WE News:
2025-11-04@09:06:03 GMT

دماغ کی بتی روشن کریں

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

پہلگام واقعے کے بعد بھارت میں جس انداز سے جنگی بیانات کا سیلاب آیا اور پاکستان میں جس بے فکری و بے حسی کے ساتھ جنگ کی دھمکیوں کو سوشل میڈیا پر طنز، میمز اور جملے بازی کا نشانہ بنایا گیا وہ اس خطے کے اجتماعی شعور پر ایک تلخ سوالیہ نشان ہےـ  کیا ہم نے پچھلی ناکام جنگوں اور ایڈونچرز سے واقعی کچھ نہیں سیکھا؟  کیا ہم اب بھی جنگ جیسے ہولناک انسانی سانحے کو قومی غیرت کی کسوٹی یا تفریحی موضوع ہی سمجھتے رہیں گے؟

بھارت اور بالخصوص بھارتی میڈیا میں جنگی مائنڈ سیٹ نئی بات نہیں۔ ہر واقعے کے بعد جوابی کارروائی، سرجیکل اسٹرائیک، یا دشمن کو سبق سکھانے جیسے بیانیے میڈیا اور سیاستدانوں کے منہ سے گونجنے لگتے ہیں۔ قوم پرستی کا یہ جنون ’امن‘ کو بزدلی، سمجھتا ہے۔

پہلگام کے دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد، بھارتی میڈیا، جو پہلے ہی عقل و شعور کی دھند میں لپٹا بیٹھا تھا، یکدم انگاروں پر لوٹنے لگا۔

یہ بھی پڑھیں: میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘

ادھر سانحہ ہوا ادھر الزام کا تیر سرحد پار چھوڑ دیا اور ہم بے چارے اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ کھل کر اس کی تردید کر سکیں کیونکہ ہم نے خود کو پرائی جنگوں میں ملوث کیا اور کئی برسوں سے دہشتگردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن چلیے، یہ الزام تراشی تو اب برصغیر کا ایک ثقافتی ورثہ ہے ہم بھی  اپنی روایت نبھاتے ہوئے ہر دھماکے کا سرا اپنے سیکیورٹی نظام کی ناکامی میں ڈھونڈنے کے بجائے را اور انڈیا سے ہی جوڑتے ہیں۔

البتہ، اس بار نریندر مودی جی نے سندھ طاس معاہدے پر بھی دھونسو بیان دے ڈالا۔

یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ مودی سرکار کو پانی بند کرنا ہے یا دماغ کی کھڑکیاں کھولنی ہیں؟

ادھر بھارتی میڈیا اسی انتظار میں بیٹھا تھا کہ شروع ہو گئی سارے چینلز کے اینکرز اور میزبانوں کی قلابازیاں ….

.بھارتی میزبانوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید مودی سرکار نے  ان تمام  کو میزبانی کے فرائض کے بجائے بھانڈ پن، سنسنی خیزی، ڈرامہ بازی، اور بدتمیزیوں  میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں مفت میں عنایت کی ہوئی ہیں ـ

بھارتی نیوز چینلوں پر جنگی طبل کیا بجنا شروع ہوئے یوں لگا کہ جیسے ہر اینکر رام لیلا کا راون بن بیٹھا ہے، جو ہر لفظ پر آگ اگل رہا ہو۔ سرحد پار کوئی میزبان گویا کسی دکھی ساس کی طرح چیخ چیخ کر دہائیاں دے رہا ہے تو کوئی کسی میلے میں نوسرباز کی طرح بانس پر بندر نچوا رہا ہے۔

میزبان حضرات مائیک تھامے ایسے جست بھرتے ہیں جیسے ابھی مہمان کی گردن دبوچ لیں گے ـ ادھر کوئی بد نصیب پاکستانی مہمان دو لفظ بولنے کی کوشش کرے، ادھر میزبان ٹپک کے اس پر یوں حملہ آور ہوتا ہے جیسے پہلوان اکھاڑے میں چِت کرنے لپکتا ہے ـ بیچارہ مہمان کیا کہے، نہ نو من تیل، نہ رادھا کا ناچ۔ بات بیچ میں ہی دم توڑ دیتی ہے ـ مباحثے کا حال تو یہ ہے کہ ’جو زیادہ چیخے وہی سچا‘۔

