بھارتی جارحیت، سپریم کورٹ کے ججز کا قوم سے اظہار یکجہتی
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
---فائل فوٹو
بھارتی فوج کے بلااشتعال اور بزدلانہ حملے میں شہید ہونے والے معصوم پاکستانیوں کے لیے اسلام آباد میں تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا۔
تعزیتی اجلاس چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوا، جس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز شریک ہوئے۔
پاکستان کی مسلح افواج پوری طرح چوکنا ہیں، بھارت مساجد اور شہریوں پر حملوں کا مرتکب ہوا ہے، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری
سپریم کورٹ کے ججز نے پاکستان میں بھارتی حملوں میں شہریوں کی شہادت پر رنج و غم کا اظہار کیا، شہداء کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی، لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار بھی کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے اعلامیے میں شہداء کے لیے دعا کی گئی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ شہداء پر بے پناہ رحمتیں نازل کرے، سپریم کورٹ قوم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔
سپریم کورٹ نے انسانی وقار، انصاف اور بے گناہ جانوں کے تحفظ کے لیے غیر متزلزل عزم کا اظہار بھی کیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے کا اظہار کے لیے
پڑھیں:
سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کی سماعت، وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے، جو براہ راست نشر کی جا رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے اور یہ ذمہ داری آئین کی طرف سے دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کا اختیار ہے، اور وہ اسے آرٹیکل 184/3 کے ساتھ ملا کر استعمال کرسکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 184/3 کا استعمال صرف عوامی مفاد میں ہوتا ہے؟ اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جی بالکل، عدالت یہ اختیار بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔
دلائل کے دوران سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر آئینی خلاف ورزی ہو اور کوئی آرٹیکل براہ راست لاگو نہ ہوتا ہو، تو بھی سپریم کورٹ کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ آرٹیکل 199 کو 187 کے ساتھ نہیں پڑھا جا سکتا اور یہ اختیارات سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہوتے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی مدت میں 30 نومبر تک توسیع کردی گئی
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 184/3 کی درخواست کے بغیر بھی مکمل انصاف ممکن ہے؟ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت کسی بھی کیس میں مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرسکتی ہے۔
سلمان اکرم راجا نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ کے 11 ججز نے تسلیم کیا تھا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں۔ صرف نشستوں کی تعداد پر اختلاف رہا، فیصلہ متفقہ تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں میں غیر مسلم اور عام پبلک کا ذکر ہے، اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عام پبلک کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ ووٹ ایک بنیادی حق ہے جو ہر شہری کو پیدائش کے ساتھ ہی حاصل ہوجاتا ہے، تاہم قانون اس حق کو ریگولیٹ کرتا ہے، اور عمر کی حد کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا ووٹ کا حق پیدائش سے ملتا ہے یا 18 سال کی عمر میں؟ اس پر وکیل نے کہا کہ بنیادی حق تو پیدائش سے ہے، لیکن قانون 18 یا 16 سال کی عمر مقرر کر سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا
دورانِ سماعت سلمان اکرم راجا نے اصغر خان کیس کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ وہ خود اس مقدمے کے دوران عدالت میں موجود تھے، جہاں اسلم بیگ اور اصغر خان نے بیان حلفی جمع کروائے تھے کہ انہوں نے قومی مفاد میں الیکشن میں مداخلت کی۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں فیصلے کرتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا سیاستدان ان فیصلوں پر عمل کرتے ہیں؟
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کسی نہ کسی دور میں ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی فیصلے کی بینیفشری رہی ہے۔ جواب میں سلمان اکرم راجا نے کہا کہ وہ عدالت میں اس پر مزید بات نہیں کریں گے، باہر جا کر بات کریں گے۔
سماعت میں بعض مواقع پر یوٹیوب تبصروں اور سوشل میڈیا کے دباؤ پر بھی بات ہوئی، اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ وہ ہر سوال کا فوری جواب نہیں دے سکتے، اور یہ ممکن بھی نہیں کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا جا سکے۔
عدالت میں کیس کی مزید سماعت جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان تحریک انصاف جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل سپریم کورٹ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی وکیل سلمان اکرم راجا