پاک بھارت کشیدگی موجود ہے۔ بھارت کی طرف جنگ کا ماحول زیادہ ہے لیکن پاکستان میں بھی جنگ کی تیاری کی بات ہو رہی ہے۔ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ لیکن پاکستان جنگ کے لیے تیار ہے۔ پاکستان میں یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے بلکہ موقف یہی نظر آرہا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ بھارت کے ہر قدم کا اس سے زیادہ طاقت سے جواب دیا جائے گا۔ پہلے بھی بھارت نے جو اقدامات کیے ہیں ہم نے ان سے زیادہ سخت اقدامات سے جواب دیا ہے۔
جہاں تک بھارت کی جانب سے انڈس واٹر معاہدہ کو معطل کرنے کا سوال ہے۔ دونوں ممالک کے ماہرین کی یہی رائے سامنے آئی ہے کہ فی الحال بھارت کے پاس پاکستان کا پانی روکنے کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ بھارت چاہتے ہوئے بھی پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا۔ دریاوں کا پانی کوئی پانی کا نلکا نہیں کہ جب دل چاہا کھول دیا بند کر دیا۔ دریاوں کا پانی بند کرنے کے لیے ڈیم بنانے بنانے پڑتے ہیں، نہریں بنانی پڑتی ہیں جو ابھی بھارت کے پاس نہیں۔ اگر آج بھارت یہ فیصلہ کر بھی لے کہ اس نے انڈس واٹر ٹریٹی کو ختم کر کے پاکستان کا پانی روکنا ہے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق اسے دس سال چاہیے ہونگے۔ اس لیے فی الحال یہ صر ف ایک اعلان ہے جس کے پیچھے گراؤنڈ پر کچھ نہیں۔
عالمی رد عمل بھی بھارت کے حق میں نہیں۔ بھارت کو دنیا کے بڑے ممالک سے اس طرح کی حمایت نہیں مل سکی ہے جیسے وہ چاہتا ہے۔ ہر ملک نے محتاط رد عمل دیا ہے۔ جس میں پاکستان کی خود مختاری اور سا لمیت کو یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔ کسی ملک نے بھی بھارت کی کسی بھی قسم کی جارحیت کے حق کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ سب نے تحمل کی بات کی ہے۔
سب سے مزیدار ردعمل ڈونلڈ ٹرمپ کا رہا ہے جنھوں نے ایک تو کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک ہزار سال سے لڑ رہے ہیں اور دوسرا دونوں اپنے مسائل کا خود ہی حل نکالنا جانتے ہیں۔ اس طرح بھارت کو امریکا سے بھی کوئی خاص حمایت نہیں ملی ہے۔ چین نے بھر پور پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ باقی دنیا نے بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ امریکا نے کشمیر پر کوئی بھی موقف لینے سے اجتناب کیا ہے۔ نہ تو اسے بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں امریکا اس معاملہ میں نہ بھارت کے ساتھ ہے اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ہے۔ وہ غیر جانبدار رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا۔ پاکستان نے بھارتی جہازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ اس سے بھارت کو روزانہ نقصان ہو رہا ہے، بھارت کیا جواب دے گا۔ ابھی تک بھارت نے جو اقدامات کیے ہیں پاکستان نے ان سے زیادہ جواب دے دیا ہے۔ آگے کیا ہوگا۔ نریندر مودی کے پاس کیا آپشن ہیں۔ کیا مودی کوئی سرجیکل اسٹرائیک کر سکتے ہیں۔
2019 میں کی تھی۔ وہ کوئی اچھا تجربہ نہیں رہا تھا۔ پاکستان نے اگلے دن جواب دیا تھا۔ اب اگر وہ اسٹرائیک کریں گے تو جواب ضرور ملے گا۔ جواب سخت بھی ہو سکتا ہے۔ پھر کیا ہوگا۔ کیامودی سرجیکل سٹر ائیک کر کے فتح کا جشن منا سکتے ہیں۔ ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ عالمی رائے عامہ یہی ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنر ل عاصم منیر زیادہ سخت جنرل ہیں۔ وہ رعایت نہیں کریں گے۔
