پہلگام واقعے کے بعد بھارت میں جس انداز سے جنگی بیانات کا سیلاب آیا اور پاکستان میں جس بے فکری و بے حسی کے ساتھ جنگ کی دھمکیوں کو سوشل میڈیا پر طنز، میمز اور جملے بازی کا نشانہ بنایا گیا وہ اس خطے کے اجتماعی شعور پر ایک تلخ سوالیہ نشان ہےـ کیا ہم نے پچھلی ناکام جنگوں اور ایڈونچرز سے واقعی کچھ نہیں سیکھا؟ کیا ہم اب بھی جنگ جیسے ہولناک انسانی سانحے کو قومی غیرت کی کسوٹی یا تفریحی موضوع ہی سمجھتے رہیں گے؟
بھارت اور بالخصوص بھارتی میڈیا میں جنگی مائنڈ سیٹ نئی بات نہیں۔ ہر واقعے کے بعد جوابی کارروائی، سرجیکل اسٹرائیک، یا دشمن کو سبق سکھانے جیسے بیانیے میڈیا اور سیاستدانوں کے منہ سے گونجنے لگتے ہیں۔ قوم پرستی کا یہ جنون ’امن‘ کو بزدلی، سمجھتا ہے۔
پہلگام کے دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد، بھارتی میڈیا، جو پہلے ہی عقل و شعور کی دھند میں لپٹا بیٹھا تھا، یکدم انگاروں پر لوٹنے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
ادھر سانحہ ہوا ادھر الزام کا تیر سرحد پار چھوڑ دیا اور ہم بے چارے اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ کھل کر اس کی تردید کر سکیں کیونکہ ہم نے خود کو پرائی جنگوں میں ملوث کیا اور کئی برسوں سے دہشتگردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن چلیے، یہ الزام تراشی تو اب برصغیر کا ایک ثقافتی ورثہ ہے ہم بھی اپنی روایت نبھاتے ہوئے ہر دھماکے کا سرا اپنے سیکیورٹی نظام کی ناکامی میں ڈھونڈنے کے بجائے را اور انڈیا سے ہی جوڑتے ہیں۔
البتہ، اس بار نریندر مودی جی نے سندھ طاس معاہدے پر بھی دھونسو بیان دے ڈالا۔
یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ مودی سرکار کو پانی بند کرنا ہے یا دماغ کی کھڑکیاں کھولنی ہیں؟
ادھر بھارتی میڈیا اسی انتظار میں بیٹھا تھا کہ شروع ہو گئی سارے چینلز کے اینکرز اور میزبانوں کی قلابازیاں ….
بھارتی نیوز چینلوں پر جنگی طبل کیا بجنا شروع ہوئے یوں لگا کہ جیسے ہر اینکر رام لیلا کا راون بن بیٹھا ہے، جو ہر لفظ پر آگ اگل رہا ہو۔ سرحد پار کوئی میزبان گویا کسی دکھی ساس کی طرح چیخ چیخ کر دہائیاں دے رہا ہے تو کوئی کسی میلے میں نوسرباز کی طرح بانس پر بندر نچوا رہا ہے۔
میزبان حضرات مائیک تھامے ایسے جست بھرتے ہیں جیسے ابھی مہمان کی گردن دبوچ لیں گے ـ ادھر کوئی بد نصیب پاکستانی مہمان دو لفظ بولنے کی کوشش کرے، ادھر میزبان ٹپک کے اس پر یوں حملہ آور ہوتا ہے جیسے پہلوان اکھاڑے میں چِت کرنے لپکتا ہے ـ بیچارہ مہمان کیا کہے، نہ نو من تیل، نہ رادھا کا ناچ۔ بات بیچ میں ہی دم توڑ دیتی ہے ـ مباحثے کا حال تو یہ ہے کہ ’جو زیادہ چیخے وہی سچا‘۔
انڈین چینلز کے نیوز رومز کم، اکھاڑے زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور ہر میزبان ایک زورآور پہلوان نظر آ رہا ہے۔
خبر تو کب کی مصلوب ہو چکی اب تو اسٹوڈیوز میں صرف ’آر پار‘ کا تماشہ ہے ’نہ اپنی خبر نہ غیر کی خیر‘۔
آپ بے شک سنائیں پاکستان کو کھری کھری اور اپنے مہمان کو بھی لیں آڑے ہاتھوں ـ لیکن ذرا دھیرج ! پہلے
بیچارے سچ، کو تو مکمل سامنے آنے دیں ـ وہ توکسی کونے میں سر پکڑے بیٹھا ہے ـ
مزید پڑھیے: گرداس پور سے وزیرآباد
جبکہ جھوٹ، سر پر سہرا باندھے ناچ رہا ہے۔ دوسرے پہلو پر بھی نظر رکھیے کہ جب پہلگام کا واقعہ ہوا تو کشمیر کے مقامی لوگ ہی مدد کو آئے اور ایک کشمیری تو جان سے بھی گیا ـ سب نے اپنے گھر سیاحوں کے لیے کھول دیے اور ہوٹل مالکان نے ہر طرح اپنے گاہکوں کو بنا رقم لیے ساری سروسز مہیا کیں لیکن زرد صحافت کا یہ حال رہا کہ