انڈین چینلز کے نیوز رومز  کم، اکھاڑے زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور ہر میزبان ایک زورآور پہلوان نظر آ رہا ہے۔

خبر تو کب کی مصلوب ہو چکی اب تو اسٹوڈیوز میں صرف ’آر پار‘ کا تماشہ ہے ’نہ اپنی خبر نہ غیر کی خیر‘۔

آپ بے شک سنائیں پاکستان کو کھری کھری اور اپنے مہمان کو بھی لیں آڑے ہاتھوں ـ لیکن ذرا دھیرج ! پہلے

بیچارے سچ، کو تو مکمل سامنے آنے دیں ـ وہ توکسی کونے میں سر پکڑے بیٹھا ہے ـ

مزید پڑھیے: گرداس پور سے وزیرآباد       

جبکہ جھوٹ، سر پر سہرا باندھے ناچ رہا ہے۔ دوسرے پہلو پر بھی نظر رکھیے کہ جب پہلگام کا واقعہ ہوا تو کشمیر کے مقامی لوگ ہی مدد کو آئے اور ایک کشمیری تو جان سے بھی گیا ـ سب نے اپنے گھر سیاحوں کے لیے کھول دیے اور ہوٹل مالکان نے ہر طرح اپنے گاہکوں کو بنا رقم لیے ساری سروسز مہیا کیں  لیکن زرد صحافت کا یہ حال رہا کہ

’نہ پوچھو حال زار اپنا، نہ سنو فسانہ غیر کا‘ ایسے میں اصل خبر؟ وہ تو کہیں گم ہی ہو گئی۔ پوری قوم کو جذباتی طوفان میں بہا کر اور آئندہ نسلوں کو نفرت کا زہر پلا کر ریٹنگ کا جنتر منتر چلاتے رہے۔

اب آتے ہیں پاکستان کی طرف ….  گو کہ حس مزاح ایک خوب صورت چیز ہے لیکن ایسے خوفناک واقعے اور جنگ کے منڈلاتے سائے تلے  ایسی نرالی انتہا پسندی کا جنم ہونا ایسے ہی ہے جیسے جنگ ایک فکاہیہ موضوع ہوـ  میمز، ٹرینڈز، جگت بازی ایسا لگتا ہے جیسے قوم جنگ کو ایک فلمی سین یا کسی پرانے ڈرامے کا مکالمہ سمجھ بیٹھی ہو۔ یہ رویے ہماری سنجیدگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔

میمز اور حس لطافت سے بھرپور ہماری نئی نسل غالباً اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ ’71 کی جنگ میں آخری دنوں تک عوام ریڈیو پر میڈم نور جہاں کے گانے ’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور پھر سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔

مشکل حالات میں طنز و مزاح اور حس لطافت کو برقرار رکھنا ایک اچھا عمل ہے لیکن جس طرح بھارتی میڈیا نے غیر ذمہ دارانہ جذباتیت سے پورے خطے کو یرغمال بنایا ہوا ہے بالکل اسی طرح پاکستانیوں نے سوشل میڈیا پر جنگ کو حس مزاح اور رومانویت کا لبادہ اُڑھا دیا ہے۔  نہ بھارت میں جنگ کی قیمت کا سچ سننے کی ہمت ہے، نہ پاکستان میں اس کی ہولناکیوں کا ادراک کرنے کی فرصت۔

