40 ہزار کے بجٹ میں آپ کون کونسےبہترین موبائلز خرید سکتے ہیں ؟ جانیں
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
پاکستان میں موبائل فون کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث شہریوں کی قوت خرید بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوئی ہے جس کے باعث آج ہم آپ کو 40 ہزار روپے کے بجٹ میں بہترین فونز کی آپشنز دینے جارہے ہیں جو یقینی طور پر آپ کا تجربہ بدل کر رکھ دیں گی۔
Samsung Galaxy A14
اس فہرست میں سب سے پہلا موبائل فون سیم سنگ گلیکسی اے 14 ہے جس کی قیمت35 ہزار روپے ہے لیکن فیچرز بڑے ہیں ، اس میں 6.
Infinix Hot 50
اس فہرست میں دوسرا نمبر انفیکس ہاٹ 50 کا ہے جس کی قیمت 36 ہزار 500 روپے ہے جبکہ اس میں6.78 انچ کا بڑا ڈسپلے ، 8 جی بی ریم، پانچ ہزار ایم ا ے ایچ کی بیٹری اور 50 میگا پگسلز بیک کیمرہ دیا گیاہے ۔
Vivo Y19s
ویوو کا یہ فون بھی بہت ہی شاندار فیچرز کا حامل جس کی قیمت 36ہزار روپے ہے ، اس فون میں 6.68 انچ کا ڈسپلے ، 6 جی بی ایل پی ڈی ڈی آر 4 ایکس ریم شامل کی گئی ہے جبکہ لمبی چلنے والی بیٹری کے شوقین افراد کیلئے5500 ایم اے ایچ بیٹری نصب کی گئی ہے اور 50 میگا پگسلز بیگ کیمرہ دیا گیاہے جو فوٹو گرافی کیلئے نہایت موزوں انتخاب ہو گا۔
Xiaomi Redmi 13
فوٹوگرافی کے شوقین افراد کیلئے کم پیسوں میں بڑا پیکج ہے جس کی قیمت تو 30 ہزار 500 روپے ہے لیکن اس کا کیمراہ 108 میگا پگسلز ہے ، اس کے علاوہ فون کی کارکردگی کو تیز کرنے کیلئے 8 جی بی ریم اورسکرین کے تجربے کو بڑھانے کیلئے 6.79 انچ کا ڈسپلے نصب کیا گیاہے ۔ اس کے علاوہ اس میں 5 ہزار 30 ایم اے ایچ کی بڑی بیٹری دی گئی ہے ۔
Realme C63
رئیل می کا یہ شاندار فون صرف اور صرف 31 ہزار 999 روپے کا ہے جس میں میں 6.745 کا ڈسپلے دیا گیاہے جبکہ 6/8 جی بی ریم کی آپشن موجود ہے ، بیک کیمرے کی طاقت 50 میگا پگسلز دی گئی ہے اور اس میں 5 ہزار ایم اے ایچ کی بیٹر نصب کی گئی ہے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایم اے ایچ کا ڈسپلے روپے ہے گئی ہے انچ کا ایچ کی
پڑھیں:
تربیت یافتہ دائیوں کی مدد سے لاکھوں جانیں بچانا ممکن، ڈبلیو ایچ او
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 جون 2025ء) 2023 میں زچہ بچہ کی اموات اور مردہ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 45 لاکھ تھی جن میں سے 37 لاکھ اموات قابل انسداد اسباب سے ہوئیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ اگر دنیا بھر میں ہر جگہ تربیت یافتہ دائیوں کی خدمات میسر ہوں تو ہر سال بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
دائیاں دنیا بھر میں خواتین کو طبی نگہداشت فراہم کرنے کے لیے مسلسل تندہی سے کام کرتی ہیں جس میں انہیں جنسی و تولیدی صحت، دوران حمل نگہداشت اور زچگی و بعد از زچگی مدد کی فراہمی شامل ہے۔
ان کی موجودگی دیہی علاقوں یا مسلح تنازعات سے متاثرہ جگہوں پر خواتین کے لیے خاص طور پر مفید ہوتی ہے جہاں ہسپتالوں تک رسائی کا فقدان ہوتا ہے۔ Tweet URL'ڈبلیو ایچ او' میں زچہ بچہ اور نوعمر افراد کی صحت سے معتلق شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انشو بینرجی نے کہا ہے کہ دائیوں کی تربیت اور ان کی تعداد کو بڑھانا دنیا بھر میں زچہ بچہ کی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کی موثر ترین حکمت عملی ہے۔
(جاری ہے)
