزوں میں سے ایک" ہے۔
انہوں نے کہا کہ "کوئی کاسمیٹک اقدام کشمیری عوام کے اس بنیادی اور ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا متبادل نہیں بن سکتا، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن وہ نئی دہلی سے بھی "باہمی تعاون اور اخلاص" کی توقع رکھتا ہے۔
ڈار نے نئی دہلی کی جانب سے سندھ آبی معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کو معطل کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی اور اسے "غیر قانونی اور یکطرفہ" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 65 سال پرانا معاہدہ "کامیاب سفارت کاری کا نمونہ" ہے اور بھارت پر الزام لگایا کہ وہ 240 ملین پاکستانیوں کے لیے ضروری پانی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے کئی تنازعات کی جڑ کے طور پر "کثیرالجہتی کے بحران" کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: "مسئلہ اصولوں کا نہیں بلکہ سیاسی ارادے کا ہے، اداروں کا نہیں بلکہ ہمت کا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساکھ دوہرے معیار اور انسانی اصولوں پر سیاست کرنے سے مجروح ہوئی ہے۔"اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر خارجہ نے بیان بازی کے بجائے ٹھوس کارروائی پر زور دیا۔ "اس بحث کو کثیرالجہتی میں ہمارے ایمان کے اثبات کے طور پر کام کرنے دیں اور ان لوگوں سے ایک پختہ وعدہ کریں جو اس کونسل کی جانب محض الفاظ کے لیے نہیں، بلکہ عمل کے لیے نظریں لگائیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر بات چیت کے پلیٹ فارم، انصاف اور پائیدار امن فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر، ہمیں اسے مزید متعلقہ بنانا چاہیے۔" بھارت کی پاکستان پر تنقیداس موقع پر اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نے پاکستان پر بھارتی حملوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس نے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہی نشانہ بنایا۔
اور کہا کہ بھارت "اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑا حصہ دینے والا ملک ہے اور امن فوج میں خواتین کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔"بھارتی مندوب ہریش نے پاکستان پر نکتہ چینی کرنے کے لیے بھارتی معیشت کی ترقی کو اجاگر کیا اور کہا بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے، جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بنیاد پر ٹکا ہے۔
انہوں نے کہا، "بھارت برصغیر میں ترقی اور خوشحالی اور ترقی کے ماڈلز کے طور پر ایک بالکل برعکس تصویر پیش کرتا ہے۔"
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ "قوم کے خیالات اور فریقین کی رضامندی تنازعات کے پرامن حل کے حصول کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں"، بھارتی سفارت کار نے نتیجہ اخذ کیا کہ "بھارت کثیرالجہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔"
انہوں نے اقوام متحدہ کے کام کاج کے طور طریقوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ "ہم ایک ایسے وقت میں ہیں، جہاں کثیرالجہتی نظام، خاص طور پر اقوام متحدہ کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔"
ادارت: جاوید اختر