ادھر جب مودی جی نے پانی بند کرنے کی للکار کیا لگائی، ادھر پاکستانیوں کی حسِ مزاح نے ایسی انگڑائی لی اور کر ڈالے تبصرے، قہقہے اور مذاق اڑاتے میمز اور ایسے ٹک ٹاک کہ دیکھنے والا حیرت زدہ رہ جائے کہ 2 ایٹمی ملکوں کے بیچ جنگ کیا واقعی کوئی مذاق ہے؟

جہاں ایک جانب پانی بند کرنے اور جنگ کی دھمکیوں پر پاکستانی ہنسی کے بخار میں مبتلا ہوئے وہیں سرحد پار بھارتی بھائیوں کی زبان ایسی بپھری کہ ماں بہن کی گالیاں اور بلتکار کی دھمکیاں بارش کی طرح برسنے لگیں۔

برصغیر میں بات بات پر ’ماں بہن‘ کو سڑک پر گھسیٹ لانے اور بلتکار کی دھمکی دینے کا رواج ایک سا ہی ہے؟

صدیوں کی تہذیب، سنسکار رخصت ہوتا دیکھ کر سرحد کے دونوں پار بھلے مانس لوگوں نے منہ میں انگلیاں داب لیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے شوروغوغا اور ہنسی ٹھٹا کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو آڑے ہاتھوں لینے پر زور دیا۔ دونوں ملکوں کے سمجھدار افراد نے سوشل میڈیا پر سب سے پہلے اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں پر کئی سوالات اٹھا دیے جنھیں عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس کی مد میں اربوں روپیہ پچھلے 75 سال سے حفاظت کے نام پر دان کر رہی ہے۔ اندوہناک واقعات چاہے اے پی ایس یا جعفر ایکسپریس کے ہوں یا پلوامہ یا پہلگام کے، سوال چوکیدار سے ہی پوچھا جائے گا کہ گھر کا دروازہ کھلا کیسے چھوڑا؟

اب دل کی گہرائیوں سے عرض  ہے کہ ہم پہلگام کے سانحے پر اتنے ہی دل گرفتہ ہیں جتنا پاکستان میں دہشتگردی میں معصوم انسانوں کی ناحق موت پر تھے۔

دکھ اور صدمہ انسانیت کا درد ہے، جو سرحدوں میں قید نہیں ہوتا۔

محمد بخش نے فرمایا؛

’ﺩﺷﻤﻦ ﻣﺮﮮ ﺗﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﺋﯿﮯ ﺳﺠﻨﺎﮞ ﻭﯼ ﻣﺮ ﺟﺎﻧﺎ‘

جنگ حقیقت میں انسانیت کی ذلت اور شکست ہوتی ہے۔ جنگ ماؤں سے بیٹے، بیویوں سے شوہر، بچوں سے باپ اور بہنوں سے بھائی چھین لیتی ہے۔ عورتوں کی عصمت دری کو جواز مہیا کرتی ہے۔ جنگ معیشت کو زمین بوس اور نفسیات کو تباہ کر دیتی ہے۔ پھر بھی ہم اسے اپنی حب الوطنی یا مزاح کا مرکز بنائے بیٹھے ہیں۔

سو اپنی دماغوں کی بتی روشن کیجیے۔

جنگ کی تپتی خواہشات میں الزام تراشیاں اور جنگ کو مذاق سمجھنا بے وقوفی ہے۔

محبت اور بھائی چارہ ہی وہ دیا ہے جس کی روشنی نفرت کی رات کو چیر سکتی ہے۔ ہمارا دکھ سانجھا ہے کہ ہم بھی دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار ہیں ـ یہ وقت جنگی جنون کو ہوا دینے یا مزاح کے پہلو میں چھپانے کا نہیں کیونکہ یہ دونوں انتہاپسندی ہمیں ایک ہی دائرے میں گھماتی رہیں گی۔

مزید پڑھیں: بدمست ہاتھی اور ایڈونچرازم

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جنگ کو جیتنے کا نہیں، بچنے کا عمل سمجھیں۔ امن کوئی کمزوروں کا راستہ نہیں، یہ وہ اخلاقی جرات ہے جو طاقت کے نشے سے بلند ہوتی ہے۔ اور یہی وہ جرات ہے جو اس خطے کو واقعی عظیم بنا سکتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

