Daily Ausaf:
2025-06-09@10:59:40 GMT

براہیم کی تلاش

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

فکری اساس کے مالکوں کے نزدیک کوئی مانے یا نہ مانے لیکن زمینی حقائق کی طرف دیکھیں تو اس حقیقت سے انکار ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس کا وجود آج ایک دفعہ پھر ایک ایسے صنم کدہ کی تصویر پیش کر رہا ہے جہاں پر ہر کسی نے الگ الگ اپنی عقیدت کی بنا پر طرح طرح کے بت تراش رکھیں ہیں اور کفر کی ان حدوں کو چھو رہے ہیں جہاں بقول علامہ اقبال
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
گہرائی سے دیکھیں تو اہل فکر کی یہ چنوتی کوئی معمولی بات دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ان کے نزدیک زمینی حقائق ایک دفعہ پھر انہی تفکرات کو سپورٹ کر رہے ہیں جن سے ہمیں 1969 ء سے لے کر 1971 ء کے درمیان پالا پڑا جس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا کہ جس طرح اس بحران کے وقت مرکزی قیادت کا فقدان نظر آیا بالکل اسی طرح کا قحط الرجال آج کل ان دنوں نظر آ رہا ہے۔ تاریخ کے بند کواڑ کھلیں تو پتا چلتا ہےکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئےجس catalyst کا استعمال کیا گیا وہ مشرقی پاکستان کے عوام کے دل ودماغ میں احساس محرومی کی وہ پیوند کاری تھی جس کا دشمن نے بڑی کامیابی سے استعمال کیا اور دیکھتے دیکھتے اس کے نتیجے میں جو فصل تیار ہوئی وہ پھر کسی صورت کسی کے کنٹرول میں نہ آ سکی۔
وسعت نظری سے دیکھیں تو اگر اس وقت ذمہ دار مرکزی قیادت میسر ہوتی اور ان میں معاملہ فہمی کی صلاحیت ہوتی تو وہ اس بیماری کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اس کے علاج پر توجہ دیتی اور وہاں کے مسائل سے نمٹنے کے لئے وہاں کے لوگوں کی مقامی قیادت کے ذریعے ان سے رابطہ کرتی تو شائد 16 دسمبر 1971 ء کو ہمیں وہ دن دیکھنا نہ پڑتا جس کا ہم آج تذکرہ کر رہے ہیں۔ زمینی حقائق کی طرف دیکھیں تو عمومی طور پر صوبہ کے پی کے اور خصوصاً صوبہ بلوچستان کے حالات اس وقت بالکل وہی تصویر دکھا رہے ہیں جہاں پر دشمن نے ان دونوں صوبوں کے عوام کے ذہنوں میں احساس محرومی کا ایک دفعہ پھر ایسا زہرگھول دیا ہے کہ جو خاکم بدہن پھر کسی بہت بڑا حادثے کی طرف لیڈ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دشمن کا کام ہوتا ہے وار کرنا اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے اس کا کیسے دفاع کرنا ہے جس کے لئے آپ کو قومی اتفاق رائے کے ذریعے ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی طے کرنی پڑتی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہےجب کسی ایک قیادت پر سب کا اعتماد ہو لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ قیادت بھی تو ایسی ہو جو کسی تفرقہ بازی، بغض، ذاتیات یا دوسرے مغلظات سے پاک ہو۔ اس سباق اہل نظر سے جب بات ہو تو وہ اس معاملہ پر کافی مایوس دکھائی دیتے ہیں شائد اسی لئے وہ علامہ اقبال کے شعر کا وہ مصرعہ کہ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے بار بار دھراتے ملتے ہیں۔جس طرح بچھو کی فطرت میں ہوتا ہے کہ اس نے ڈنگ ضرور مارنا ہے اسی طرح دشمن کی جبلت میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس نے وار کیے بغیر نہیں رہنا۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے کبھی کوئی ایسا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس سے پاکستان کا نقصان نہ ہو بلکہ وہ ہر لمحہ اس جستجو میں رہتا ہے کہ کس طرح پاکستان کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں کبھی بھی بھارت کے خلاف کائونٹر اٹیک کی پالیسی پر عمل نہیں کیا گیا۔ زندہ مثال آپ کے سامنے ہے کہ آپ کے ملک میں دہشت گردی کی ہر واردات کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے لیکن اس کی قیادت ہر فورم پر کوئی ایسا موقع ہاتھ سےجانے نہیں دیتی جہاں وہ یہ واویلہ نہ کرے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہوتی ہے اس کا ماخذ پاکستان ہی ہوتا ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے پاکستان کے ان سفارتی نمائندوں پر جو پاکستان کو کروڑوں میں پڑتے ہیں لیکن کیا مجال کہ کبھی انھوں نے عالمی فورمز پر اس بابت بھارت سے دستاویزی ثبوت مانگے ہوں جبکہ ان کے پاس تو readily available دستاویزی ثبوت ہیں کہ بھارت دوسرے ملکوں میں کس طرح اپنی انٹیلی ایجنسی را کے ذریعے قتل و غارت گری کرتا ہے جس کا زندہ ثبوت کنیڈین حکومت کی رپورٹس ہیں۔ اسے آپ اپنی سفارتی نااہلی نہیں مانیں گے تو پھر کیا کہیں گے کہ آپ جو نہیں ہیں وہ بھارت دنیا میں ثابت کر رہا ہے اور وہ جو ہے آپ اسے ثابت نہیں کر پا رہے۔
میرے ملک کے ساتھ کوئی ایک المیہ ہو تو اس پر ماتم کیا جائے یہاں تو سیاپا پروگرام کی ایک سیریز ہے کہ پالیسی سازوں کی عقل پر حیرت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو ایک دو فیصد اہل فکر رہ گئے ہیں وہ نجی محفلوں میں اکثر اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ جب سی پیک پلان ہو رہا تھا تو یہ اندھے سے اندھے بندے کو بھی نظر آ رہا تھا کہ دو ممالک امریکہ اور بھارت کسی صورت اسے برداشت نہیں کر سکیں گے اور وہ ہر ممکن یہ اقدامات اٹھائیں گے کہ اس کی راہ میں کیا رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور ان کا سب سے آسان ہدف اور motis apprendi یہ ہوگا کہ وہ چند مٹھی بھر عناصر جو ایک عرصہ سے احساس محرومی کا رونا روکر بلوچوں کی اکثریت کو ورغلانے کی کوششیں کر رہے ہیں ان کو نہ صرف سپورٹ کیا جائیگا بلکہ ان کی جنگی بنیادوں پر مدد بھی کی جائیگی لیکن ہماری بدنصیبی کہ ہم نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی اور دیکھ لیں کہ یہ کینسر آج ہمارے جسم میں اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ شائد اب کوئی میجر سرجری بھی ہمیں اس بیماری سے نجات نہ دلا سکے دوسری طرف دیکھیں کہ کوئی ایسا تھنک ٹینک نہیں جو یہ پڑھ سکے کہ امریکہ کے طالبان حکومت سے رابطے، طالبان کا امریکی قیدی کو چھوڑنا اور پھر بلگرام کے ائیر بیس کے متعلق جو ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے وہ کس طوفان کا پیش خیمہ ہیں۔ کالم کی طوالت کے پیش نظر اس قحط الرجال پر صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس صنم کدہ میں یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دیکھیں تو رہے ہیں کی تلاش ہوتا ہے رہا ہے