'ڈبلیو ایچ او' کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی برادری کی مدد سے رکن ممالک ایسے اقدامات اور پالیسیاں شروع کر سکتے ہیں جس سے دائیوں اور ان کے کام کو وسعت دینے اور بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
فطری اور انسان دوست زچگی'ڈبلیو ایچ او' میں حاملہ اور زچہ بچہ خواتین کی صحت اور دائیوں کے کام کی ماہر الریکا رینسٹروم نے کہا ہےکہ تربیت یافتہ دائیاں خواتین کو اپنے جسم اور صلاحیتوں پر اعتماد بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔
ان کی بدولت خواتین کو اپنی صحت کے حوالے سے فیصلہ سازی اور ضروری معلومات تک رسائی میں مدد ملتی ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ بچے کی پیدائش کے عمل میں ہسپتالوں پر انحصار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے تو دائیوں کے ذریعے حاملہ خواتین اور زچہ بچہ کی نگہداشت کہیں اہمیت اختیار کر گئی ہے کیونکہ وہ سادہ و مستند طریقوں سے اپنا کام کرتی ہیں۔
دائیوں کی بین الاقوامی تنطیم کی چیف ایگزیکٹو اینا اگلس کا کہنا ہے کہ دائیاں زچگی کا عمل غیرضروری طبی مداخلت کے بجائے فطری اور انسان دوست انداز میں انجام دیتی ہیں جس میں اس کام کے نفسیاتی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس طرح خواتین خود کو محفوظ اور بااختیار محسوس کرتی ہیں۔
10 لاکھ دائیوں کی ضرورتاینا اگلس نے کہا ہے کہ دائیوں کا کام اہم ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے۔
دنیا بھر میں تقریباً 10 لاکھ دائیوں کی کمی ہے جسے پورا کرنے کے لیے مرتکز اور مختلف شعبوں کے باہم مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دائیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے تعلیم و صحت سمیت کئی شعبوں میں پالیسی سازی کرنا ہو گی اور عوامی آگاہی کے لیے مہمات چلانا ہوں گی۔
مراکش میں دائیوں کی تنظیم نے ایسی ہی ایک مہم شروع کی ہے جس کے تحت لوگوں میں معلوماتی مواد تقسیم کرنے کے علاوہ خواتین اور سول سوسائٹی کے اداروں کی شراکتیں قائم کی جاتی ہیں۔
اسی مہم کے نتیجے میں 2016 میں قانون سازی کے ذریعے دائیوں کے کام کی باقاعدہ تعریف متعین کی گئی۔مراکش جیسے مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ پالیسی سازی، اس پر عملدرآمد اور لوگوں کے لیے آگاہی کے اقدامات بیک وقت اٹھائے جانا ضروری ہیں اور ہر ملک کو اپنے مخصوص حالات کے مطابق طریقے اختیار کرنا چاہئیں۔
کامیاب دایہ گیری کی مثالمغربی کنارے میں فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی، ناروے کی فلسطینی کمیٹی اور فلسطینی وزارت صحت نے دیہی علاقوں میں حمل اور زچگی کی خدمات تک رسائی میں حائل مسائل پر قابو پانے کے لیے مہم شروع کی۔
اس سلسلے میں ہسپتالوں اور مقامی لوگوں کے مابین ارتباط کے ذریعے 2013 سے 2016 تک دائیوں کی خدمات کو چھ علاقائی ہسپتالوں اور 37 دیہات تک وسعت دی گئی۔ نتیجتاً سی سیکشن کے ذریعے غیرمنصوبہ بند زچگی میں 20 فیصد اور قبل از وقت پیدائش کی شرح میں 21 فیصد تک کمی آئی۔ڈاکٹر بینرجی کا کہنا ہے کہ یہ مختصر مدتی فوائد ہیں اور دائیوں کی خدمات کو وسعت دے کر طویل مدتی فائدہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دائیوں کی بدولت خواتین اور خاندانوں کے طبی نگہداشت سے متعلق تجربے اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور زندگی کے اس اہم مرحلے میں صحت کے لیے بااعتماد شراکتیں قائم ہوتی ہیں۔