عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں، پاکستانی سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 مئی 2025ء) پاکستان کی سپریم کورٹ نے آج سات مئی بروز بدھ اپنے ایک سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے میں وزارت دفاع کی اس اپیل کو منظور کر لیا گیا، جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد 2023ء میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کے خلاف کارروائی کی توثیق کی گئی تھی۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جن میں حکومت کے مطابق چاروں صوبوں میں کل 39 فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان مظاہروں کے دوران 100 سے زائد شہریوں کو حراست میں لے کر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، جن میں سے کچھ کو دس دس سال تک قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
(جاری ہے)
پاکستانی سپریم کورٹ نے ابتدائی طور پر ان کارروائیوں کو آئین کے منافی قرار دیا تھا، تاہم اب نئے فیصلے میں ان کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ترجمان نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''فوجی قوانین کا مقصد مسلح افواج کے اندر نظم و ضبط قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ان قوانین کو عام شہریوں پر لاگو کرنے کے لیے کبھی نہیں بنایا گیا تھا۔‘‘عمران خان اس وقت بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں قید ہیں۔ اگرچہ گزشتہ سال انتخابات سے قبل ان کے خلاف بعض مقدمات کالعدم قرار دے دیے گئے تھے، تاہم متعدد دیگر الزامات کے تحت وہ اب بھی حراست میں ہیں۔
شکور رحیم، اے ایف پی کے ساتھ
ادارت: مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو جائز قرار دیدیا، حکومت کو حق اپیل کیلئے قانون سازی کی ہدایت
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں سے متعلق محفوظ فیصلہ سنادیا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے وزارت دفاع سمیت دیگر اپیلوں کو منظور کرلیا ہے۔ اپیلیں منظور کرنے والے ججز میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس حسن رضوی بھی اکثریتی فیصلے میں شامل ہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل اور نعیم افغان نے اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آرمی ایکٹ کی 2 ڈی ون اور ٹو کو بحال کردیا۔ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 59(4) کو بھی بحال کردیا۔ فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینے کیلئے معاملہ حکومت کو بھجوا دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے۔ ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔ اٹارنی جنرل کے مطابق 39 فوجی تنصیبات پر 9مئی کو حملے ہوئے۔ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کر دیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے۔ حکومت چاہے تو فوجی عدالتوں کی سزا کے خلاف ہائیکورٹ میں آزادانہ اپیل کا حق دے سکتی ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے لیے ہے، آرٹیکل 175 کے تحت عدالتوں کے قیام اور اختیارات واضح ہیں، آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام ایگزیکٹو سے مکمل الگ ہے۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ آئین اور اسلام میں شفاف ٹرائل اور معلومات تک رسائی کا حق دے رکھا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 10 اے اور آرٹیکل 25 بالکل واضح ہے، نو مئی کے ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ نو مئی کے تمام کیسز عام عدالتوں میں چلائے جائیں، گرفتار ملزمان کا درجہ انڈر ٹرائل قیدی کا ہو گا۔