کراچی:

شہر قائد میں پانی کی فراہمی چھ دن بعد بھی معمول پر نہیں آسکی، پانی کا بحران بدترین شکل اختیار کر گیا۔

واٹر کارپوریشن کے مطابق شہر کو 6 دن میں ایک ارب گیلن پانی فراہم نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں شہری پانی کی بدند بوند کو ترس گئے، شہریوں نے گزشتہ چھ دن میں اربوں روپے کا پانی خرید کر اپنی ضروریا ت پوری کیں۔

آنے والے 48 گھنٹوں تک صورتحال بہترہو نے کا امکان ہے جبکہ چیف انجینئر بلک ظفر پیلیچو نے دعوی کیا ہے کہ اتوار کی رات تک مرمتی کام مکمل کر لیا جا ئے گا، پیر سے شہر کو پانی کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ کراچی یونی ورسٹی میں 29 اپریل کو  84 انچ کی لائن پھٹنے سے شہرمیں پانی کا نطام درہم برہم ہوگیا تھا، مختلف علاقوں میں 6 دن سے پانی کی فراہمی بند ہے۔

متاثرہ علاقوں میں کورنگی، لانڈھی، شاہ فیصل کالونی، ملیر، گلشن اقبال، گلستان جوہر، اولڈ سٹی ایریا، لیاقت آباد، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، گلبہار، پی آئی بی کالونی، لائنر ایریا، ڈیفنس، کلفٹن، محمود آباد، منظور کالونی شامل ہیں۔

ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے چیف انجینئر بلک ظفر پیلیچو کا کہنا ہے کہ اتوار کی رات تک مرمتی کام مکمل کر لیا جائے گا اور امکان ہے پیر سے شہر کو پانی کی فراہمی شروع کردی جائے گی، متبادل لائنوں کے ذریعے شہر کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے آنے والے دنوں میں پانی کی فراہمی معمول پر آجائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پانی کی فراہمی میں پانی شہر کو

پڑھیں:

راولپنڈی کی تباہی میں اسلام آباد کتنا ذمہ دار؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2025ء) راولپنڈی میں حالیہ برساتی تباہی اور سیلابی صورتحال کے جائزے کے لیے ڈی ڈبلیو نے مقامی حکام سے رابطہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ گو کہ راولپنڈی کے مقامی سقم تو اپنی جگہ وفاقی دارلحکومت میں سیورج کا تباہ حال نظام بھی راولپنڈی کی تباہی میں ایک بڑا حصہ ڈال رہا ہے۔

شہری انتظام کے ماہرین کے مطابق، حالیہ بارشوں کے دوران راولپنڈی کے نالہ لئی کا پانی 18 فٹ کی سطح تک پہنچ گیا جس سے قریبی آبادیوں کو نقصان پہنچا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد کی جانب سے راولپنڈی میں شہری سیلاب میں بڑا حصہ نہ ڈالا جاتا تو نالہ لئی کی سطح شاید 10 فٹ تک بھی نہ پہنچتی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر سندھو، جو سی ڈی اے میں ڈائریکٹر جنرل سول انتظامیہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ راولپنڈی کی انتظامیہ نالہ لئی کے پانی کے گزرنے کا راستہ محفوظ بنانے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ نالہ لئی کے کئی مقامات پر پانی کے اخراج کے راستے غیر قانونی تعمیرات اور کوڑا کرکٹ پھینکنے کی وجہ سے تنگ ہو گئے ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام آباد بھی راولپنڈی میں شہری سیلاب کی صورتحال کو بڑھا رہا ہے، کیونکہ اسلام آباد سے بغیر صاف کیے گئے سیوریج کا پانی نالہ لئی میں چھوڑا جاتا ہے، جو جڑواں شہروں سے پانی کے نکاسی کا واحد ذریعہ ہے۔ اسلام آباد شہر کے نکاسی آب کا کیا بندوبست ہے؟

یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسلام آباد میں پانچ بڑے قدرتی نالے موجود ہیں جن کے نام سیدپور، بیداں، تانواں، نکی لئی اور کنات نالہ ہیں اور یہ تمام نالے آخرکار نالہ لئی سے آ کر ملتے ہیں جو راولپنڈی کے گنجان آباد علاقوں سے گزرتا ہے۔

