Islam Times:
2025-11-04@04:15:28 GMT

عمان میں وٹکوف کا کڑا امتحان

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

عمان میں وٹکوف کا کڑا امتحان

اسلام ٹائمز: غزہ اور یوکرین کے بارے میں مذاکرات کے دروازے بند ہو جانے کے بعد عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران سے بالواسطہ جوہری مذاکرات اسٹیو وٹکوف کے لیے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور وائٹ ہاوس میں مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے سنہری موقع ہے۔ مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر امن کی برقرار میں ناکامی نے وٹکوف کی سفارتی صلاحیتوں کے بارے میں بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں اور واشنگٹن میں اس کے خلاف سازشوں کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ وٹکاف مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے لہذا اسی بنا پر انہیں مشرق وسطی کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا ہے۔ البتہ یوکرین اور مشرق وسطی میں پائیدار امن کا دارومدار انصاف اور قومی حاکمیت جیسے مسائل پر ہے اور یہ ایسے مسائل ہیں جن سے وٹکوف دوری اختیار کرتے ہیں۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کی خارجہ سیاست کے خدوخال اسی وقت واضح ہو گئے تھے جب انہوں نے حلف برداری کی تقریب میں تقریر کی تھی۔ رئیل اسٹیٹ کے تاجر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا: "امریکہ مزید دوسری قوموں کے مالی اخراجات قبول نہیں کرے گا اور کسی کو بھی سفید چک نہیں دیں گے۔" امریکی صدر کے قریبی دوست، اسٹیو وٹکوف کو وزارت خارجہ کے عہدے پر فائز کیے جانے سے پہلے سفارتکاری کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان میں ٹرمپ کی نسبت دوسروں سے تعاون کرنے کا زیادہ جذبہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر انہیں سابق صدر جو بائیڈن کی کابینہ سے ٹرمپ کو حکومت کی منتقلی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ وائٹ ہاوس میں ٹرمپ کے اس قریبی دوست کا کوئی حریف موجود نہ ہو بلکہ وزیر خارجہ مارکو روبیو اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز وٹکوف کے سفارتی طرز عمل کے مخالف ہیں۔
 
غزہ کی مبہم صورتحال
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کا پہلا امتحان مغربی ایشیا میں اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا اور صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات چیت کی۔ اس ملاقات کے بعد وٹکوف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ اسٹیو وٹکوف نے غزہ سے فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کرنے پر مبنی ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کر کے اپنی نیک نیتی مشکوک بنا لی لیکن اس سال کے آغاز سے انہوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے جنیوا میں جنگ بندی معاہدے کے حصول میں بہت مدد کی جس کے ذریعے کافی تعداد میں اسرائیلی یرغمالی آزاد ہوئے ہیں۔ صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد مقبوضہ فلسطین میں وٹکوف کی کامیابیاں خطرے کا شکار ہو گئی ہیں۔
 
یوکرین میں جنگ کے شعلے
سعودی عرب کی میزبانی میں روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین جنگ سے متعلق مذاکرات انجام پائے تھے۔ ان مذاکرات میں اسٹیو وٹکوف کے ہمراہ وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر بھی امریکی وفد میں موجود تھے۔ وٹکوف نے ان مذاکرات میں ہنری کیسنجر کی حکمت عملی دہرانے کی کوشش کی۔ یاد رہے ہنری کیسنجر نے 1970ء کے عشرے میں ویت نام کی دلدل سے نکلنے اور اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے چین سے قربت پیدا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی تاکہ اس طرح سابق سوویت یونین اور چین میں اختلافات ڈال کر مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل کر سکے۔ آج وٹکوف اس کے برعکس حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے یعنی روس سے دوستی بڑھا کر اسے چین سے دور کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وٹکوف نے روس کا دورہ کیا اور روسی صدر ولادیمیر پیوتن سے ملاقات کی۔ لیکن ریپبلکنز کی جنگ طلب پالیسیاں وٹکوف کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔
 
اندرونی دشمن
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف یوکرین اور غزہ میں سفارتکاری کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں سے بھی روبرو ہیں۔ ریپبلکن نیوکونز ایک طرف نجی محفلوں میں ایک سفارتکار کی حیثیت سے وٹکوف کی صلاحیتوں کو چیلنج کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وٹکوف کے مطلوبہ تفکر ٹرمپ ازم (سازباز کو فوجی اقدام پر ترجیح حاصل ہونا) کے بھی شدید مخالف ہیں۔ اسٹیو وٹکاف جو ٹرمپ ازم کی جانب رجحان رکھتے ہیں کسی بھی فوجی اقدام سے پہلے سازباز اور معاہدہ انجام دینے کی بھرپور کوشش کے حامی ہیں۔ وہ براہ راست اور تیز سفارتکاری پر یقین رکھتے ہیں اور مذاکرات پر مبنی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جن کا تجربہ انہیں رئیل اسٹیٹ کے سودوں سے ہوا ہے۔ دوسری طرف مارکو روبیو اور مائیک والٹز روایتی ریپبلکنز کی سیاست کے حامی ہیں اور فوجی طاقت پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔
 
