بھارت کا پاکستان سے فضائی اور زمینی راستوں سے ڈاک اور پارسل کے تبادلے معطل کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
آبی جارحیت اور ہر قسم کی تجارت بند کرنے کے بعد ہواس باختہ بھارت نے ایک اور جارحانہ قدم اٹھاتے ہوئے پاکستانی پرچم والے بحری جہازوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی۔بھارت نے پہلگام کے بے بنیاد واقعے کو جواز بناتے ہوئے پہلے آبی جارحیت کرتے ہوئے پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا اور پھر بھارت نے پاکستان سے تمام اشیا کی براہ راست یا بالواسطہ درآمد پر پابندی لگا دی۔اب بھارت نے ایک اور جارحانہ قدم اٹھاتے ہوئے پاکستانی پرچم والے بحری جہازوں کے داخلے پر پابندی لگادی۔ڈائریکٹریٹ جنرل شپنگ ممبئی کا کہنا ہے کہ پاکستانی پرچم والے بحری جہاز کی بھارت کی کسی بھی بندرگاہ میں داخلے پر پابندی ہو گی اور بھارتی پرچم والا کوئی جہاز پاکستان کی کسی بندرگاہ کا دورہ نہیں کرے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بھارت نے
پڑھیں:
جنگی جنون کا منہ توڑ جواب ،بھارتی پرچم بردار بحری جہازوں کا پاکستانی بندرگاہوں پر داخلہ بند کردیا گیا
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) پاکستان نے بھارتی جنگی جنون کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارتی پرچم بردار بحری جہازوں کا پاکستانی بندرگاہوں پر داخلہ فوری طور پر بند کردیا۔
’’جنگ ‘‘ کے مطابق اس حوالے سے وزارت بحری امور نے باضابطہ حکم نامہ جاری کر دیا ہےجس کے تحت کوئی پاکستانی پرچم بردار بحری جہاز بھی بھارتی بندرگاہوں پر لنگر انداز نہیں ہوگا۔
خیال رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد بھارتی حکومت نے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور پاکستانیوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد پاکستان نے اپنی فضائی حدود بھارتی پروازوں کیلئے بند کردی تھی۔پاکستان نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے جواب میں 24 اپریل کو بھارت سے ہر طرح کی براہِ راست اور کسی اور ملک کے ذریعے تجارت پر پہلے ہی پابندی عائد کر دی تھی۔پاکستان کی جانب سے پہلگام واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات کروانے کی پیشکش بھی کی گئی، جس کا بھارت کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، جبکہ چین، ترکیہ اور سوئٹزر لینڈ سمیت کئی ممالک نے پاکستان کے اس مؤقف کی حمایت کی ہے۔
امریکی عدالت نے فلسطینی بچے کے قاتل کو 53 سال قید کی سزا سنادی
مزید :