ترکی زبان یار من اور مسلم امہ کا احیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
کراچی سے فکشن رائٹر، شاعرہ اور مصنفہ صائمہ صمیم نے ’’ترکی زبان یار من‘‘کی تقریب رونمائی کے موقعہ پر گلہ کیا کہ میں اپنے گزشتہ اظہاریہ میں کچھ مصنفین کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔ میں کتابوں پر اکثر تبصرے لکھتا رہتا ہوں۔ آج کل ابوظہبی میں کتاب میلے اور ’’اردو بکس ورلڈ‘‘پر مصروفیت کی وجہ سے ایک تو پورا دن ’’جناح پاکستان پوولین‘‘پر گزرتا ہے جہاں روزانہ بکنے والی کتابوں، مصنفین اور بہت سارے کتاب دوست خریداروں سے واسطہ پڑتا ہے، جن سب کو یاد رکھنا بیک وقت میرے لیئے قدرے مشکل ہو جاتا ہے، اور دوسرا اردو زبان و ادب کے کچھ پروگراموں میں شرکت کرنے سے بھی محروم رہ جاتا ہوں۔ اس کے باوجود میری یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان شخصیات اور مصنفین کے کام کی حوصلہ افزائی کروں جو ہمارے اندر علمی آگاہی کو اجاگر کرنے کے لئے نمایاں کام کر رہے ہیں۔مغربی دنیا میں سائنسی انقلاب کا بنیادی سبب ’’احیائے علوم‘‘کی تحریک تھی جس کو انگریزی زبان میں ’’رینائیسنس‘‘کہا جاتا ہے جس کا آغاز 14ویں صدی میں قرونِ وسطیٰ کے خاتمے پر اٹلی سے ہوا تھا جب پورا یورپ علم و آگاہی سے دور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس وقت بادشاہت اور مذہبی پاپائیت کے گٹھ جوڑ کا زور تھا اور نئے خیالات کی نہ صرف سختی سے مخالفت کی جاتی تھی بلکہ سائنسی خیالات اور ایجادات کے لئے کام کرنے والوں کو طرح طرح کی سزائیں اور اذیتیں دی جاتی تھیں جن سے ٹیلی اسکوپ (دوربین) کے موجد گلیلیو گلیلی جیسے عظیم الشان سائنس دان کو بھی گزرنا پڑا تھا۔ گیلیلو گلیلی کا کسی بھی دوسرے فرد کی نسبت سائنسی طرز فکر کی ترقی میں سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔ لیکن ان کی خدمات کے برعکس ان پر ریاست میں ’’بدعت‘‘پھیلانے کا الزام لگا کہ وہ خدا کے معاملات میں بے جا مداخلت کرتا ہے جس کے سبب قاضی القضا نے گیلیلیو کو مذہبی تصورات کو مسخ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور حکم دیا کہ وہ عوام الناس کی موجودگی میں معافی طلب کرے۔ اپنے زمانے کے اس بلند پائے کے سائنس دان اور علم طبیعیات کے جد امجد کو اپنی جان بچانے کے لیئے مجمع عام میں معافی مانگنی پڑی۔
1642 ء میں اندھے پن کی حالت میں اس عظیم انسان کی موت واقع ہوئی جسے آج کی سائنسی دنیا اور اطالوی لوگ اپنا محسن اور ہیرو گردانتے ہیں۔اہل مغرب کو چودھویں صدی سے پہلے تک جہالت کے جس تاریک دورسے گزرنا پڑا، آج اسی سے ملتے جلتے عہد سے زوال شدہ مسلمان قوم گزر رہی ہے۔ اگرچہ آج کے جدید سائنسی دور میں حصول علم اور نئے خیالات کے فروغ میں بظاہر کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آتی مگر حیرت انگیز طور پر انسانی ترقی کے اس ’’کوانٹم دور‘‘میں مسلمانوں کا کوئی کردار نظر نہیں آتا ہے بلکہ وہ اب بھی عدم علمی دلچسپی کی بنا پر جہالت کے سمندر میں غوطہ زن ہیں اور سائنسی علوم کے فروغ اور ایجادات میں ان کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اگر اس مایوس کن صورتحال میں کوئی شخص یا گروہ پاکستانی قوم (اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں)کے لئے علم اور کتابوں کے فروغ کے لئے کام کرتا ہے تو اسے ضرور خراج تحسین پیش کیا جانا چایئے۔گزشتہ روز متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفارت خانہ ابوظہبی میں جس کتاب کی تقریب رونمائی میں حصہ لینے کا موقعہ ملا وہ مسلمانوں کی ’’نشانہ ثانیہ‘‘کے اسی پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کا نام ’’زبان یار من ترکی‘‘ہے جس کے مصنف ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ ہیں۔ اگرچہ66 ابواب اور 657 صفحات پر مبنی یہ کتاب سفر نامہ ہے مگر اس میں ترک قوم اور کلچر کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مسلمانان برصغیر پاک و ہند کی تاریخ جھلکتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کا امین یہ ترکی ایک سو سال تک انقلابات کی زد میں رہا۔ یہ ڈاکٹر بھٹہ صاحب کے زور قلم کا معجزہ ہے کہ جس نے اس سفر نامے میں ترکی کے ماضی اور حال کو اپنی محبت کا عملی اظہار بنا دیا ہے۔ یہ کتاب ایک سفرنامہ کی شکل میں بہترین ادبی کاوش بھی ہے جس کے ذریعے انہوں نے ترکی کی تاریخ، ثقافت اور اقدار وغیرہ کو کمال دلکشی اور مہارت سے پیش کیا ہے۔ ۔کتاب کا عنوان امیر خسرو جنہیں اردو زبان کا پہلا شاعر بھی گردانا جاتا ہے کے اس شعر سے اخذ کیا گیا ہے۔
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من
جس کا اردو ترجمہ ہے کہ میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا، کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے لبوں سے ادا ہو جائے۔ اس سے مصنف کی ترکی عہد اور ترک لوگوں سے محبت و عقیدت جھلکتی ہے۔ پاکستان میں ’’التغرل ‘‘ڈرامہ سیریل بھی پیش کی گئی تھی جس کی عکاسی صفحہ قرطاس پر موصوف نے ایک منفرد ادبی انداز میں کی ہے۔ اس کتاب میں نیلی مسجد، آبنائے باسفورس، ترکی کا ابن بطوطہ، حضرت ابواب انصاری، قصہ چہار درویش، استنبول کی زیرزمین مسجد اور التغرل غازی جیسے ابواب سرفہرست ہیں۔ اس کتاب کو جہلم بک کارنر نے شائع کیا ہے جس کی قیمت 5ہزار روپے ہے۔ کتاب ہارڈ بائنڈنگ میں ہے جس میں اعلی کوالٹی کا کاغذ استعمال ہوا ہے اور فور کلر تصاویر بھی شامل ہیں جس کے مقابلے میں یہ قیمت زیادہ نہیں ہے۔
کتاب ہذا کی تقریب رونمائی کی صدارت سفیر پاکستان عزت مآب فیصل نیاز ترمذی نے کی، مہمان خصوصی انگلینڈ سے آئے ممتاز مصنف و صدر اخوت عارف انیس تھے، میزبانی کے فرائض منسٹر کونصلر ڈاکٹر کامران شیخ نے ادا کئے اور مقررین میں اردو بکس ورلڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر سرمد خان، ڈاکٹر شبینہ اسلم اور ڈاکٹر حسن خلیل سرفہرست تھے۔ اس تقریب کی خاص بات جس نے مجھے متاثر کیا وہ متحدہ عرب امارات میں متعین پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی کی اردو زبان و ادب اور کتب و مصنفین کی پذیرائی ہے جنہوں نے ابوظہبی کے بک فیئر میں اردو بکس ورلڈ کے پوولین پر ایک ہفتہ میں تین وزٹ کئے اور دو کتب کی پاکستان کے سفارت خانہ میں تقریب رونمائی کروائی۔ انہیں جب بھی پبلک میں دیکھا وہ ایک عام آدمی کی طرح ہر ایک سے ملن ساری کے ساتھ پیش آئے۔ وہ ہر ایک سے ان کے مسائل اور ان کے حل کے بارے بات کرتے ہیں۔ چند روز قبل وہ ہمارے جناح بک پویلئین پر آئے تو وہاں ایک 19سالہ قاضی نامی وولینٹیئر سے ان کا تعارف ہوا جس نے بتایا کہ وہ شاعری کرتے ہیں۔ سفیر صاحب نے اس سے فرمائش کی کہ وہ اپنی شاعری کے کچھ نمونے انہیں بھیجیں۔ کل جب تقریب میں سفیر صاحب کی اس نوجوان سے مدبھیڑ ہوئی تو انہوں نے پوچھا، قاضی صاحب آپ نے مجھے شاعری نہیں بھیجی؟‘‘ قوموں کی ترقی کا راز ایسی نابغہ روزگار شخصیات کے وجود سے وابستہ ہے جو علم کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کسی بھی انقلاب کوئی بنیاد رکھتا ہے تبھی وہ پھلتا پھولتا ہے۔ ایک ملین میلوں کا سفر بھی پہلا ایک قدم اٹھانے سے طے طے ہوتا ہے۔ میں انگلینڈ میں 9سال رہا اور وہاں اپنی کتب کی لانچ میں لندن میں سفیر پاکستان کو مہمان خصوصی کے طور پر بلانا چاہتا تھا مگر ان سے ملنے کے لئے وقت تک نہ لے سکا۔ یہاں فیصل نیاز ترمذی سمندر پار پاکستانیوں کی مدد کے لئے اپنا نمبر سائلین کو خود بانٹتے پھرتے ہیں۔ اگر وہ علم اور کتابوں کے فروغ میں اسی لگن اور محنت سے کام لیتے رہیں تو مسلم دنیا میں بھی مغربی طرز پر ’’احیائے علوم‘‘کی تحریک پیدا ہو سکتی ہے کہ عملی میدانوں میں فتح حاصل کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ چھوٹا ہی سہی ایک قدم تو اٹھایا جائے ،امید ہے صائمہ صمیم کے اعتراض کی کچھ تلافی ہو گئی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے فروغ کی زبان کے لئے
