بھارت کے معروف اداکار آپریشن سے قبل ہی جان کی بازی ہارگئے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
ملیالم فلم انڈسٹری کے اداکار وشنو پرساد جگر کے علاج کے دوران زندگی کی بازی ہار گئے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملیالم فلم اور ٹی وی انڈسٹری سے وابستہ معروف اداکار وشنو پرساد کوچی، کیرالہ میں ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے۔ وہ کافی عرصے سے جگر کے مرض میں مبتلا تھے گزشتہ روز علاج کے دوران ان کی حالت بگڑ گئی تھی ان کا جگر ٹرانسپلانٹ ہونا تھا، لیکن علاج سے قبل ہی انہوں نے دم توڑ دیا۔
اداکار کشور ساتیا نے انسٹاگرام پر وشنو پرساد کی موت کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ کافی عرصے سے بیماری سے لڑ رہے تھے۔ انہوں نے اداکار کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔ فنکاروں کی جانب سے اداکار کی موت پر افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ وشنو پرساد کے جگر کے ٹرانسپلانٹ کے لیے ان کی بیٹی نے ڈونر بننے کی پیشکش کی تھی، لیکن تقریباً 30 لاکھ روپے کے اخراجات پورے نہ ہو سکے جس کے بعد اداکاروں کی ایک تنظیم نے مالی مدد کے لیے فنڈ ریزنگ مہم بھی شروع کی تھی۔
وشنو پرساد کی معروف فلموں میں کاسی اور کائیئتھم دوراتھ شامل ہیں، جبکہ وہ متعدد ٹی وی ڈراموں میں بھی مقبول رہ چکے تھے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
عالمی ادارہ صحت، پاکستان میں غذائی قلت کے شکار 80 ہزار بچوں کو علاج میں مدد دیگا
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں سال پاکستان میں 5 سال سے کم عمر کے انتہائی شدید غذائی قلت کے شکار 80 ہزار بچوں کے علاج میں مدد فراہم کرے گا، جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد ماؤں اور آیاؤں کو بچوں کی صحت سے متعلق مشاورت فراہم کی جائے گی۔
یہ اقدامات بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے اشتراک سے کیے جا رہے ہیں۔ ادارے کے تعاون سے 2 سال سے کم عمر کے 43 ہزار بچوں کو ملک بھر میں قائم 169 غذائیت مراکز میں علاج کی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔ دونوں اداروں نے حالیہ ملاقات میں ان خدمات کو مزید وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد اور پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندہ ڈاکٹر ڈاپنگ لو کی ملاقات اسلام آباد کے گورنمنٹ پولی کلینک میں ہوئی، جہاں انہوں نے مستقبل کے لائحہ عمل پر بات کی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان دوران زچگی خواتین کے انتقال کی شرح سب زیادہ، 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار
سینیٹر روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے غذائیت کی فراہمی کے پروگرام کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے عوامی آگاہی کی مہمات چلائی جائیں گی اور بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے مشاورتی نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔
98 فیصد بچوں کا کامیاب علاج، عالمی معیار سے بہترڈبلیو ایچ او کے مطابق، 2022 سے اب تک 46 ہزار بچوں کا کامیاب علاج کیا گیا، جبکہ 64 ہزار ماؤں اور آیاؤں کو تربیت اور مشاورت فراہم کی گئی۔ غذائیت کے مراکز پر 98 فیصد بچوں کا علاج کامیاب رہا، جو عالمی معیار یعنی 75 فیصد سے کہیں بہتر شرح ہے۔
ڈاکٹر ڈا پنگ لو کے مطابق یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں غذائی مداخلتیں مؤثر ثابت ہو رہی ہیں، لیکن ایک بھی زندگی غذائی قلت کی وجہ سے ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ڈبلیو ایچ او، بی آئی ایس پی کے ساتھ شراکت داری کو مزید وسعت دینے کا خواہاں ہے تاکہ ہر متاثرہ بچے تک رسائی حاصل کی جا سکے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے غذائی مسائل مزید گمبھیر ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: گوادر میں حالات کشیدہ، کاروباری مراکز بند ہونے سے غذائی قلت کا سامنا
غذائیت کی کمی: قومی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصانڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان 10 بدترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں 5 سال سے کم عمر نصف سے زائد بچے یا تو بڑھوتری میں رکاوٹ کا شکار ہیں یا کم وزن رکھتے ہیں۔ اس وقت ملک میں اس عمر کے بچوں میں عدم بڑھوتری کی شرح 40 فیصد جبکہ کم وزنی یا کمزوری کی شرح 17.7 فیصد ہے۔
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس مسئلے پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو پاکستان کو نہ صرف 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں مشکلات پیش آئیں گی بلکہ ہر سال 17 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی ہوگا، جو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 6.4 فیصد بنتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او، یونیسف اور عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے ساتھ مل کر بچوں میں غذائی کمی کی بروقت نشاندہی، روک تھام اور علاج پر کام کر رہا ہے، تاکہ مستقبل کی نسل کو محفوظ اور صحتمند بنایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں