پہلگام واقعے کو پاکستان کیخلاف نفرت انگیز مہم میں تبدیل کیا جا رہا ہے، علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
لاہور میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب میں تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ کا کہنا تھاکہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو خاموشی بزدلی ہے اور بزدلی تباہی کی پہلی سیڑھی، افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں محض بیان بازی ہو رہی ہے، صرف مذمتی قراردادیں پاس کی جاتی ہیں، صرف پریس کانفرنسیں کی جاتی ہیں، لیکن عملی میدان میں کوئی مضبوط اور جرأت مندانہ مؤقف نظر نہیں آتا۔ یہ روش ترک ہونی چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ معروف مفکرِ اسلام علامہ سید جواد نقوی نے پہلگام کشمیر میں پیش آنیوالے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کی حکومت نے ایک بار پھر اپنی پرانی روش اسلام دشمنی، پاکستان دشمنی اور مسلمانوں کیخلاف ظلم و تشدد کو مزید شدت کے ساتھ دہرانا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام میں سیاحت کیلئے آنیوالے بھارتی شہریوں پر مبینہ حملے کو بنیاد بنا کر بھارت نے جو نفرت انگیز طوفان برپا کیا ہوا ہے، وہ نہ صرف سیاسی مفادات کیلئے ایک چال ہے، بلکہ اس کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی گھناؤنی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں مودی اس وقت سے پنپ رہا ہے جب وہ گجرات میں مسلمانوں کا قاتل بن کر ابھرا تھا، آج وہی مائنڈسیٹ پورے بھارت پر مسلط ہے اور پاکستان کو کمزور کرنے، یہاں فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں محض بیان بازی ہو رہی ہے، صرف مذمتی قراردادیں پاس کی جاتی ہیں، صرف پریس کانفرنسیں کی جاتی ہیں، لیکن عملی میدان میں کوئی مضبوط اور جرأت مندانہ مؤقف نظر نہیں آتا۔ یہ روش ترک ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان، اس کی حکومت، افواج اور پوری ملت متحد ہو کر دشمن کو منہ توڑ جواب دے۔ یہ وقت ہے مزاحمت کا، جرأت کا اور ہر جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کا۔ پاکستان کو اپنے وقار، اپنی سرزمین، اور اپنی قوم کے مفادات کا دفاع پوری قوت سے کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مودی اپنی فسطائی ذہنیت، اسرائیل جیسے سفاک سرپرست، امریکہ جیسے سامراجی اتحادی اور عرب دنیا کے خاموش مجرمانہ رویے کے سائے میں پاکستان کو دھمکاتا ہے، تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ مضبوط، متحد اور باوقار ہو کر ہر محاذ پر دشمن کا سامنا کرے۔ یہی وقت ہے اپنی خودداری، دینی حمیت اور قومی غیرت کا مظاہرہ کرنے کا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کی جاتی ہیں پاکستان کو
پڑھیں:
پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(5)
اسلام ٹائمز: علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت میں قومی و ملی پلیٹ فارم سے پہلی بار دینی و مذہبی جماعتوں کا ایک اتحاد "ملی یکجہتی کونسل پاکستان" قائم ہوا، یہ اٹھائیس جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے، جس میں علامہ ساجد علی نقوی نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں، اس میں ملک کے تمام اسلامی مکاتب و مسالک کی نمائندہ دینی جماعتوں کی بھرپور شرکت ہے اور اسکے بعد 2000ء کے اوائل میں ایک سیاسی پلیٹ فارم "متحدہ مجلس عمل پاکستان" وجود میں آیا، اس میں بھی تحریک جعفریہ کا نمایاں کردار رہا۔ اگرچہ اس اتحاد نے صوبہ سرحد میں صوبائی حکومت قائم کرکے تحریک جعفریہ کو کچھ زیادہ فوائد تو نہیں دیئے، بس ایک خاتون ایم پی اے مخصوص نشست سے اور ایک صوبائی مشیر بنایا گیا تھا۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
