فکری اساس کے مالکوں کے نزدیک کوئی مانے یا نہ مانے لیکن زمینی حقائق کی طرف دیکھیں تو اس حقیقت سے انکار ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس کا وجود آج ایک دفعہ پھر ایک ایسے صنم کدہ کی تصویر پیش کر رہا ہے جہاں پر ہر کسی نے الگ الگ اپنی عقیدت کی بنا پر طرح طرح کے بت تراش رکھیں ہیں اور کفر کی ان حدوں کو چھو رہے ہیں جہاں بقول علامہ اقبال
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
گہرائی سے دیکھیں تو اہل فکر کی یہ چنوتی کوئی معمولی بات دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ان کے نزدیک زمینی حقائق ایک دفعہ پھر انہی تفکرات کو سپورٹ کر رہے ہیں جن سے ہمیں 1969 ء سے لے کر 1971 ء کے درمیان پالا پڑا جس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا کہ جس طرح اس بحران کے وقت مرکزی قیادت کا فقدان نظر آیا بالکل اسی طرح کا قحط الرجال آج کل ان دنوں نظر آ رہا ہے۔ تاریخ کے بند کواڑ کھلیں تو پتا چلتا ہےکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئےجس catalyst کا استعمال کیا گیا وہ مشرقی پاکستان کے عوام کے دل ودماغ میں احساس محرومی کی وہ پیوند کاری تھی جس کا دشمن نے بڑی کامیابی سے استعمال کیا اور دیکھتے دیکھتے اس کے نتیجے میں جو فصل تیار ہوئی وہ پھر کسی صورت کسی کے کنٹرول میں نہ آ سکی۔
وسعت نظری سے دیکھیں تو اگر اس وقت ذمہ دار مرکزی قیادت میسر ہوتی اور ان میں معاملہ فہمی کی صلاحیت ہوتی تو وہ اس بیماری کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اس کے علاج پر توجہ دیتی اور وہاں کے مسائل سے نمٹنے کے لئے وہاں کے لوگوں کی مقامی قیادت کے ذریعے ان سے رابطہ کرتی تو شائد 16 دسمبر 1971 ء کو ہمیں وہ دن دیکھنا نہ پڑتا جس کا ہم آج تذکرہ کر رہے ہیں۔ زمینی حقائق کی طرف دیکھیں تو عمومی طور پر صوبہ کے پی کے اور خصوصاً صوبہ بلوچستان کے حالات اس وقت بالکل وہی تصویر دکھا رہے ہیں جہاں پر دشمن نے ان دونوں صوبوں کے عوام کے ذہنوں میں احساس محرومی کا ایک دفعہ پھر ایسا زہرگھول دیا ہے کہ جو خاکم بدہن پھر کسی بہت بڑا حادثے کی طرف لیڈ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دشمن کا کام ہوتا ہے وار کرنا اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے اس کا کیسے دفاع کرنا ہے جس کے لئے آپ کو قومی اتفاق رائے کے ذریعے ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی طے کرنی پڑتی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہےجب کسی ایک قیادت پر سب کا اعتماد ہو لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ قیادت بھی تو ایسی ہو جو کسی تفرقہ بازی، بغض، ذاتیات یا دوسرے مغلظات سے پاک ہو۔ اس سباق اہل نظر سے جب بات ہو تو وہ اس معاملہ پر کافی مایوس دکھائی دیتے ہیں شائد اسی لئے وہ علامہ اقبال کے شعر کا وہ مصرعہ کہ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے بار بار دھراتے ملتے ہیں۔جس طرح بچھو کی فطرت میں ہوتا ہے کہ اس نے ڈنگ ضرور مارنا ہے اسی طرح دشمن کی جبلت میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس نے وار کیے بغیر نہیں رہنا۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے کبھی کوئی ایسا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس سے پاکستان کا نقصان نہ ہو بلکہ وہ ہر لمحہ اس جستجو میں رہتا ہے کہ کس طرح پاکستان کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں کبھی بھی بھارت کے خلاف کائونٹر اٹیک کی پالیسی پر عمل نہیں کیا گیا۔ زندہ مثال آپ کے سامنے ہے کہ آپ کے ملک میں دہشت گردی کی ہر واردات کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے لیکن اس کی قیادت ہر فورم پر کوئی ایسا موقع ہاتھ سےجانے نہیں دیتی جہاں وہ یہ واویلہ نہ کرے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہوتی ہے اس کا ماخذ پاکستان ہی ہوتا ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے پاکستان کے ان سفارتی نمائندوں پر جو پاکستان کو کروڑوں میں پڑتے ہیں لیکن کیا مجال کہ کبھی انھوں نے عالمی فورمز پر اس بابت بھارت سے دستاویزی ثبوت مانگے ہوں جبکہ ان کے پاس تو readily available دستاویزی ثبوت ہیں کہ بھارت دوسرے ملکوں میں کس طرح اپنی انٹیلی ایجنسی را کے ذریعے قتل و غارت گری کرتا ہے جس کا زندہ ثبوت کنیڈین حکومت کی رپورٹس ہیں۔ اسے آپ اپنی سفارتی نااہلی نہیں مانیں گے تو پھر کیا کہیں گے کہ آپ جو نہیں ہیں وہ بھارت دنیا میں ثابت کر رہا ہے اور وہ جو ہے آپ اسے ثابت نہیں کر پا رہے۔
میرے ملک کے ساتھ کوئی ایک المیہ ہو تو اس پر ماتم کیا جائے یہاں تو سیاپا پروگرام کی ایک سیریز ہے کہ پالیسی سازوں کی عقل پر حیرت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو ایک دو فیصد اہل فکر رہ گئے ہیں وہ نجی محفلوں میں اکثر اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ جب سی پیک پلان ہو رہا تھا تو یہ اندھے سے اندھے بندے کو بھی نظر آ رہا تھا کہ دو ممالک امریکہ اور بھارت کسی صورت اسے برداشت نہیں کر سکیں گے اور وہ ہر ممکن یہ اقدامات اٹھائیں گے کہ اس کی راہ میں کیا رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور ان کا سب سے آسان ہدف اور motis apprendi یہ ہوگا کہ وہ چند مٹھی بھر عناصر جو ایک عرصہ سے احساس محرومی کا رونا روکر بلوچوں کی اکثریت کو ورغلانے کی کوششیں کر رہے ہیں ان کو نہ صرف سپورٹ کیا جائیگا بلکہ ان کی جنگی بنیادوں پر مدد بھی کی جائیگی لیکن ہماری بدنصیبی کہ ہم نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی اور دیکھ لیں کہ یہ کینسر آج ہمارے جسم میں اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ شائد اب کوئی میجر سرجری بھی ہمیں اس بیماری سے نجات نہ دلا سکے دوسری طرف دیکھیں کہ کوئی ایسا تھنک ٹینک نہیں جو یہ پڑھ سکے کہ امریکہ کے طالبان حکومت سے رابطے، طالبان کا امریکی قیدی کو چھوڑنا اور پھر بلگرام کے ائیر بیس کے متعلق جو ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے وہ کس طوفان کا پیش خیمہ ہیں۔ کالم کی طوالت کے پیش نظر اس قحط الرجال پر صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس صنم کدہ میں یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دیکھیں تو رہے ہیں کی تلاش ہوتا ہے رہا ہے
پڑھیں:
بھارت کی روایتی الزام تراشی
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پرہونے والے حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اگلے روز میڈیا کے سوالات کے جواب میں ترجمان وزارت خارجہ نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پہلگام حملے میں سیاحوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور واقعہ میں ہلاک افراد کے لواحقین سے دلی تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔
ادھرمیڈیا رپورٹس کے مطابق اگلے روز ہی پہلگام واقعہ پردہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی برائے سیکیورٹی (CCS) کا ہنگامی اجلاس ہوا۔اس ہنگامی اجلاس کے بعد بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی کو 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی گئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ پہلگام حملے میں25 بھارتی اور ایک نیپالی شہری ہلاک ہوا۔بھارتی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ کابینہ کمیٹی کو بریفنگ میں دہشت گرد حملے کے سرحد پار روابط سامنے لائے گئے۔ یہ حملہ یونین ٹیریٹری میں انتخابات کے کامیاب انعقاد اور اقتصادی ترقی کی طرف اس کی مسلسل پیش رفت کے تناظر میں ہوا ہے۔دہشت گردانہ حملے پر کابینہ کمیٹی نے سندھ طاس آبی معاہدہ معطل کرنے سمیت اہم اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارتی سیکریٹری خارجہ کے مطابق اٹاری چیک پوسٹ کو فوری طور پر بند کر دیا جائے گا۔ بھارتی شہری جو پاکستان گئے ہیں ‘وہ یکم مئی 2025 سے پہلے اس راستے سے واپس آ سکتے ہیں۔سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت بھارت میں موجود پاکستانی شہری 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑ دیں۔پاکستانی شہریوں کو سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت ہندوستان آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ماضی میں پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے ویزے منسوخ تصور ہوں گے۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں دفاعی، ملٹری، بحری اور فضائی مشیروں کو پرسننا نان گراٹا (ناپسندیدہ) قرار دے کر انھیں ایک ہفتے میں بھارت چھوڑنے کی مہلت دی گئی ہے۔
بھارت اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن سے اپنے دفاعی، بحریہ، فضائی مشیروں کو واپس بلائے گا۔ متعلقہ ہائی کمیشنز میں یہ آسامیاں کالعدم ہوں گی۔ دونوں ہائی کمیشنز سے سروس ایڈوائزرز کے پانچ معاون عملے کو بھی واپس لے لیا جائے گا۔ہائی کمیشنوں کی مجموعی تعداد کو یکم مئی 2025 تک مزید کم کر کے 55 سے 30 تک لایا جائے گا۔بھارتی خبر رساں ایجنسی کے مطابق انڈین حکام نے پہلگام حملے میں بچ جانے والوں کی مدد سے تین مشتبہ حملہ آوروں کے خاکے اور ان کے نام اورعرفیت جاری کر دیے ہیں۔ ادھر بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے انڈین فضائیہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو ایسی کسی بھی دہشتگردانہ کارروائیوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا ہے۔ ان حملوں کا زوردار اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔
پہلگام کے واقعہ کے سلسلے میں انڈین حکومت ہر وہ قدم اٹھائے گی جو ضروری اور حالات کے مطابق ہو گا۔بھارتی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہم صرف ان لوگوں تک نہیں پہنچیں گے جنھوں نے اس واردات کو انجام دیا ہے ہم ان تک بھی پہنچیں گے جنھوں نے پس پردہ بھارت کی سرزمین پر ایسی سازشیں رچی ہیں۔بھارتی کانگریس پارٹی کے رہنما اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے پہلگام حملے پر اپنے ردعمل میں وزیراعظم مودی پر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر میں امن کی بحالی کے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے حکومت کو ہر صورت اس واقعے کی ذمے داری لینی چاہیے۔
بھارتی حکومت نے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں ابھی باقاعدہ طور پر تحقیقات مکمل نہیں کی ہیں۔ نا مکمل یا ابتدائی نوعیت کی کسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی بڑا یا حتمی فیصلہ کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔ پہلگام حملہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکا کے نائب صدر بھارت میں موجود تھے۔
اس حملے کے منصوبہ سازوں کے کیا مقاصد ہیں ‘ان کے بارے میں فوری طور پر رائے قائم کرنا درست نہیں ‘پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی ایک لمبی تاریخ ہے ‘ اس پس منظر کی وجہ سے بھارتی میڈیا نے ابتدا میں ہی پاکستان پر الزام تراشی کا آغاز کر دیا۔ بھارتی میڈیا کا یہ طرز عمل صحافتی اور ابلاغی اخلاقیات اور اصولوں کے برعکس ہے‘ بھارت کے بعض نام نہاد تجزیہ نگار جن کا ریکارڈ ہی بے تکی اور بے مقصد گفتگو کرنے سے عبارت ہے‘ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پاکستان پر انگلی اٹھانی شروع کر دی۔ اس قسم کی گفتگو مسائل کو حل کرنے کی بجائے زیادہ پیچیدہ بناتی ہے اور عوام کو کنفیوژ کرتی ہے۔
پاکستان کا موقف اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس واقعہ میں مارے جانے والوں کے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھی اگلے روز کہا کہ وہ کشمیر واقعہ میں مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں، انھوں نے واضح کیا کہ بھارت نے پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے کوئی شواہد نہیں دیے اور اس طرح بغیر شواہد غصہ نکالنا غیر مناسب ہے،بھارت کے اعلانات میں ناپختگی اور غیر سنجیدگی نظر آتی ہے۔
