کراچی: کینال منصوبے کیخلاف گلشن حدید لنک روڈ پر وکلاء کا احتجاج جاری
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
فوٹو بشکریہ پی پی آئی
کراچی میں کینال منصوبے کے خلاف گلشن حدید لنک روڈ پر وکلاء کا احتجاج جاری ہے۔
ٹریفک پولیس کے مطابق نیشنل ہائی وے سے جانے والے لنک روڈ کے دونوں ٹریک ٹریفک کےلیے بند ہیں۔
ٹرانسپورٹرز نے کہا کہ 11 روز سے سکھر احتجاج میں 40 ہزار کے قریب مال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔
ٹریفک پولیس نے بتایا کہ کراچی سے ٹھٹہ آنے اور جانے والے دونوں ٹریک بھی ٹریفک کےلیے بند ہیں اور کراچی سے ٹھٹہ جانے والے ٹریفک کو پورٹ قاسم چورنگی سے پورٹ قاسم کی جانب بھیجا جا رہا ہے۔
اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے گلشن حدید لنک روڈ پر ریپڈ ریسپانس فورس کی نفری پہنچی۔
اس حوالے سے ایس ایس پی ملیر کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ مذاکرات سے احتجاج کو ختم کروائیں، اگر مذاکرات کے بعد بھی روڈ نہیں کھولا گیا تو کارروائی کریں گے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: لنک روڈ
پڑھیں:
بنیادی انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹریفک کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے نافذ کیے گئے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) نے شہریوں، ماہرین اور سیاسی حلقوں میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔
27 اکتوبر سے نافذ العمل ہونے والے اس ڈیجیٹل ای چالان نظام کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ شہر میں ٹریفک سے متعلق بنیادی انفرا اسٹرکچر کا تباہ حال ہونا ہے۔ اربن پلانرز اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی 60 فیصد سے زائد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جب کہ اندازاً 80 فیصد سے زائد شاہراہوں پر ٹریفک کے اشارے (سگنلز) اور علامات نصب ہی نہیں ہیں، یا درست کام نہیں کررہے۔ ایسے میں ٹریفک مینجمنٹ قائم کیے بغیر جدید ترین مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ خودکار نظام (ٹریکس) کس طرح کامیابی سے کام کرے گا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔
شہری حلقوں کی جانب سے تحفظات کا دوسرا اہم نکتہ جرمانوں کی غیر معمولی حد تک زیادہ شرح ہے، جو 5 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ شہریوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بے روزگاری اور کم آمدنی والے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے بھاری جرمانے کیسے ادا کر پائیں گے۔
قانون دانوں اور سیاسی رہنماؤں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ جب ملک کے دیگر شہروں مثلاً لاہور میں چالان کی شرح بہت کم ہے تو کراچی کے شہریوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے، جو آئینی طور پر ایک ملک میں دو قوانین کی موجودگی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے اس نظام کو ظالمانہ رویہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف عوامی احتجاج بلکہ عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد اس نظام کا مستقبل اب سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے منسلک ہو گیا ہے۔