قائد شہید کی شہادت کے بعد علامہ سید ساجد علی نقوی جن کا تعلق ملہوالی، جنڈ، اٹک سے ہے، انہیں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ آپ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی (رح) کیساتھ سینیئر مرکزی نائب صدر تھے اور راولپنڈی میں ایک مدرسہ آیت اللہ حکیم کے پرنسپل بھی تھے۔ علامہ ساجد نقوی نے عراق و ایران کے حوزہ میں دینی تعلیم کے مراحل طے کیے، وہ شہید قائد کیساتھ مختلف امور میں وارد رہے تھے اور قائم مقام سربراہ بھی مقرر ہوئے تھے۔ ان کے انتخاب کیلئے پشاور میں اجلاس ہوا۔ مرکزی کونسل کے اجلاس سے ایک دن قبل سپریم کونسل کے اراکین کی جامعہ شہید عارف الحسینی (رح) میں نشست ہوئی، جس میں مختلف ناموں پر غور ہونا تھا، جو اگلے دن اجلاس میں پیش کیے جانے تھے۔ اس نشست میں یہ بات سامنے آگئی کہ بہت سے بزرگان کسی دوسرے کا نام بطور مقابل پیش کرنے کے حق میں نہیں، یعنی ہائوس کے سامنے فقط انہیں کا نام سامنے لایا جائے گا، تاکہ کسی دوسرے پر نظر ہی نا جائے اور چانس ہی نا ہو۔
یہ بات بہت سے لوگوں بالخصوص سندھ کے تنظیمی عہدیداران، جن کی قیادت علامہ حیدر علی جوادی کرتے تھے، انہوں نے بھی قبول نہیں کی، مگر ان کی سنی ان سنی کر دی گئی اور اگلے دن اجلاس ہوا تو ایسا ہی ہوا۔ راوی بتاتے ہیں کہ علامہ حیدر علی جوادی نے سب سے پہلے منظور شدہ دستور اور پرنٹڈ دستور میں فرق کا نکتہ اٹھایا۔ اس حوالے سے مدرسہ میں مرکزی دفتر سے منظور شدہ دستور کی فائل منگوائی گئی، جو اعتراض اٹھایا گیا، وہ درست تھا۔ دوسری نشست میں حسب منشاء و پروگرام مرکزی کونسل کے سامنے ایک ہی نام پیش کیا گیا۔ علامہ محمد حسین نجفی ڈھکو صاحب نے علامہ صفدر نجفی صاحب کو کہا کہ پہلے بھی آپ نے قیادت کا نام پیش کیا تھا، اب بھی آپ ہی پیش کریں تو علامہ سید صفدر نجفی نے یہ کہتے ہوئے علامہ ساجد نقوی کا نام سربراہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کیلئے پیش کیا کہ میری طرف سے پہلی، دوسری اور تیسری دفعہ بھی ساجد علی نقوی ہیں۔
سپریم کونسل کی طرح مرکزی کونسل میں بھی درود پڑھ کر منظوری لی جانے لگی تو علامہ حیدر علی جوادی جو سندھ کے صوبائی صدر تھے، انہوں نے مخالفت کی اور اپنی مخالف رائے کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ووٹنگ ہونی چاہیئے، اس لیے کہ درود ثواب کیلئے ہوتا ہے منظوری کیلئے نہیں، لہذا باقاعدہ ووٹنگ کرائی گئی، بیالیس ووٹ علامہ ساجد نقوی کی مخالفت میں پڑے، جو کہ یہ ثابت کرتا ہے کہ کثرت رائے سے منتخب ہوئے، نا کہ متفقہ طور پہ۔۔ خیر یہ ایک داستان ہے، جس کے بہت سے کردار اور راوی موجود ہیں، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ درست نہیں لکھا تو تصحیح فرمائیں، ہمیں قبول ہوگا۔ یہ 4 ستمبر 1988ء کا دن تھا، یعنی لگ بھگ شہید قائد کی شہادت سے ایک ماہ بعد۔