عمان میں سنہری موقع
غزہ اور یوکرین کے بارے میں مذاکرات کے دروازے بند ہو جانے کے بعد عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران سے بالواسطہ جوہری مذاکرات اسٹیو وٹکوف کے لیے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور وائٹ ہاوس میں مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے سنہری موقع ہے۔ مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر امن کی برقرار میں ناکامی نے وٹکوف کی سفارتی صلاحیتوں کے بارے میں بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں اور واشنگٹن میں اس کے خلاف سازشوں کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ وٹکاف مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے لہذا اسی بنا پر انہیں مشرق وسطی کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا ہے۔ البتہ یوکرین اور مشرق وسطی میں پائیدار امن کا دارومدار انصاف اور قومی حاکمیت جیسے مسائل پر ہے اور یہ ایسے مسائل ہیں جن سے وٹکوف دوری اختیار کرتے ہیں۔
 
کیا وٹکوف اچھی پولیس کا کردار ادا کر رہا ہے؟
اسٹیو وٹکوف نے معروف امریکی اینکر ٹاکر کارلسن سے بات چیت میں کہا کہ قطر چونکہ خطے میں استحکام برقرار رکھنے کی بہت زیادہ کوشش کرتا ہے لہذا امریکی ذرائع ابلاغ میں اسے ایران کا اتحادی قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس ملک کا مقصد خطے میں استحکام ہے۔ وٹکوف نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ خلیجی ریاستیں باہمی اختلافات کے باوجود اسرائیل سے وسیع تعلقات رکھتی ہیں اور ان ممالک کے درمیان اقتصادی اور فنی تعاون کے نتیجے میں مشرق وسطی میں ایک بڑی منڈی تشکیل پا سکتی ہے جو حتی یورپ کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ وٹکوف نے علاقائی مسائل کے حل کے لیے سفارتکاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایران بھی تیار ہو تو سفارتی طریقے سے مناسب راہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وٹکوف کے یہ بیانات خطے میں امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: خصوصی ایلچی کے بارے میں اور قومی کرتے ہیں انہوں نے ٹرمپ کے کی کوشش ہیں اور گیا ہے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

لبنان دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہے، جوزف عون

اپنی ایک تقریر میں لبنانی صدر کا کہنا تھا کہ ہم نے جنگ کا زمانہ دیکھا اور ہم جانتے ہیں کہ اس راستے کے انتخاب نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ مذاکرات اور سفارتکاری کی زبان اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بیروت، لبنانی صدر "جوزف عون" نے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کے ساتھ بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔ اس وقت لبنان کے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات اس وقت کئے جاتے ہیں جب دوسرا فریق، دوست یا اتحادی کی بجائے دشمن ہو۔ دوست کے ساتھ بات چیت کے لئے ثالثی یا معاہدے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن دشمن کے ساتھ مذاکرات، افہام و تفہیم اور امن کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے لبنان کو درپیش گزشتہ چیلنجز کے نتائج کی جانب اشارہ کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ کا زمانہ دیکھا اور ہم جانتے ہیں کہ اس راستے کے انتخاب نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ مذاکرات اور سفارت کاری کی زبان اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک پیشہ ور سیاستدان نہیں بلکہ ملک کی خدمت کرنے والے ایک عام آدمی ہیں۔ بعض لوگ لبنان کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں، حالانکہ لبنان ہے تو ہم ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے كہ اسرائیلی وزیر جنگ نے لبنان کے صدر جوزف عون پر جنگ بندی كے وعدوں پر عمل درآمد میں تاخیر کا الزام عائد کیا، حالانکہ صیہونی رژیم خود اسی معاہدے میں طے ہونے والی شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل پیرا نہیں۔ دوسری جانب جوزف عون نے بھی جمعے کے روز اسرائیل پر یہ الزام عائد کیا کہ تل ابیب نے مذاکرات کی دعوت کے جواب میں، اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحدی کشیدگی کئی ہفتوں سے جاری ہے، 2024ء کے آخر میں جنگ بندی کے اعلان کے باوجود، جنوبی لبنان پر روزانہ كی بنیاد پر صیہونی فضائی حملے جاری ہیں۔ اس صورت حال كے ساتھ ساتھ، امریکہ نے لبنانی حکومت پر حزب‌ الله کو غیر مسلح کرنے کے لئے اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے، جس کی حزب‌ الله اور اس کے اتحادیوں نے سخت مخالفت کی۔ قبل ازیں صیہونی وزیر جنگ "یسرائیل کاٹس" نے خبردار کیا کہ اسرائیل، مستقبل میں حزب‌ الله کے خلاف اپنے حملے تیز کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  •  امریکا کا یوٹرن‘ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے سے انکار
  • پاک افغان کشیدگی اور ٹرمپ کا کردار
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • لبنان دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہے، جوزف عون
  • پینٹاگون نے یوکرین کو ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • پینٹاگون نے یوکرین کو ٹوماہاک میزائل فراہمی کی منظوری دے دی
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • پینٹاگون: یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹاماہاک میزائلوں کی فراہمی منظور