بھارتی میڈیا پاک بھارت کشیدگی پہلگام حملہ جعفر ایکسپریس حملہ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارتی میڈیا پاک بھارت کشیدگی پہلگام حملہ جعفر ایکسپریس حملہ بھارتی میڈیا سوشل میڈیا جنگ کی رہا ہے جنگ کو

پڑھیں:

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلیے پاکستانی امیدوں کا چراغ پھر روشن ہونے لگا

لاہور:

ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی امیدوں کا چراغ پھر روشن ہونے لگا، جنوبی افریقا کے خلاف ٹی 20 سیریز میں فتح نے گرین شرٹس کے حوصلے بلند کر دیے۔

بابراعظم نے فارم کی جھلک دکھا کر بیٹنگ لائن کے حوالے سے بڑی تشویش کم کر دی، فہیم اشرف نے بھی خود کو آنے والے میگا ایونٹ کیلیے کارآمد ’’دو دھاری‘‘ تلوار ثابت کر دیا۔

کپتان سلمان علی آغا کے تفکرات بھی کم ہوگئے، وہ کہتے ہیں کہ کھیل کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہی کامیابی کی کنجی ہے، پاکستانی ٹیم کم بیک کرنا بھی جانتی ہے، شوپیس ایونٹ سے قبل کھلاڑیوں نے اپنے کردار کو اچھی طرح سمجھ لیا۔

سینیئر بیٹر بابراعظم کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے ایک اچھی اننگز کے انتظار میں تھا، دباؤ تو ہر چیز میں ہوتا مگر اس سے نمٹتے کیسے ہیں یہ سب سے اہم ہے، فہیم اشرف کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ ٹیم کی ضرورت کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے تیار رہتا ہوں۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان نے ہفتے کی شب کھیلے گئے تیسرے اور آخری ٹی 20 میچ میں جنوبی افریقا کو مات دے کر مختصر فارمیٹ کی سیریز بھی جیت لی، اس فتح سے گرین شرٹس کے آئندہ برس فروری میں بھارت اور سری لنکا میں شیڈول ٹی 20 ورلڈکپ کے لیے حوصلے بھی بلند ہوگئے ہیں۔

اس کامیابی نے کپتان سلمان علی آغا کے تفکرات بھی کم کرلیے ہیں، پروٹیز سے سیریز کے پہلے ٹی 20 میں شکست کے بعد خود سلمان کی ٹیم میں جگہ کے حوالے سے سوال اٹھنا شروع ہوگئے تھے، سیریز جیتنے کے بعد میڈیا سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ اچھی ٹیم وہی ہوتی ہے جو اپنی بہترین کارکردگی کو برقرار رکھتی ہے، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اب 3، 4  ماہ باقی ہیں، کھلاڑی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ چکے ہیں، بس اب ان کرداروں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔

جنوبی افریقا کے خلاف سیریز کے آخری میچ میں فتح حاصل کرنے کے بعد سلمان علی آغا کا کہنا تھا کہ کھیل کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہی کامیابی کی کنجی ہے، ہمارے سامنے اگلے 20، 25 دنوں میں 14، 15 میچز ہیں اور سب کے لیے ہر میچ کھیلنا آسان نہیں ہوگا۔

انکا کہنا تھا کہ آخری میچ کی جیت اسی بات کا ثبوت ہے کہ یہی پاکستان ٹیم ہے جو عمدہ کم بیک کرنا جانتی ہے، ہمیں اپنی کارکردگی میں تسلسل لانا ہے، ہم 1-0 کے خسارے سے دوچار ہونے کے بعد واپس آکر سیریز جیتے ہیں۔

