Daily Ausaf:
2025-11-07@06:27:11 GMT

ترکی زبان یار من اور مسلم امہ کا احیا

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

کراچی سے فکشن رائٹر، شاعرہ اور مصنفہ صائمہ صمیم نے ’’ترکی زبان یار من‘‘کی تقریب رونمائی کے موقعہ پر گلہ کیا کہ میں اپنے گزشتہ اظہاریہ میں کچھ مصنفین کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔ میں کتابوں پر اکثر تبصرے لکھتا رہتا ہوں۔ آج کل ابوظہبی میں کتاب میلے اور ’’اردو بکس ورلڈ‘‘پر مصروفیت کی وجہ سے ایک تو پورا دن ’’جناح پاکستان پوولین‘‘پر گزرتا ہے جہاں روزانہ بکنے والی کتابوں، مصنفین اور بہت سارے کتاب دوست خریداروں سے واسطہ پڑتا ہے، جن سب کو یاد رکھنا بیک وقت میرے لیئے قدرے مشکل ہو جاتا ہے، اور دوسرا اردو زبان و ادب کے کچھ پروگراموں میں شرکت کرنے سے بھی محروم رہ جاتا ہوں۔ اس کے باوجود میری یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان شخصیات اور مصنفین کے کام کی حوصلہ افزائی کروں جو ہمارے اندر علمی آگاہی کو اجاگر کرنے کے لئے نمایاں کام کر رہے ہیں۔مغربی دنیا میں سائنسی انقلاب کا بنیادی سبب ’’احیائے علوم‘‘کی تحریک تھی جس کو انگریزی زبان میں ’’رینائیسنس‘‘کہا جاتا ہے جس کا آغاز 14ویں صدی میں قرونِ وسطیٰ کے خاتمے پر اٹلی سے ہوا تھا جب پورا یورپ علم و آگاہی سے دور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس وقت بادشاہت اور مذہبی پاپائیت کے گٹھ جوڑ کا زور تھا اور نئے خیالات کی نہ صرف سختی سے مخالفت کی جاتی تھی بلکہ سائنسی خیالات اور ایجادات کے لئے کام کرنے والوں کو طرح طرح کی سزائیں اور اذیتیں دی جاتی تھیں جن سے ٹیلی اسکوپ (دوربین) کے موجد گلیلیو گلیلی جیسے عظیم الشان سائنس دان کو بھی گزرنا پڑا تھا۔ گیلیلو گلیلی کا کسی بھی دوسرے فرد کی نسبت سائنسی طرز فکر کی ترقی میں سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔ لیکن ان کی خدمات کے برعکس ان پر ریاست میں ’’بدعت‘‘پھیلانے کا الزام لگا کہ وہ خدا کے معاملات میں بے جا مداخلت کرتا ہے جس کے سبب قاضی القضا نے گیلیلیو کو مذہبی تصورات کو مسخ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور حکم دیا کہ وہ عوام الناس کی موجودگی میں معافی طلب کرے۔ اپنے زمانے کے اس بلند پائے کے سائنس دان اور علم طبیعیات کے جد امجد کو اپنی جان بچانے کے لیئے مجمع عام میں معافی مانگنی پڑی۔
1642 ء میں اندھے پن کی حالت میں اس عظیم انسان کی موت واقع ہوئی جسے آج کی سائنسی دنیا اور اطالوی لوگ اپنا محسن اور ہیرو گردانتے ہیں۔اہل مغرب کو چودھویں صدی سے پہلے تک جہالت کے جس تاریک دورسے گزرنا پڑا، آج اسی سے ملتے جلتے عہد سے زوال شدہ مسلمان قوم گزر رہی ہے۔ اگرچہ آج کے جدید سائنسی دور میں حصول علم اور نئے خیالات کے فروغ میں بظاہر کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آتی مگر حیرت انگیز طور پر انسانی ترقی کے اس ’’کوانٹم دور‘‘میں مسلمانوں کا کوئی کردار نظر نہیں آتا ہے بلکہ وہ اب بھی عدم علمی دلچسپی کی بنا پر جہالت کے سمندر میں غوطہ زن ہیں اور سائنسی علوم کے فروغ اور ایجادات میں ان کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اگر اس مایوس کن صورتحال میں کوئی شخص یا گروہ پاکستانی قوم (اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں)کے لئے علم اور کتابوں کے فروغ کے لئے کام کرتا ہے تو اسے ضرور خراج تحسین پیش کیا جانا چایئے۔گزشتہ روز متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفارت خانہ ابوظہبی میں جس کتاب کی تقریب رونمائی میں حصہ لینے کا موقعہ ملا وہ مسلمانوں کی ’’نشانہ ثانیہ‘‘کے اسی پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کا نام ’’زبان یار من ترکی‘‘ہے جس کے مصنف ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ ہیں۔ اگرچہ66 ابواب اور 657 صفحات پر مبنی یہ کتاب سفر نامہ ہے مگر اس میں ترک قوم اور کلچر کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مسلمانان برصغیر پاک و ہند کی تاریخ جھلکتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کا امین یہ ترکی ایک سو سال تک انقلابات کی زد میں رہا۔ یہ ڈاکٹر بھٹہ صاحب کے زور قلم کا معجزہ ہے کہ جس نے اس سفر نامے میں ترکی کے ماضی اور حال کو اپنی محبت کا عملی اظہار بنا دیا ہے۔ یہ کتاب ایک سفرنامہ کی شکل میں بہترین ادبی کاوش بھی ہے جس کے ذریعے انہوں نے ترکی کی تاریخ، ثقافت اور اقدار وغیرہ کو کمال دلکشی اور مہارت سے پیش کیا ہے۔ ۔کتاب کا عنوان امیر خسرو جنہیں اردو زبان کا پہلا شاعر بھی گردانا جاتا ہے کے اس شعر سے اخذ کیا گیا ہے۔
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من
جس کا اردو ترجمہ ہے کہ میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا، کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے لبوں سے ادا ہو جائے۔ اس سے مصنف کی ترکی عہد اور ترک لوگوں سے محبت و عقیدت جھلکتی ہے۔ پاکستان میں ’’التغرل ‘‘ڈرامہ سیریل بھی پیش کی گئی تھی جس کی عکاسی صفحہ قرطاس پر موصوف نے ایک منفرد ادبی انداز میں کی ہے۔ اس کتاب میں نیلی مسجد، آبنائے باسفورس، ترکی کا ابن بطوطہ، حضرت ابواب انصاری، قصہ چہار درویش، استنبول کی زیرزمین مسجد اور التغرل غازی جیسے ابواب سرفہرست ہیں۔ اس کتاب کو جہلم بک کارنر نے شائع کیا ہے جس کی قیمت 5ہزار روپے ہے۔ کتاب ہارڈ بائنڈنگ میں ہے جس میں اعلی کوالٹی کا کاغذ استعمال ہوا ہے اور فور کلر تصاویر بھی شامل ہیں جس کے مقابلے میں یہ قیمت زیادہ نہیں ہے۔
کتاب ہذا کی تقریب رونمائی کی صدارت سفیر پاکستان عزت مآب فیصل نیاز ترمذی نے کی، مہمان خصوصی انگلینڈ سے آئے ممتاز مصنف و صدر اخوت عارف انیس تھے، میزبانی کے فرائض منسٹر کونصلر ڈاکٹر کامران شیخ نے ادا کئے اور مقررین میں اردو بکس ورلڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر سرمد خان، ڈاکٹر شبینہ اسلم اور ڈاکٹر حسن خلیل سرفہرست تھے۔ اس تقریب کی خاص بات جس نے مجھے متاثر کیا وہ متحدہ عرب امارات میں متعین پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی کی اردو زبان و ادب اور کتب و مصنفین کی پذیرائی ہے جنہوں نے ابوظہبی کے بک فیئر میں اردو بکس ورلڈ کے پوولین پر ایک ہفتہ میں تین وزٹ کئے اور دو کتب کی پاکستان کے سفارت خانہ میں تقریب رونمائی کروائی۔ انہیں جب بھی پبلک میں دیکھا وہ ایک عام آدمی کی طرح ہر ایک سے ملن ساری کے ساتھ پیش آئے۔ وہ ہر ایک سے ان کے مسائل اور ان کے حل کے بارے بات کرتے ہیں۔ چند روز قبل وہ ہمارے جناح بک پویلئین پر آئے تو وہاں ایک 19سالہ قاضی نامی وولینٹیئر سے ان کا تعارف ہوا جس نے بتایا کہ وہ شاعری کرتے ہیں۔ سفیر صاحب نے اس سے فرمائش کی کہ وہ اپنی شاعری کے کچھ نمونے انہیں بھیجیں۔ کل جب تقریب میں سفیر صاحب کی اس نوجوان سے مدبھیڑ ہوئی تو انہوں نے پوچھا، قاضی صاحب آپ نے مجھے شاعری نہیں بھیجی؟‘‘ قوموں کی ترقی کا راز ایسی نابغہ روزگار شخصیات کے وجود سے وابستہ ہے جو علم کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کسی بھی انقلاب کوئی بنیاد رکھتا ہے تبھی وہ پھلتا پھولتا ہے۔ ایک ملین میلوں کا سفر بھی پہلا ایک قدم اٹھانے سے طے طے ہوتا ہے۔ میں انگلینڈ میں 9سال رہا اور وہاں اپنی کتب کی لانچ میں لندن میں سفیر پاکستان کو مہمان خصوصی کے طور پر بلانا چاہتا تھا مگر ان سے ملنے کے لئے وقت تک نہ لے سکا۔ یہاں فیصل نیاز ترمذی سمندر پار پاکستانیوں کی مدد کے لئے اپنا نمبر سائلین کو خود بانٹتے پھرتے ہیں۔ اگر وہ علم اور کتابوں کے فروغ میں اسی لگن اور محنت سے کام لیتے رہیں تو مسلم دنیا میں بھی مغربی طرز پر ’’احیائے علوم‘‘کی تحریک پیدا ہو سکتی ہے کہ عملی میدانوں میں فتح حاصل کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ چھوٹا ہی سہی ایک قدم تو اٹھایا جائے ،امید ہے صائمہ صمیم کے اعتراض کی کچھ تلافی ہو گئی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے فروغ کی زبان کے لئے