بدقسمتی سے بھارت ہر واقعے کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتا ہے اور ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی بلیم گیم پاکستان کی طرف ڈالنے کی کوشش کی گئی، اگر انڈیا کے پاس شواہد ہیں تو انھیں سامنے لائے۔پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعے سے متعلق بھارت کا پاکستان پر الزام لگانا مناسب نہیں، دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، جو دہشت گردی کا شکار ہیں وہ کیسے دہشت گردی کو فروغ دیں گے۔
انھوں نے کہا پاکستان کی افواج ہر جگہ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں، ہم دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔وزیر دفاع نے کہا پہلگام واقعہ میں فالس فلیگ آپریشن کی بات کو بالکل مسترد نہیں کیا جاسکتا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوال اٹھایا کہ بھارت کی سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں ہے تو بھارتی فوج سے بھی پوچھنا چاہیے، کہ اگر لوگ مارے جا رہے ہیں تو وہ وہاں کیا کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا بھارتی حکومت پہلگام واقعے کی تحقیقات کرے، صرف الزام لگانے سے ذمے داری سے جان نہیں چھڑا سکتے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے جو سوالات اٹھائے ہیں ‘ وہ بھارت میں بھی اٹھائے جا رہے ہیں‘ سیکیورٹی لیپس کی باتیں بھارت کے دانشور اور عوامی حلقے بھی کر رہے ہیں ‘ویسے بھی پہلگام کنٹرول لائن سے خاصی دور جگہ ہے ‘یہ جگہ خاصی محفوظ بھی سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس جگہ ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے‘ یوں دیکھا جائے تو سیکیورٹی لیپس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ اتنی اہم جگہ پر جہاں غیر ملکی اہم شخصیات بھی آتی ہیں ‘ پانچ چھ دہشت گرد جدید اسلحہ لے کر کیسے سرعام کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بھارت کو اس پہلو پر لازمی تحقیقات کرنی چاہئیں۔ جنوبی ایشیا میں ایسے گروہ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان فوجی تصادم کا شکار ہو جائیں‘ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز دونوں ملکوں میں موجود ہیں اور ایک دوسرے سے رابطے میں بھی ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی دونوں ملکوں کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام بھی اسے نا پسند کرتے ہیں۔ دہشت گردی پاکستان کے لیے بھی وبال جان بنی ہوئی ہے ‘ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی قیادت ہوشمندی کا مظاہرہ کرے اور اپنے ملک میں نفرتیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے‘ بھارتی میڈیا کا کردار انتہائی منفی رہا ہے۔ پاکستان کا موقف تو واضح ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے اور وہ اب تک دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے۔
پاکستان نے بھی بھارت کے اقدامات کا جواب دیا ہے ‘پاکستان نے بھارت کے لیے فضائی حدود پر پابندی لگا دی ہے ‘پاکستان کے راستے تجارت معطل کر دی ہے۔ بھارت نے پانی کا بہاؤ روکا یا رخ موڑا تو اسے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے یکطرفہ معطلی کے بھارتی اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو مسکت جواب دے دیا ہے۔ بھارتی قیادت کو معاملات کو زیادہ بگاڑنا نہیں چاہیے بلکہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے اس خطے میں دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہو گا اور قیام امن کا بھی راستہ ہموار ہوجائے گا۔کشیدگی میں اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں۔