یوں اگر دیکھا جائے تو نئی قیادت کو جو سب سے پہلا چیلنج درپیش تھا، وہ شہید قائد کی شہادت میں سازشی کرداروں اور قاتلوں کی گرفتاری اور مقدمہ کی پیروری تھا۔ اس حوالے سے علامہ ساجد نقوی نے اپنی پہلی کابینہ میں شہید قائد کیساتھ فعال ترین شخصیت محترم جناب علامہ سید افتخار حسین نقوی صوبائی صدر پنجاب، محترم ڈاکٹر محمد علی نقوی، محترم پروفیسر ایم ایچ حسنی، جناب سید ثاقب نقوی کو کھڈے لائن لگا دیا اور کسی قابل ذکر ذمہ داری پر نہیں رکھا۔ علامہ سید افتخار حسین نقوی جو پنجاب میں بہت زیادہ فعالیت رکھتے تھے، اس لیے کہ شہید قائد کے زمانے میں پنجاب میں یادگار کام ہوا تھا، لاہور، ملتان، فیصل آباد، چنیوٹ میں شاندار قرآن و سنت کانفرنسز ہوئی تھیں اور علامہ سید افتخار نقوی آئی ایس او کے نوجوانوں بالخصوص اسکاٗوٹس میں بہت زیادہ مقبول تھے، یعنی وہ ایک متبادل شخصیت کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔
علامہ ساجد نقوی نے پنجاب میں علامہ تقی نقوی، جو ان کے قریبی رشتہ دار بھی تھے اور ایک بلند پایہ خطیب کے طور پر پہچان رکھتے تھے، ان کو پنجاب کا صدر بنا دیا، علامہ افتخار نقوی کیلئے ایک نئی معاون ذمہ داری مشیر خارجہ امور بنا دیا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اور جماعت جن سے علامہ صاحب کی قیادت سے قبل کسی اجلاس میں کمٹمنٹ تھی، کا نتیجہ تھا، واللہ اعلم بالصواب۔ پشاور میں قائد شہید کا جنازہ بہت بڑا اور تاریخی ہوچکا تھا، حکومت بلکہ صدر مملکت خود اس جنازے میں شیعہ قوم اور جوانان کے جذبات کو دیکھ چکے تھے، ان کے کانوں میں مطالبات اور نعرے بھی پہنچ چکے تھے۔ ایسے میں نوآموز قیادت علامہ سید ساجد علی نقوی کو شہید قائد کے کیس اور ڈیرہ اسماعیل خان میں رکے ہوئے تعزیوں کا مسئلہ درپیش تھا۔ اس حوالے سے پہلا پروگرام 16 ستمبر لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید قائد کا چہلم رکھا گیا، اس سے حکومت پر شہید کے کیس، ڈیرہ اسماعیل خان کے رکے ہوئے تعزیوں کو روٹ پر لے جانے جیسے مطالبات کے حوالے سے زبردست پریشر ڈالا جا سکتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ لیاقت باغ راولپنڈی کا وہ منظر، جب شہید کے صاحبزادے سید علی الحسینی نے اپنے باپ کے لہجے میں تقریر کی تھی، عوام دھاڑیں مار کر روتی تھی۔ بہرحال ایک بڑا اجتماع کامیابی سے منعقد ہوا، اس اجتماع میں قیادت نے ایک اور بڑا اعلان کیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے جلوسوں کو مقررہ روٹس دلانے کیلئے 30 ستمبر پوری قوم ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف چلے۔ میں اپنے بیٹوں عون و محمد کیساتھ ہونگا، یہ بات قوم کیلئے جوش و ولولہ کا باعث تھی کہ قیادت نے بذات خود پہنچنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پھر کیا تھا، پورے پاکستان سے 30 ستمبر چلو چلو ڈیرہ چلو، کی مہم چلائی گئی۔ امامیہ جوانان، امامیہ اسکاءوٹس بھرپور انداز میں فعال تھے اور تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے پہنچنا چاہتے تھے۔ حکومت نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے۔ گرفتاریاں، چھاپے، راستوں کی بندش۔
صوبہ سرحد میں گورنر فضل حق تھا، جو شہید کے قتل میں شریک تھا، اس وقت اسے سرحد کا مرد آہن کہا جاتا تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والا یہ سارا سانحہ کافی طویل داستان رکھتا ہے۔ اس میں ہم لوگ تو کوٹلہ جام حسینی چوک پر کئی دن ریتلی زمین پر سوتے تھے، اس لیے کہ اس سے آگے دریا کا پل تھا، جس کو بند کر دیا گیا تھا، مگر علامہ سید افتخار حسین نقوی اور اسیر مکہ ڈاکٹر محمد علی نقوی کسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ کوٹلہ جام کے محاذ پر علامہ تقی نقوی، علامہ کرامت نجفی، شاعر مسکین اور دیگر بہت سے تنظیمی بزرگان موجود تھے، جس دن جلوس نکالا گیا، دس لوگ شہید ہوئے۔ اس مسئلہ میں قوم نے نئی قیادت کا بھرپور ساتھ دیا۔ جو منظر آج ہمیں مشی کے دوران نجف و کربلا کے درمیان دکھائی دیتا ہے، یہ جذبات و احساسات بھکر، کوٹلہ جام میں اس دور میں ہم دیکھ رہے تھے، اس سے قیادت کے حوصلوں کو بھی تقویت ملتی ہے اور قوم بھی قیادت کی طرف رجوع کرتی ہے، عالمی سطح پر بھی آپ کی قوم، قیادت اور جماعت کا تشخص ابھرتا ہے، لوگ آپ کو شمار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
1992ء میں وسعت نظری کے تحت اور ایجاد کردہ غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے اپنی جماعت کا سابقہ نام تبدیل کرکے تحریک جعفریہ پاکستان رکھا، اس میں سے نفاذ کا لفظ اس لیے نکال دیا گیا کہ دیگر مکاتیب فکر کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اہل تشیع پاکستان میں نفاذ فقہ جعفریہ چاہتے ہیں جبکہ یہ مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں خالص اہل تشیع کیلئے ایک مطالباتی تحریک تھی۔ علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت میں قومی و ملی پلیٹ فارم سے پہلی بار دینی و مذہبی جماعتوں کا ایک اتحاد "ملی یکجہتی کونسل پاکستان" کی قائم ہوا، یہ اٹھائیس جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے، جس میں علامہ ساجد علی نقوی نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں، اس میں ملک کے تمام اسلامی مکاتب و مسالک کی نمائندہ دینی جماعتوں کی بھرپور شرکت ہے اور اس کے بعد 2000ء کے اوائل میں ایک سیاسی پلیٹ فارم "متحدہ مجلس عمل پاکستان" وجود میں آیا، اس میں بھی تحریک جعفریہ کا نمایاں کردار رہا۔
اگرچہ اس اتحاد نے صوبہ سرحد میں صوبائی حکومت قائم کرکے تحریک جعفریہ کو کچھ زیادہ فوائد تو نہیں دیئے، بس ایک خاتون ایم پی اے مخصوص نشست سے اور ایک صوبائی مشیر بنایا گیا تھا۔ مولانا رمضان توقیر ڈیرہ اسماعیل خان سے صوبائی مشیر تھے، جبکہ وزیراعلیٰ فضل الرحمان کے درانی تھے۔ اس دور کے بارے کہا جاتا ہے کہ صوبہ سرحد میں شدت پسندوں نے زور پکڑا اور پاکستان بھر میں ان کی رسائی ممکن ہوئی۔ 2002ء میں شیعہ قومی جماعت تحریک جعفریہ پر پابندی لگا دی گئی تو نئی جماعت ’’اسلامی تحریک پاکستان" بنا دی گئی، جس کے آپ سربراہ بنے، اس جماعت کو پی پی او کے قانون کے تحت الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ کرایا اور اسی پلیٹ فارم سے گلگت بلتستان میں الیکشن میں حصہ لیتے آرہے ہیں، باقی پاکستان میں کسی بھی جگہ اپنے نام اور جھنڈے تلے الیکشن میں حصہ نہیں لیا گیا۔
علامہ ساجد نقوی نے اپنے سینتیس سالہ دور میں مینار پاکستان پر دو بڑے اجتماع کیے، جن میں ایک شہید الحسینی کانفرنس 30 ستمبر 1991ء اور دوسرا اجتماع 25 نومبر 1994ء کو ہوا تھا۔ اس کے بعد ان کی قیادت میں کوئی بڑا یا قابل ذکر اجتماع نہیں ہوا۔ آخری اجتماع کے بعد قافلوں کی واپسی کے دوران کھاریاں کے قریب ایک بس کو دہشت گردوں نے فائرنگ سے نشانہ بھی بنایا تھا، جس میں کچھ شہادتیں ہوئیں۔ موجودہ قیادت یعنی علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت کا دورانیہ چونکہ سب سے طویل ہے، اس لیے زیادہ تفصیلات تو نہیں، اہم ترین کاموں کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں، پھر بھی یہ ایک قسط سے بڑھ گیا ہے، لہذا کچھ دیگر اہم چیزیں اگلے کالم میں اگر توفیق ملی تو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