پڑھیں:

وزیراعظم شہباز شریف سے مسلم لیگ (ق) وفد کی ملاقات، 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت

وزیراعظم محمد شہباز شریف سے وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی چوہدری سالک حسین کی قیادت میں مسلم لیگ (ق) کے 4 رکنی وفد نے ملاقات کی۔ جس میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تفصیلی گفتگو اور مشاورت کی گئی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف سے استحکام پاکستان پارٹی قیادت کی ملاقات، 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت

وفد میں سینیٹر کامل علی آغا، ارکانِ قومی اسمبلی چوہدری محمد الیاس اور فرخ خان شامل تھے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف سے ایم کیو ایم وفد کی ملاقات، 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت

اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیرِ اقتصادی امور احد چیمہ، وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ، وزیرِ پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری اور مشیرِ وزیراعظم رانا ثنا اللہ بھی شریک تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27ویں آئینی ترمیم مسلم لیگ ق وزیراعظم محمد شہباز شریف

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت اور ہندو مسلم تعلقات کی خرابی کا ذمے دار کون؟
  • امریکا میں تاریخ رقم؛ پہلا مسلم میئر منتخب
  • ترکی میں 5 ہزار سال پرانے برتن دریافت، ابتدائی ادوار میں خواتین کے نمایاں کردار پر روشنی
  • اسرائیل مذاکرات کی نہیں بلکہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، حزب اللہ لبنان
  • وزیراعظم شہباز شریف سے مسلم لیگ (ق) وفد کی ملاقات، 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • عالمی مشاعرہ کا انعقاد 9 اور 10 نومبر کو ہوگا
  • بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام
  • کتاب ہدایت 
  • نیویارک کے پہلے مسلم میئر ظہران ممدانی کون ہیں؟