’نہ پوچھو حال زار اپنا، نہ سنو فسانہ غیر کا‘ ایسے میں اصل خبر؟ وہ تو کہیں گم ہی ہو گئی۔ پوری قوم کو جذباتی طوفان میں بہا کر اور آئندہ نسلوں کو نفرت کا زہر پلا کر ریٹنگ کا جنتر منتر چلاتے رہے۔
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف …. گو کہ حس مزاح ایک خوب صورت چیز ہے لیکن ایسے خوفناک واقعے اور جنگ کے منڈلاتے سائے تلے ایسی نرالی انتہا پسندی کا جنم ہونا ایسے ہی ہے جیسے جنگ ایک فکاہیہ موضوع ہوـ میمز، ٹرینڈز، جگت بازی ایسا لگتا ہے جیسے قوم جنگ کو ایک فلمی سین یا کسی پرانے ڈرامے کا مکالمہ سمجھ بیٹھی ہو۔ یہ رویے ہماری سنجیدگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
میمز اور حس لطافت سے بھرپور ہماری نئی نسل غالباً اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ ’71 کی جنگ میں آخری دنوں تک عوام ریڈیو پر میڈم نور جہاں کے گانے ’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور پھر سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔
مشکل حالات میں طنز و مزاح اور حس لطافت کو برقرار رکھنا ایک اچھا عمل ہے لیکن جس طرح بھارتی میڈیا نے غیر ذمہ دارانہ جذباتیت سے پورے خطے کو یرغمال بنایا ہوا ہے بالکل اسی طرح پاکستانیوں نے سوشل میڈیا پر جنگ کو حس مزاح اور رومانویت کا لبادہ اُڑھا دیا ہے۔ نہ بھارت میں جنگ کی قیمت کا سچ سننے کی ہمت ہے، نہ پاکستان میں اس کی ہولناکیوں کا ادراک کرنے کی فرصت۔
ادھر جب مودی جی نے پانی بند کرنے کی للکار کیا لگائی، ادھر پاکستانیوں کی حسِ مزاح نے ایسی انگڑائی لی اور کر ڈالے تبصرے، قہقہے اور مذاق اڑاتے میمز اور ایسے ٹک ٹاک کہ دیکھنے والا حیرت زدہ رہ جائے کہ 2 ایٹمی ملکوں کے بیچ جنگ کیا واقعی کوئی مذاق ہے؟
جہاں ایک جانب پانی بند کرنے اور جنگ کی دھمکیوں پر پاکستانی ہنسی کے بخار میں مبتلا ہوئے وہیں سرحد پار بھارتی بھائیوں کی زبان ایسی بپھری کہ ماں بہن کی گالیاں اور بلتکار کی دھمکیاں بارش کی طرح برسنے لگیں۔
برصغیر میں بات بات پر ’ماں بہن‘ کو سڑک پر گھسیٹ لانے اور بلتکار کی دھمکی دینے کا رواج ایک سا ہی ہے؟
صدیوں کی تہذیب، سنسکار رخصت ہوتا دیکھ کر سرحد کے دونوں پار بھلے مانس لوگوں نے منہ میں انگلیاں داب لیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے شوروغوغا اور ہنسی ٹھٹا کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو آڑے ہاتھوں لینے پر زور دیا۔ دونوں ملکوں کے سمجھدار افراد نے سوشل میڈیا پر سب سے پہلے اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں پر کئی سوالات اٹھا دیے جنھیں عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس کی مد میں اربوں روپیہ پچھلے 75 سال سے حفاظت کے نام پر دان کر رہی ہے۔ اندوہناک واقعات چاہے اے پی ایس یا جعفر ایکسپریس کے ہوں یا پلوامہ یا پہلگام کے، سوال چوکیدار سے ہی پوچھا جائے گا کہ گھر کا دروازہ کھلا کیسے چھوڑا؟
اب دل کی گہرائیوں سے عرض ہے کہ ہم پہلگام کے سانحے پر اتنے ہی دل گرفتہ ہیں جتنا پاکستان میں دہشتگردی میں معصوم انسانوں کی ناحق موت پر تھے۔
دکھ اور صدمہ انسانیت کا درد ہے، جو سرحدوں میں قید نہیں ہوتا۔
محمد بخش نے فرمایا؛
’ﺩﺷﻤﻦ ﻣﺮﮮ ﺗﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﺋﯿﮯ ﺳﺠﻨﺎﮞ ﻭﯼ ﻣﺮ ﺟﺎﻧﺎ‘
جنگ حقیقت میں انسانیت کی ذلت اور شکست ہوتی ہے۔ جنگ ماؤں سے بیٹے، بیویوں سے شوہر، بچوں سے باپ اور بہنوں سے بھائی چھین لیتی ہے۔ عورتوں کی عصمت دری کو جواز مہیا کرتی ہے۔ جنگ معیشت کو زمین بوس اور نفسیات کو تباہ کر دیتی ہے۔ پھر بھی ہم اسے اپنی حب الوطنی یا مزاح کا مرکز بنائے بیٹھے ہیں۔
سو اپنی دماغوں کی بتی روشن کیجیے۔
جنگ کی تپتی خواہشات میں الزام تراشیاں اور جنگ کو مذاق سمجھنا بے وقوفی ہے۔