پڑھیں:

بھارتی وفد کا ایجنڈا کسی کو سمجھ نہیں آیا، شیری رحمان

فائل فوٹو

پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفد کی رکن سینیٹر شیری رحمان نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی وفد کا ایجنڈا کسی کو سمجھ نہیں آیا۔

پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفد کی رکن کا کہنا تھا کہ بھارتی وفد پاکستان کے خلاف بیان لینے آیا تھا، جس میں ناکامی ہوئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ  تین روز کے دوران بلاول بھٹو برطانوی تھنک ٹینک اور میڈیا سے گفتگو کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی وفد کا ایجنڈا کسی کو سمجھ نہیں آیا، شیری رحمان
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • اپر دیر: دریائے گوالدائی پر بنے عارضی پل سے گر کر 2 نوجوان 2 لڑکیاں ڈوب گئیں
  • آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
  • بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو بھر جنگ ہوگی اور وہ آخری ہوگی، پیرپگارا
  • پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، رانا ثنا اللہ
  • دادو کینال میں ڈوبنے والے 2 نوجوانوں کو بچا لیا گیا، تیسرے کی تلاش جاری
  • بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو بھر جنگ ہوگی اور وہ آخری ہوگی: پیرپگارا
  • جوکر مودی!
  • پاک بھارت کشیدگی،87 گھنٹے کی جنگ اصل واقعہ نہیں صرف ٹریلر تھا،شیری رحمان