اس لیے بھارت کو مشکل ہو سکتی ہے۔ دونوں ملک کسی بھی بڑی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے سرجیکل اسٹرائیک معاملہ کو ٹھنڈا نہیں کرے گی بلکہ بگاڑ دے گی۔ بھارت کے پاس اب محدود آپشن ہیں وہ پاکستان سے بڑی جنگ نہیں چھیڑ سکتا۔ دونوں ممالک کے پاس ایٹم بم موجود ہیں۔ جو دونوں ممالک کو جنگ سے روکتے ہیں۔ یہ خطرہ بہر حال موجود رہتا ہے کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو ایٹم بم استعمال ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
بھارت نے بلا شبہ گزشتہ تین سال سو ارب سے زائد کا اسلحہ خریدا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ بھارت بے وجہ یہ اسلحہ نہیں خرید رہا۔ اس کے جنگی عزائم ہے۔ بھارت خطے میں اسلحہ کی دوڑ تیز کر رہا ہے۔ کیا بھارت چین سے جنگ کرنا چاہتا ہے۔ نہیں۔ بھارت نے ہمیشہ چین سے جنگ سے دوری رکھی ہے۔ جنگ وہ پاکستان سے چاہتا ہے۔ لیکن پاکستان کی ایٹمی طاقت نے اسے روکا ہوا ہے۔ اس لیے اب عالمی رائے یہی ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت نے خطے کو جنگ سے روکا ہوا ہے۔
اگر جنگ نہیں، اگر سرجیکل اسٹرائیک نہیں تو پھر مودی کے پاس کیا آپشن ہیں۔ وہ اپنی عوام کو کیسے مطمئن کریں گے۔انھیں جیت کا جشن چاہیے۔ آخری دفعہ2019میں انھوں نے سرجیکل اسٹرائیک کے چکر میں جشن منا لیا تھا۔ اب کیا ہوگا۔ اب کی دفعہ کہا گیا ہے کہ ایک کے مقابلے دو اسٹرائیک کی جائیں گی۔ پاکستان میزائیل چلائے گا۔
اس لیے بھارت کے لیے رسک زیادہ ہے۔ لائن آف کنٹرول گرم ہو چکی ہے۔ اگر آپ بھارتی اخبارات پڑھیں تو ان کی ہیڈ لائنز ہیں کہ پاکستانی فوج نے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کی۔ آپ پاکستانی میڈیا کو دیکھ لیں تو خبر ملے گی کہ بھارت لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کر رہا ہے۔ بہر حال لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہے اور دونوں طرف سے فائرنگ ہو رہی ہے۔ ابھی تک جانی نقصان کی کوئی خبر نہیں۔
لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا دونوں ممالک کو کافی تجربہ ہے۔ مودی نے کافی عرصہ لائن آف کنٹرول کو گرم رکھا ہے۔ اس لیے یہ اب عالمی دنیا کے لیے بھی کوئی خاص بات نہیں۔ بھارتی وزیر اعظم مسلسل اپنی عوام کو یہ کہہ رہے ہیں کہ توقع سے زیادہ بڑا جواب دیں گے۔ اب توقع سے زیادہ بڑا جواب کیا ہوگا۔ سب اس کے اندازے لگا رہے ہیں۔ مودی کے ذہن میں کیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع کے گھر پر بھارتی افواج کے سربراہان کا غیر معمولی اجلاس ہوا ہے۔ لیکن کیا طے ہوا ہے۔ ایک سوال ہے۔
بھارتی سفارتکار بھاگتے ہوئے دہلی سے افغانستان بھی پہنچے ہیں۔ دہلی کو اب کابل کی کیا مدد چاہیے۔ بھارت افغانستان کو کتنا استعمال کرنا چاہتا ہے۔ کابل جانتا ہے۔ اس کی کیا قیمت ہو سکتی ہے۔ بھارت کیا قیمت ادا کر سکتا ہے۔
چین بھی موجود ہے۔ اس لیے کابل کے لیے کھلے عام دہلی کے ساتھ جانا مشکل ہے۔ لیکن دہلی کابل سے پاکستان میں دہشت گردی بڑھانے کی مدد مانگ رہا ہوگا۔ شاید اسی لیے پاکستان نے بارڈر پر 54خوارجی مارے ہیں۔ وہ کیوں پاکستان آرہے تھے۔ کیا بھارت پاکستان میں دہشت گردی کا بڑا وقعہ کروا کر کہے گا کہ ہم نے بدلہ لے لیا۔ کیا یہ بھی ایک آپشن ہے۔ کیونکہ باقی آپشن مشکل ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لائن ا ف کنٹرول پر سرجیکل اسٹرائیک دونوں ممالک پاکستان میں پاکستان کا پاکستان نے کہ پاکستان بھی بھارت چاہتا ہے سے زیادہ بھارت کے کیا ہوگا بھارت کی بھارت کو بھارت نے ا رہا ہے کا پانی کے لیے کے پاس ہوا ہے اب کیا کیا ہے اس لیے دیا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے، اسحاق ڈار