اسلام آباد کے تمام قدرتی نالے کبھی صرف بارش کے پانی اور آس پاس کی پہاڑیوں سے آنے والے پانی کے نکاس کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اسلام آباد نے آئی نائن کے علاقے میں ایک سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کیا تھا، جو راولپنڈی اور نالہ لئی کے قریب واقع ہے۔ اسلام آباد شہر کا تمام گندا پانی اس پلانٹ تک پہنچایا جاتا تھا اور صفائی کے بعد اس صاف شدہ پانی کو نالہ لئی میں چھوڑا جاتا تھا۔

سرور سندھو کا کہنا ہے کہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تاحال فعال ہے، تاہم وقت کے ساتھ انتظامیہ نے جہاں کہیں سیوریج لائن میں رکاوٹ آئی، وہاں لائن کو توڑ کر گندا پانی براہ راست اسلام آباد کے قدرتی نالوں میں ڈال دیا۔ اس کے نتیجے میں یہ نالے آلودہ ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ اب اسلام آباد کا تقریباً چالیس فیصد سیوریج بغیر کسی ٹریٹمنٹ کےبراہِ راست قدرتی نالوں میںڈالا جا رہا ہے، جو اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں کے نالوں میں پانی کی سطح بلند ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

لیکن سرور سندھو کا کہنا تھا، ''راولپنڈی کی انتظامیہ کو بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض میں کوتاہی برت رہی ہے۔ اگر دونوں شہروں میں چند سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس لگا دیے جائیں تو یہ نالے صاف پانی سے بہہ سکتے ہیں۔

اگرچہ وہ پینے کے قابل نہیں ہوں گے، لیکن کم از کم آلودہ بھی نہیں ہوں گے جیسا کہ اب ہیں۔"

کیا راولپنڈی اور اسلام آباد شہر کو قدرتی آفات کا سامنا ہے؟

کچھ عرصے سے یہ رجحان بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جب بھی شہر کے کسی حصے میں سیلاب آتا ہے تو انتظامیہ اسے ''کلاؤڈ برسٹ‘‘ قرار دے دیتی ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کافی عرصے سے کوئی کلاؤڈ برسٹ نہیں ہوا، اور انتظامیہ محض اپنی نااہلی کا ملبہ قدرتی آفات پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔

واٹر مینجمنٹ کے ایک ماہر نصیر میمن کہتے ہیں، ''پاکستان میں ہم قدرتی آفت نہیں بلکہ انتظامی آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں پورے ملک میں یا راولپنڈی اور اسلام آباد شہر میں ایسی کوئی قدرتی آفت نہیں آئی جس سے بچا نہ جا سکتا ہو، یہ سب انتظامی ناکامیاں ہیں۔

‘‘

نصیر میمن کا کہنا تھا کہ انتظامیہ میں اصلاح کی نیت کی کمی صرف راولپنڈی ہی کے لیے مسئلہ نہیں، کچھ عرصے سے اسلام آباد بھی متاثر ہو رہا ہے اور وقتاً فوقتاً بعض علاقوں میں سیلابی صورتحال کے باعث تباہی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ حالیہ بارشوں کے دوران سیدپور گاؤں بھی قدرتی نکاسیٔ آب کے نالوں میں پانی کے بہاؤ بڑھنے سے متاثر ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی، 4 اگست کو بجلی کا شٹ ڈاؤن مجموعی طور پر 9 گھنٹوں تک جاری رہے گا
  • 9 گھنٹے تک بجلی بند رکھنے کا فیصلہ
  • راولپنڈی کی تباہی میں اسلام آباد کتنا ذمہ دار؟
  • ملک بھر میں کل سے بارشوں کا نیا سلسلہ، سیلابی صورتحال سنگین ہونے کا خدشہ
  • اسلام اباد میں صاف پانی کی فراہمی اولین ترجیحات میں شامل ہے،چیئرمین سی ڈی اے
  • گوادر کیلئے کراچی سے ہفتے میں مزید 2 پروازیں بحال کرنے کا فیصلہ
  • گوادر کیلیے کراچی سے ہفتے میں مزید 2 پروازیں بحال کرنے کا فیصلہ
  • سام سنگ اسمارٹ ٹی وی سروس بحال، عالمی تعطل کی وجہ معلوم نہ ہوسکی
  • ایران سنگین آبی بحران کے دہانے پر ہے، ایرانی صدر
  • غزہ: جنگ میں وقفوں کے باوجود انسانی حالات بدستور اندوہناک