محبت اور بھائی چارہ ہی وہ دیا ہے جس کی روشنی نفرت کی رات کو چیر سکتی ہے۔ ہمارا دکھ سانجھا ہے کہ ہم بھی دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار ہیں ـ یہ وقت جنگی جنون کو ہوا دینے یا مزاح کے پہلو میں چھپانے کا نہیں کیونکہ یہ دونوں انتہاپسندی ہمیں ایک ہی دائرے میں گھماتی رہیں گی۔
مزید پڑھیں: بدمست ہاتھی اور ایڈونچرازم
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جنگ کو جیتنے کا نہیں، بچنے کا عمل سمجھیں۔ امن کوئی کمزوروں کا راستہ نہیں، یہ وہ اخلاقی جرات ہے جو طاقت کے نشے سے بلند ہوتی ہے۔ اور یہی وہ جرات ہے جو اس خطے کو واقعی عظیم بنا سکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
بھارتی میڈیا پاک بھارت کشیدگی پہلگام حملہ جعفر ایکسپریس حملہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارتی میڈیا پاک بھارت کشیدگی پہلگام حملہ جعفر ایکسپریس حملہ بھارتی میڈیا سوشل میڈیا جنگ کی رہا ہے جنگ کو
پڑھیں:
ہانیہ عامر کا بھارتی میڈیا کو منہ توڑ جواب، خود سے منسوب جھوٹی خبروں کی سختی سے تردید کردی
پاکستان شوبز کی خوبرو اداکار ہانیہ عامر بھارتی میڈیا کے جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
معروف پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر نے حالیہ واقعات کے تناظر میں بھارتی میڈیا کی جانب سے اُن سے منسوب کیے گئے جھوٹے بیانات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے ایک عوامی بیان جاری کیا ہے۔
اپنے بیان میں اداکارہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ اُن سے منسوب کیے جانے والے کسی بھی جملے یا رائے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اور وہ ایسی کوئی بات نہیں کرتیں جو نفرت یا غلط فہمی کو جنم دے۔
ہانیہ عامر نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے پیغام میں ان مشکل حالات میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی، نرمی اور سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت معاشرے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور حساس ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے محتاط طرزِ عمل اختیار کرنا ناگزیر ہے۔
https://www.instagram.com/p/DJHduetClkB/?utm_source=ig_web_copy_link
انہوں نے کہا کہ غلط معلومات کو پھیلانا نہ صرف فردِ واحد کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس سے مجموعی سماجی فضا بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اداکارہ نے مداحوں اور عوام سے گزارش کی کہ وہ تصدیق شدہ معلومات پر ہی بھروسہ کریں اور غیر مصدقہ خبروں سے گریز کریں۔
ہانیہ عامر کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا کی جانب سے ان سے منسوب کئے جانے والے بیانات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور سوشل میڈیا پر بھی ان سے متعلق پھیلائے گئے جھوٹے بیانات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ بیانات جھوٹ پر مبنی ہیں۔
A post shared by BollywoodShaadis.com (@bollywoodshaadis)
یاد رہے کہ گزشتہ 2 دن سے بھارتی میڈیا کی جانب سے اداکارہ ہانیہ عامر کا نام لے کر جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی تھیں۔ یہ بھارتی عوام اور ہانیہ عامر کے بھارتی مداحوں کو اداکارہ کیخلاف کرنے کی سازش تھی ساتھ ہی بھارتی میڈیا اپنے روایتی انداز میں ہانیہ عامر کو ملک مخالف جھوٹی پوسٹ کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس کا ہانیہ عامر نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