ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے علاوہ بیشتر ممالک کیلئے اضافی ٹیرف 90 روز کیلئے معطل کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد ڈاؤ جونز میں 2 ہزار پوانٹس کی تیزی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ نیسڈک میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب خام تیل اور اسٹاک مارکیٹس میں بھی تیزی آگئی، خام تیل قیمت میں 2 فیصد اضافہ ہوگیا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوابی ٹیرف نہ لگانے والے ممالک پر اضافی ٹیرف 90 روز کے لیے معطل کر دیا، تاہم چین پر 125 فیصد ٹیرف فوری طور پر نافذ العمل کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ درآمدات پر پہلے سے عائد 10 فیصد ڈیوٹی بدستور نافذالعمل رہے گی۔ وائٹ ہاؤس نے واضح کیا کہ 90 روز کی معطلی کا اطلاق گاڑیوں، اسٹیل اور ایلومینیم پر عائد ٹیرف پر نہیں ہوگا۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ چین پر 125 فیصد محصولات فوری طور پر نافذالعمل ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اپنے محصولات کے منصوبے میں 90 روز کا وقفہ دے رہا ہوں، اضافی محصولات کی 90 روز کی معطلی فوری نافذ العمل ہوگی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد ڈاؤ جونز میں 2 ہزار پوانٹس کی تیزی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ نیسڈک میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب خام تیل اور اسٹاک مارکیٹس میں بھی تیزی آگئی، خام تیل قیمت میں 2 فیصد اضافہ ہوگیا۔ ادھر سونے کی عالمی قیمت میں 3 فیصد جبکہ یورو کرنسی میں 0.
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اضافی ٹیرف کے نفاذ سے چند گھنٹوں قبل نیشنل ریپبلکن کانگریشنل کمیٹی میں خطاب کیا۔ اپنے غیر شائستہ انداز میں خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ٹیرف پر دیگر ممالک ہمیں کال کر رہے ہیں اور ڈیل کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ علم میں رہے کہ امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کیا تھا، جس کے ردِ عمل میں بیجنگ نے بھی منہ توڑ جواب دیا۔ چینی وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ چین امریکی مصنوعات پر 84 فیصد محصولات عائد کرے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فیصد اضافہ ہوگیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ خام تیل کا کہنا
پڑھیں:
امریکہ نئے دلدل میں
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنیوالے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونیوالی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ تحریر: سید رضا میر طاہر
یمن کے خلاف امریکی فوجی آپریشن کے آغاز کے چند ہفتوں کے بعد امریکی میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کی اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے آپریشن کے سنگین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ 22 اپریل کو امریکی میگزین فارن پالیسی نے "حوثیوں کے خلاف ٹرمپ کی جنگ بے نتیجہ" کے عنوان سے ایک مضمون میں یمن میں انصار اللہ فورسز کے ٹھکانوں پر امریکی بحریہ کے غیر موثر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے حوثیوں پر حملوں میں اضافے کے پانچ ہفتے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کئی بڑی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یمن کے خلاف بیان بازی کے حقیقی نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکی حملے اب تک اپنے دو بیان کردہ اہداف میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، یعنی بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی آزادی کو بحال کرنا اور ڈیٹرنس کو دوبارہ قائم کرنا۔
امریکی حملوں کے باوجود بحیرہ احمر اور سویز کینال کے راستے جہاز رانی کم ہے، جس پر اب تک امریکہ کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ یمنی ملیشیا نے بھی خطے میں اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور ٹرمپ کے یمن کے "دلدل" میں داخل ہونے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل اور نیشنل ڈیفنس کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے 20 اپریل کو کہا ہے کہ یمن پر امریکی حملہ پہلے دن سے ہی ناکام ہوگیا ہے۔ امریکہ کو اس کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات کی سزا دی جائے گی۔ ٹرمپ ہمیں اس دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں امریکہ کو اس دلدل میں رہنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیئے۔ امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ٹرمپ نے امریکہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔
اس آپریشن پر اب تک امریکہ کو 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمت جاری ہے اور یمنیوں نے اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع ان حملوں کے بارے میں شفاف نہیں رہا ہے اور اس نے میڈیا کو بہت کم معلومات فراہم کی ہیں۔ یمن پر امریکی حملوں سے متعلق خفیہ معلومات کے افشا ہونے سے ملک کی عسکری قوتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ کے ممتاز امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی یمن کی فوج اور ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے بارے میں امریکی محکمہ دفاع کے دعووں پر سوال اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے CNN نے پینٹاگون کے ایک اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تحریک انصار اللہ کے پاس باقی ماندہ ہتھیاروں کی صحیح مقدار کا تعین کرنا مشکل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ انصار اللہ کے کچھ ٹھکانے تباہ ہوگئے ہیں، لیکن اس سے بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھنے کی ان کی صلاحیت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ سی این این نے مذکورہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ انصار اللہ اب بھی زیر زمین قلعہ بندی اور ہتھیاروں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونے والی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