پڑھیں:
بھارت اور اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم قابلِ مذمت ہیں، مسلم حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ثنااللہ سہرانی
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی جنوبی پنجاب کے امیر کا کہنا تھا کہ بھارت، امریکہ اور اسرائیل نے گزشتہ تین دہائیوں میں قتل و غارت کی بدترین مثالیں قائم کی ہیں اور مجموعی طور پر 15 لاکھ سے زائد انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے، المیہ یہ ہے کہ دنیا کی کسی عدالت کو اتنی اخلاقی جرات نہیں ہوئی کہ انہیں مجرم ٹھہرائے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر آج ملتان میں یومِ حقوقِ کشمیر و فلسطین کے موقع سیمینار منعقد کیا گیا۔ سیمینار کی صدارت ثنااللہ سہرانی، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی جنوبی پنجاب نے کی۔ اس موقع پر صہیب عمار صدیقی امیر جماعت اسلامی ملتان، خواجہ عاصم ریاض سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی ملتان، سینئر صحافی جبار مفتی، پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین لنگڑیال، مولانا عبدالرزاق مہتمم جامع العلوم، حافظ محمد اسلم نائب امیر جماعت اسلامی ملتان، راو ظفر اقبال سابق امیر جماعت اسلامی ملتان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور کشمیری و فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کیا۔ثنااللہ سہرانی نے کہا کہ بھارت اور اسرائیل دنیا کی دو بڑی غاصب و جابر ریاستیں ہیں، جو عشروں سے نہتے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو کشمیریوں کی آئینی حیثیت ختم کرکے پوری وادی کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ چھ سال گزر جانے کے باوجود کشمیری عوام مسلسل محاصرے، تشدد، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین، بالخصوص غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ لاکھوں افراد کو پانی، خوراک اور ادویات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے اور عالمی ادارے اور مسلم حکمران محض بیانات تک محدود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے نہتے غزہ کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ 60 ہزار سے زائد افراد کو شہید اور 21 لاکھ لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا ہے۔ یہ کھلے عام جنگی جرائم ہیں جن کی سزا اسرائیل کو ملنی چاہیے۔ بھارت، امریکہ اور اسرائیل نے گزشتہ تین دہائیوں میں قتل و غارت کی بدترین مثالیں قائم کی ہیں اور مجموعی طور پر 15 لاکھ سے زائد انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا کی کسی عدالت کو اتنی اخلاقی جرات نہیں ہوئی کہ انہیں مجرم ٹھہرائے۔ ثنااللہ سہرانی نے کہا کہ جماعت اسلامی ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور کشمیری و فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھے گی۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے دوٹوک اور جرات مندانہ موقف اختیار کیا جائے، بھارت و اسرائیل سے ہر قسم کے پس پردہ روابط ختم کیے جائیں اور عالمی سطح پر مظلوموں کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑا جائے۔