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہاہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے، بھارت کے ساتھ مذاکرات بامعنی ہونے چاہئیں، پاکستان سیاسی گروپنگ یاکسی بلاک کاحصہ نہیں بننا چاہتا، چین سے اسلحہ خریدنے کا مقصد امریکہ سے تعلقات بگاڑنا نہیں، کسی ایک ملک کیساتھ تعلقات کو دوسرے ملک کی عینک سے نہیں دیکھتے، مقبوضہ کشمیر کو حق خودارایت دینا چاہیے، مقبوضہ کشمیر کا تنازع یواین چارٹر کے مطابق اب تک حل نہیں ہوا۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈارنے امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات مفید رہی، پاکستان امریکہ کے ساتھ ٹریڈ چاہتا ہے ایڈ نہیں، امریکی وزیرخارجہ سےملاقات میں مشترکہ شراکت داری پر زوردیا، پاکستان اورامریکہ کےتعلقات کثیرالجہتی ہیں۔تفصیلات کے مطابق اسحاق ڈار کا کہناتھا کہ بین الاقوامی سطح پر حالات بدل رہے ہیں، عالمی معیشت دباؤ میں ہے، دہشت گردی اب بھی چیلنج ہے، پاکستان دہشت گردی کیخلاف نبردآزما ہے، پاکستان امن پسند ایٹمی ملک ہے، پاکستان میں میکرواکنامک استحکام آچکا ہے، پاکستان ذمہ دار ملک ہےاورامن چاہتاہے، پاکستان امریکہ سےبہت جلد تجارتی معاہدہ چاہتاہے۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟
نائب وزیراعظم کا کہناتھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اہم تنازع ہے، پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے، بھارت کے ساتھ مذاکرات بامعنی ہونے چاہئیں، پاکستان بھارت کے ساتھ ملکر دہشت گردی کیخلاف کام کرنے کو تیارہے، پاکستان نیوٹرل مقام پربھارت کیساتھ بات چیت کا منتظرہے، پاکستان کئی سال پہلے لشکر طیبہ کیخلاف کارروائی کر چکا ہے، بھارت دہشت گردی کا بہانہ بنا کر دنیا کو گمراہ کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بیت المقدس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہیے ، پاکستان خطےکی صورتحال کو نظر انداز نہیں کر سکتا، دوریاستی حل ہی امن کا واحد راستہ ہے۔ پاکستان سیاسی گروپنگ یاکسی بلاک کاحصہ نہیں بننا چاہتا، مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، پاکستان چین اور امریکا کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
چاند نظر نہیں آیا، یکم صفر اتوار کو ہوگی
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ چین سے اسلحہ خریدنے کا مقصد امریکہ سے تعلقات بگاڑنا نہیں، کسی ایک ملک کیساتھ تعلقات کو دوسرے ملک کی عینک سے نہیں دیکھتے،پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے، پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدہ چند دن میں ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے 2014 میں 126 دن کا دھرنا دیا جس سے معیشت متاثر ہوئی، سانحہ9 مئی پر قانون اپنا راستہ لے گا، مقبول سیاسی لیڈر کا مطلب اسلحہ اُٹھانا یا قانون ہاتھ میں لینانہیں ہے ، جب آپ اسلحہ اُٹھا لیں تو مجھ جیسا مفاہمت پسند بھی کچھ نہیں کر سکتا، بانی پی ٹی آئی کیخلاف کیسز سے موجودہ حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ، بانی پی ٹی آئی کیخلاف تمام مقدمات عدالتوں میں ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی دہائیوں سے امریکہ میں امریکی قانون کے تحت قیدہیں۔ان کا کہناتھا کہ ہم کسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے نہ کسی کو کرنے دیں گے، پاکستان اپنے ہمسائے ممالک کے ساتھ کوئی تنازع نہیں چاہتا، افغان حکومت کو تسلیم کرنا روس کا اپنا فیصلہ ہے۔
انگلش بلے باز جو روٹ نے ٹیسٹ کرکٹ میں اہم اعزاز حاصل کرلیا
مزید :