ماسکو(نیوزڈیسک)روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے مبینہ ”خفیہ بیٹے“ کی پہلی تصویر منظرِ عام پر آ گئی ہے، جس نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے۔ برطانوی اخبار ”دی مرر“ کے مطابق یہ تصویر روسی حکومت مخالف ٹیلیگرام چینل ”VChK-OGPU“ نے شیئر کی ہے، جس میں 10 سالہ ایوان ولادی میر وووچ پیوٹن کو دکھایا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ بچہ مبینہ طور پر پیوٹن اور مشہور جمناسٹ علینا کابیوا کا بیٹا ہے، جسے ’عام روسیوں سے چھپا کر رکھا گیا‘۔چینل نے دعویٰ کیا کہ ’یہ روس کا سب سے خفیہ اور شاید سب سے تنہا بچہ ہے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’ایوان کسی اور بچوں سے بمشکل رابطہ رکھتا ہے، اور سارا وقت محافظوں، گورنِسز اور اساتذہ کے ساتھ گزارتا ہے۔‘
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ تصویر میں موجود بچہ ظاہری طور پر نوجوان پیوٹن سے مشابہت رکھتا ہے، اور وہ سخت سیکیورٹی میں قائم ایک محل میں زندگی گزار رہا ہے۔

یہ تصویر اس وقت روسی سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جہاں لوگ حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ پیوٹن کی ذاتی زندگی کس قدر خفیہ رکھی گئی ہے۔
پیوٹن کی سابقہ اہلیہ لیوڈمیلا شکرِب نیوا سے ان کی دو بیٹیاں ہیں: ماریا (پیدائش 1985، سینٹ پیٹرزبرگ) اور کترینا (پیدائش 1986، جرمنی)۔

”بزنس انسائیڈر“ کے مطابق دونوں بیٹیوں نے جعلی شناخت کے ساتھ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ماریا حیاتیات جبکہ کترینا ایشیائی مطالعات میں گریجویشن کر چکی ہیں۔ ماریا ایک میڈیکل ریسرچر ہے اور کترینا ایکروبیٹک ڈانسر ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیک ایگزیکٹو بھی ہیں۔
پیوٹن کی سابقہ اہلیہ کا کہنا تھا کہ ’سب باپ اپنے بچوں سے اتنا محبت نہیں کرتے جتنا وہ کرتے ہیں، وہ ہمیشہ انہیں بگاڑتے تھے اور ڈانٹنے کی ذمہ داری میری تھی۔‘
پیوٹن کی افواہ زدہ اولاد
افواہیں ہیں کہ پیوٹن کو علینا کابیوا سے دو بیٹے ہیں: ایوان ولادی میر وووچ اور ولادی میر جونیئر۔ یہ بچے روس کے علاقے والدای میں ایک سخت سکیورٹی والے محل میں رہتے ہیں۔ایک اور رپورٹ کے مطابق پیوٹن کی ایک مبینہ بیٹی سویتلانا کریوو نوگِخ سے بھی ہے، جو کبھی ان کے محل میں صفائی کا کام کرتی تھیں۔
یہ تمام تفصیلات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ولادیمیر پیوٹن کی ذاتی زندگی اور ان کے بچوں کے بارے میں معلومات کئی سالوں سے انتہائی راز میں رکھی گئی ہیں۔ اب لیک شدہ تصویر نے اس خفیہ پردے میں ایک شگاف ڈال دیا ہے، جس کے اثرات روسی سیاست اور عالمی میڈیا میں گونج رہے ہے
افغانستان!خواتین کے چائے،کافی اور قہوہ خانوں کی دلفریبیاں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے مطابق پیوٹن کی

پڑھیں:

اساتذہ کا وقار

کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے ساتھ ایک جونیئر سرکاری اہلکار کی بدسلوکی کا واقعہ اساتذہ کے وقار کی پامالی کی مثال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفاق صدیقی کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم ہیں، ان کے گھر کے سامنے ایک اور افسر بھی رہتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ڈاکٹر آفاق مغرب کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کچرا جلتے دیکھا،جس پر انھوں نے وہاں پر موجود افسر کے سیکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ وہ لکڑیوں کا کچرا نہ جلائے کیونکہ دھواں ان کے گھر میں آتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے،جس پر تلخ کلامی کے بعد گارڈ نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انھیں تھپڑ بھی مارا جس سے ان کا چشمہ ٹوٹ گیا اور آنکھ میں خون جمع ہوگیا۔ بعدازاں پروفیسر صاحب سے بدتمیزی کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل کرکے اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ 

کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں  کئی دفعہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ سینئر استاد و معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جب اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے تو ان کے بقول وہ علی الصبح اپنے گھر کے سامنے اس وجہ سے ورزش نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کے سامنے ایک بڑے صاحب رہتے تھے۔

ان بڑے صاحب کے سیکیورٹی گارڈز کا موقف تھا کہ گھر کی سیکیورٹی متاثر ہوتی تھی۔ یہ تمام مکانات کراچی یونیورسٹی کی ملکیت ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ایک سینئر استاد کے ساتھ بدسلوکی پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ ایک معزز استاد جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم و تحقیق کے لیے وقف کی ہے، انھیں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی مہذب ادارے یا معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ جامعہ کے اساتذہ علم ، تحقیق اور تہذیب کے نمایندے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ ادارہ جاتی روایت کا تقاضہ بھی ہے۔

 80 کی دہائی میں کراچی بھر میں تشدد کے واقعات عام ہوگئے تھے، بوری بند لاشیں ملنے لگیں اور سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی تو اس کے اثرات کراچی یونیورسٹی پر بھی پڑے۔ 1980کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی اور اس سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی طالب علم جاں بحق بھی ہوئے اور دونوں یونیورسٹیوں میں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک تدریس کا سلسلہ معطل رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طلبہ گروہوں میں تصادم کے فوری فائدے نظر آئے۔ اسی بناء پر اس وقت کی حکومت نے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔

 1988میں وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی وفاق اور سندھ میں حکومتوں میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو صدارت کا عہدہ سونپا اور جنرل مرزا اسلم بیگ سپہ سالار بن گئے۔

تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کے کچھ اور مقاصد تھے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی میدانِ جنگ بن گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی تھے مگر عملی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں میں مسلسل مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکن ایک تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت سندھ کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تھے، وہ پہلے گورنر تھے جو سندھ کی یونیورسٹیوں کے معاملات کو براہِ راست دیکھتے تھے۔

کراچی یونیورسٹی کے استاد کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعے پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی ہے۔ فی الحال یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا مگر مسئلے کا دائمی حل نہیں نکل سکا۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کی طرح کراچی کی یونیورسٹیوں میں بھی اپنی سیکیورٹی فورس ہونی چاہیے۔ اس فورس میں ایسے افراد کو بھرتی کیا جانا چاہیے جو اساتذہ اور طلبہ کے وقار کو ملحوظ رکھیں اور یونیورسٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی، سندھ حکومت کا گھوٹکی میں خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کا نوٹس، مکمل تحقیقات کا حکم
  • اساتذہ کا وقار
  • تجربہ کار آل راؤنڈر محمد نبی بیٹے کے ہاتھوں پٹ گئے
  • انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی بارڈر کراسنگ کی کوشش ناکام، بلوچستان سے 20بنگلہ دیشی گرفتار
  • بشری بی بی کے بیٹے موسی مانیکا کی زخمی ملازم سے صلح ہو گئی
  • عمران خان کے بیٹے پاکستان آئیں گے یا نہیں؟ علیمہ خان نے واضح کردیا
  • عمران خان کے بیٹے کب پاکستان آئیں گے، علیمہ خان نے بتادیا
  • بشریٰ بی بی کے بیٹے موسیٰ مانیکا کی زخمی ملازم سے صلح ہو گئی
  • موسیٰ مانیکا کی ملازم کو فائرنگ کرکے زخمی کرنے کے مقدمے میں ضمانت منظور
  • عماد وسیم کی مبینہ گرل فرینڈ کا ردعمل سامنے آگیا