فلسطین سے ملحقہ 23 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے، خواجہ سلیمان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تاجر رہنمائوں کا کہنا تھا کہ اگر اسلامی ممالک کے حکمران ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کرے تو اسرائیل پانچ منٹ میں نست و نابود ہو جائے گا لیکن اسلامی ممالک مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی تنظیم تاجران پاکستان نے مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے سلسلے میں 26 اپریل کو ملک گیر شٹر ڈاون کا اعلان کر دیا، ملتان میں اسرائیل مردہ باد ریلی اندرون شہر سے نکالی جائے گی اور مکمل شٹرڈاون ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے مرکزی چیئرمین خواجہ سلیمان صدیقی، مرکزی سنیئرنائب صدر حاجی بابر علی قریشی، جنوبی پنجاب کے صدر شیخ جاوید اختر، ضلع ملتان کے صدر سید جعفرعلی شاہ، ملتان کے صدر خالد محمود قریشی، تحفظ تاجر اتحاد کے صدر ملک نیاز بھٹہ نے پریس کلب میں اور پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ خواجہ سلیمان صدیقی نے مزید کہا کہ حکومت آج جہاد کا اعلان کریں لاکھوں تاجر اور عوام مظلوم فلسطینیوں کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہیں، افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ یہودی مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کر رہے ہیں تو اپنے امریکی و اسرائیلی مصنوعات و مشروبات کے بائیکاٹ کے نتیجے میں فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی مشروبات کی قیمتوں میں ازخود کئی گنا اضافہ کر کے ظلم ڈھا رہے ہیں، اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوگی اگر گورمے کمپنی اور نیکسٹ کولا کمپنی نے سات روز کے اندر مشروبات کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس نہ کیا اور مشروب میں کی گئی کمی پوری نہ کی تو ان کے مشروبات کا بھی مکمل طور پر بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیں گے اور پبلک مقامات پر ان کی پروڈکٹس کو نذرآتش کریں گے۔
تاجر رہنمائوں نے کہا کہ یہودی 800 سال کے بعد مسجد اقصی داخل ہو گئے ہیں مگر امت مسلمہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے، یہاں تک کہ فلسطین سے ملحقہ 23 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے، اگر اسلامی ممالک کے حکمران ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کرے تو اسرائیل پانچ منٹ میں نست و نابود ہو جائے گا، لیکن اسلامی ممالک مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، آج ایک بار پھر صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت کی ضرورت ہے جو یہودیوں کا مکمل طور پر قلع قمع کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں جماعت اسلامی کے قائد حافظ نعیم الرحمن کا شکر گزار ہوں کہ جماعت اسلامی نے 22 اپریل کو ملک گیر احتجاج کی کال دی تھی لیکن ملتان میں میری درخواست پر حافظ نعیم الرحمن نے 26 اپریل کو مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کی ملک گیر احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے 26 اپریل کو مل کر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے، اگر یہودی حکومت نے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم ختم نہ کیا تو مرکزی تنظیم تاجران پاکستان ائندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ عوام امریکی و اسرائیلی مصنوعات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں اور پاکستانی مصنوعات استعمال کریں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مرکزی تنظیم تاجران پاکستان مظلوم فلسطینیوں پر اسلامی ممالک کے کا اعلان کر اپریل کو کے خلاف کہا کہ کے صدر
پڑھیں:
ٹرمپ کو امن کا پیامبر قرار دینا فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، علامہ بشارت زاہدی
اپنے ایک بیان میں قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ اسلام ٹائمز۔ قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر علامہ بشارت حسین زاہدی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو "امن کا پیامبر" قرار دینے کے بیان نے بہت سے حلقوں میں شدید غم و غصے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ کی پالیسیاں اور ان کی حکومتی فیصلوں کو عالمی سطح پر، خصوصاً مسلم دنیا میں، سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
بیان پر تحفظات کے اہم نکات:
* فلسطینی تنازعہ اور القدس:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کیا گیا، جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کی صریح خلاف ورزی سمجھا گیا۔ اس فیصلے نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا اور دو ریاستی حل کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ایک ایسے شخص کو جو اس قسم کے فیصلے کا ذمہ دار ہو، "امن کا پیامبر" کہنا نہ صرف فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے بلکہ عالمی امن کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
* مسلم ممالک سے متعلق پالیسیاں:
ٹرمپ انتظامیہ نے بعض مسلم ممالک پر سفری پابندیاں عائد کیں، جسے "مسلم بین" کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پالیسی نہ صرف تعصب پر مبنی تھی بلکہ اس نے عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کو بھی فروغ دیا۔ ایسے اقدامات کرنے والے شخص کو امن کا علمبردار قرار دینا کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
* مقبولیت پسندی اور تقسیم کی سیاست:
ٹرمپ کی سیاست کو دنیا بھر میں مقبولیت پسندی اور تقسیم کو فروغ دینے والی سیاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور عالمی امن متاثر ہوا ہے۔ ان کے بیانات اور پالیسیاں اکثر عالمی سطح پر تصادم اور عدم استحکام کا باعث بنیں۔
اس بیان پر اٹھنے والے تحفظات اور غم و غصے کو سمجھنا مشکل نہیں۔ عوام کی یہ توقع بجا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ایسے بیانات سے گریز کریں، جو قومی غیرت اور عالمی امن کے اصولوں سے متصادم ہوں۔ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے رہنماء ایسے بیانات دیتے وقت زمینی حقائق اور عوامی جذبات کا پاس رکھیں، تاکہ قومی وقار اور عالمی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے۔