مقبوضہ فلسطینی علاقوں انسانی صورتحال انتہائی تشویشناک، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 اپریل 2025ء) غزہ میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری جنگ اور انسانی امداد کی فراہمی پر کڑی پابندیوں نے 22 لاکھ فلسطینیوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ علاقے میں شہری خدمات کا نظام بڑی حد تک تباہ ہو گیا ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد بالخصوص گزشتہ ہفتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے حملوں میں تیزی آئی ہے جس سے باقیماندہ شہری ڈھانچہ ملیامیٹ ہونے کا خطرہ ہے۔
اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ انخلا کے احکامات اور غزہ کے محاصرے نے لوگوں کی تباہ حال زندگیوں کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے جبکہ تقریباً آٹھ ہفتوں سے ان تک کوئی مدد نہیں پہنچی۔(جاری ہے)
Tweet URLدوسری جانب، مغربی کنارے میں اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور آبادکاروں کے تشدد میں فلسطینی شہری متواتر ہلاک، زخمی اور بے گھر ہو رہے ہیں۔
ہلاکتیں، بھوک اور مایوسی'او ایچ سی ایچ آر' نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مکمل محاصرے کے نتیجے میں پورا علاقہ خوراک اور ایندھن سمیت ہر طرح کی امداد سے محروم ہے۔ آٹا اور ایندھن نہ ہونے کے باعث تنور بند ہو رہے ہیں، بنیادی ضرورت کی خوراک انتہائی مہنگی ہو گئی ہے اور ساحل سمندر کے قریب اسرائیل کے حملوں سے ماہی گیری کی صنعت تباہ ہو رہی ہے۔
علاقے میں خوراک کے باقیماندہ ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جس سے بالخصوص بچوں میں غذائی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔ان حالات میں مایوسی اور بے چینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے اور ان میں اسلحہ استعمال ہونے کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔اسرائیل کے حملوں اور شہری حکام کو نشانہ بنائے جانے سے غزہ میں نفاذ قانون اور انصاف کا نظام بھی تباہ ہو گیا ہے جس سے شورش جنم لے رہی ہے۔
شہری خدمات پر حملے21 اور 22 اپریل کے درمیان اسرائیل کی فوج نے غزہ کے تین علاقوں میں بمباری کر کے 36 بلڈوزر، کھدائی کرنے والی مشینیں، پانی فراہم کرنے والے ٹرک اور سیوریج کا گندا پانی کھینچنے والے ٹینک تباہ کر دیے۔ یہ مشینری ملبہ ہٹانے، لوگوں کو پانی پہنچانے اور نکاسی آب کا نظام برقرار رکھنے کے لیے استعمال کی جا رہی تھی۔
اسرائیل کے اس اقدام سے ملبے تلے دب کر ہلاک ہونے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے کا کام متاثر ہو گا جبکہ کوڑا کرکٹ اٹھانے اور پناہ گاہوں میں پینے کا پانی پہنچانے کی خدمات برقرار نہیں رہ سکیں گی۔
نکاسی آب کے لیے استعمال ہونے والی مشینری کی تباہی سے علاقے میں گندا پانی جمع ہونے لگے گا جس سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔بین الاقوامی قانون کے تحت شہری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی مشینری کو تباہ کرنا غیرقانونی عمل ہے جو جنگی جرم کے مترادف ہو سکتا ہے۔
'او ایچ سی ایچ آر' نے بتایا ہے کہ 18 مارچ اور 22 اپریل کے درمیان غزہ میں رہائشی عمارتوں پر 229 اور بے گھر لوگوں کی خیمہ بستیوں پر 91 حملے ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔
18 اپریل کو اسرائیلی فوج نے تل الزعتر میں دو رہائشی عمارتوں پر حملہ کر کے 13 افراد کو ہلاک کیا جن میں آٹھ بچے اور ایک صحافی بھی شامل تھے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
اسی طرح، 24 اپریل کو غزہ شہر پر اسرائیل کی بمباری میں تین بچے اپنے والدین کے ساتھ مارے گئے۔بین الاقوامی قانون کی پامالیدفتر نے کہا ہے کہ شہریوں اور شہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملے عسکری کارروائیوں کے دوران اہداف میں امتیاز، طاقت کے متناسب استعمال اور احتیاط کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ گزشتہ 18 ماہ کے دوران غزہ میں بہت بڑے پیمانے پر شہریوں کے جانی نقصان سے بھی اسرائیل کی پالیسیوں اور طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ میں غزہ کے شہریوں کی زندگی سے مکمل لاپروائی برتی جا رہی ہے۔
اسرائیل کی پالیسیوں کا بظاہر مقصد غزہ کے شہریوں کو سزا دینا اور ان کے لیے ایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ ان کے لیے اس علاقے میں انسانی گروہ کی حیثیت سے اپنا وجود قائم رکھنا ممکن نہ رہے۔
ادارے نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ایسے حالات کا تدارک یقینی بنائیں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
مغربی کنارے میں آبادکاروں کا تشددمغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد سے فلسطینیوں کے ہلاک و زخمی ہونے اور ان کی املاک و روزگار کی تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔
ادارے نے بتایا ہے کہ 23 اپریل کو آبادکاروں نے راملہ کے علاقے سنجیل میں حملہ کر کے آٹھ فلسطینی بچوں کو زخمی کر دیا اور تین کھیت تباہ کر دیے۔ اطلاعات کے مطابق، اس واقعے کے بعد اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے ہنگامی مدد پہنچانے والے عملے کو زخمیوں تک پہنچنے اور آگ بجھانے سے روک دیا۔
21 اپریل کو تقریباً 200 آبادکاروں نے اسی علاقے میں تین گھر جلا دیے اور فلسطینیوں کی ملکیتی بھیڑیں چرا لیں۔23 اور 24 اپریل کو وادی اردن کے شمالی علاقے میں اسرائیلی آبادکاروں نے سات فلسطینیوں کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا، ان کے رہائشی خیمے اور مویشیوں کے باڑے نذرآتش کر دیے جبکہ اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے فلسطینی ایمبولینس گاڑیوں کو علاقے تک رسائی سے روکے رکھا۔
17 اپریل کو جنوبی ہیبرون میں اسرائیلی آبادکاروں نے 60 سالہ فلسطینی کی ٹانگ میں گولی مار کر اسے معذور کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے موقع پر پہنچ کر اس شخص کے 16 سالہ بیٹے کو اسرائیلی فورسز پر حملے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے اپنی گاڑیوں پر سنگ باری کرنے والے تین فلسطینیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جن میں دو بچے بھی شامل تھے۔
اس طرح 7 اکتوبر 2023 کے بعد مغربی کنارے میں ہلاک کیے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد 192 تک پہنچ گئی ہے۔ 23 اپریل کو سکیورٹی فورسز نے جنین میں بکتر بند گاڑی پر پتھر پھینکنے والے بچوں کے ایک گروہ پر فائرنگ کی جس سے 12 سالہ لڑکا ہلاک ہو گیا۔ 17 اپریل کو نابلوس میں بھی فورسز نے سنگ باری کرنے والے 16 اور 19 برس کے دو فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔'او ایچ سی ایچ آر' کا کہنا ہے کہ مہلک طاقت زندگی کو تحفظ دینے کے لیے انتہائی ناگزیر حالات میں ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔
جن لوگوں سے زندگی کو خطرہ لاحق نہ ہو ان کے خلاف انتہائی طاقت کا استعمال انہیں زندگی کے حق سے ناجائز طور پر محروم کیے جانے کے مترادف ہے۔آبادی کی جبری منتقلیمغربی کنارے کے شمالی حصے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی کارروائی اب تیسرے مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ جینین اور تلکرم کے پناہ گزین کیمپوں سے نقل مکانی کرنے والوں کو واپسی سے روکا جا رہا ہے جبکہ بڑے پیمانے پر عمارتوں کی تباہی، کیمپوں کے اندر نئی سڑکیں اور رکاوٹیں تعمیر کرنے اور دیہات و قصبوں پر حملوں جیسی کارروائیاں جاری ہیں۔
ادارے نے کہا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ فلسطینیوں کی ان کیمپوں میں واپسی کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ لوگ مستقل طور پر بے گھر ہو جائیں گے جو بین الاقوامی قانون کے تحت قابض طاقت کے ہاتھوں مقامی آبادی کی جبری منتقلی کے مترادف ہو گا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بین الاقوامی قانون او ایچ سی ایچ آر نے بتایا ہے کہ فلسطینیوں کی آبادکاروں نے میں اسرائیلی میں اسرائیل اسرائیل کے علاقے میں کے لیے اس اپریل کو کی تباہ رہے ہیں نے والے غزہ کے کے بعد کر دیا اور ان رہی ہے
پڑھیں:
امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان
امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ امریکی زبان بولنے والا فلسطینیوں کا نمائندہ نہیں ہو سکتا، قبلہ اول پر صہیونی حملہ آور ہیں، حماس نے 7 اکتوبر کو جائز حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے جبکہ اسرائیلی یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کام اپنے حکمرانوں کو جگانا ہے، مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، جو اسرائیل کو مسلمانوں کو مارنے کا کہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے پشت پر کھڑا ہے، جبکہ مسلمان خاموش ہیں، اس لئے بچے شہید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی زبان بولنے والا فلسطینیوں کا نمائندہ نہیں ہو سکتا، قبلہ اول پر صہیونی حملہ آور ہیں، حماس نے 7 اکتوبر کو جائز حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے جبکہ اسرائیلی یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کام اپنے حکمرانوں کو جگانا ہے، مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے۔
انہوں نے تاجروں پر زور دیا کہ اپنی مصنوعات بنائیں اور کارخانے لگائیں تاکہ ہم غیر مسلموں کی مصنوعات کا مقابلہ کر سکیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ تاجر اپنی مصنوعات کے قیمتیں بھی مناسب رکھیں تاکہ لوگ خرید سکیں، اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ علمائے کرام کے جہاد کے اعلان کا مذاق نہ اُڑایا جائے، ایک ایک بندہ اگر بندوق اٹھا نہیں سکتا تو اپنے حکمرانوں کو تو مجبور کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 اپریل کی ہڑتال کسی کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی اسرائیل کیخلاف ہے۔