یاد رہے کہ اس کامیابی میں بابراعظم نے 68 رنز بناکر اہم کردار ادا کیا اور مین آف دی میچ بھی قرار پائے، ان کی فارم میں واپسی سے بیٹنگ لائن کے حوالے سے بڑی تشویش تھوڑی کم ہوگئی ہے۔

میچ کے بعد ان کا کہنا تھا کہ  لاہور کے شائقین نے جس طرح سپورٹ کیا، یہ اننگز ان ہی کے نام کرتا ہوں، میں نے خود پر بھروسہ رکھا اور ٹیم نے مجھ پر یقین کیا، کافی عرصے سے ایسی اننگز کی تلاش میں تھا، دباؤ تو ہر چیز میں ہوتا ہے، اصل بات یہ ہے کہ آپ اسے کس طرح سنبھالتے ہیں، میں نے کوشش کی کہ ٹیم کی ضرورت کے مطابق کھیلوں، حالات کے لحاظ سے رنز بناؤں۔

انھوں نے کہا کہ میں نے خود پر اعتماد کیا اور کمزوریوں پر توجہ دی، ابتدا میں گیند اسپنرز کے لیے رک رہی تھی، اس لیے سلمان علی آغا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اسپنرز کو محتاط انداز میں کھیلیں، فاسٹ بولرز کے خلاف کھیلنا نسبتاً آسان تھا، ہم نے ارادہ کیا کہ کریز پر زیادہ سے زیادہ ٹھہریں اور لمبی پارٹنرشپ قائم کرنے کی کوشش کریں گے، یہ حکمت عملی ٹیم کے لیے سودمند رہی۔

بابراعظم کا کہنا تھا میری خواہش ہے کہ شائقین جس طرح مجھے سپورٹ کرتے ہیں، اسی طرح ہر پاکستانی کھلاڑی کی بھی حوصلہ افزائی کریں۔

پلیئر آف دی سیریز کا اعزاز حاصل کرنے والے آل راؤنڈر فہیم اشرف نے کہا کہ میری ٹیم میں ایک مخصوص ذمہ داری ہے اور میں ہمیشہ اسی کے مطابق کھیلنے کی کوشش کرتا ہوں، چاہے وہ بیٹنگ، بولنگ یا فیلڈنگ ہو،اگر کبھی بیٹنگ یا بولنگ کا موقع نہ بھی ملے، تب بھی میں فیلڈنگ میں ٹیم کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

انھوں نے کہا کہ مجھے بطور بولر ایک فائدہ یہ ہے کہ میں بیٹر کے زاویے سے بھی سوچ سکتا ہوں، جب میں بولنگ کرتا ہوں تو یہی سوچ مدد دیتی ہے کہ بیٹر کیا توقع رکھتا ہے، میں ہمیشہ ٹیم کی ضرورت کے مطابق گیند یا بیٹ سے خود کو ڈھالنے کے لیے تیار رہتا ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • سال 2025 کا روشن ترین سپر مون کل رات آسمان پر نمودار ہوگا 
  • اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کا کرنا ممکن بنالیا گیا
  • گاڑی کے شیشوں پر منٹوں میں حیران کن فن پارے، پیٹرول پمپ پر کام کرنے والا نوجوان آرٹسٹ سوشل میڈیا پر وائرل
  • ’اداکار کریں تو فن، ہم کریں تو جہنمی‘، زاہد احمد کے بیان پر کانٹینٹ کریئٹرز کا شدید ردِعمل
  • بی سی سی آئی کا ورلڈ کپ فاتح ویمنز ٹیم سے شرمناک صنفی امتیاز سامنے آگیا
  • بھارتی ہواؤں سے پنجاب کی فضا مضر صحت، آلودہ ترین شہروں میں لاہور کا دوسرا نمبر
  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلیے پاکستانی امیدوں کا چراغ پھر روشن ہونے لگا
  • روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
  • لینڈنگ کے وقت جہاز
  • خواتین ورلڈکپ فائنل میں تاخیر، بھارتی میڈیا نے انتظامیہ پر تنقید کے تیر برسا دیے