اپریل میں ملکی تجارتی خسارے میں 55.20 فیصد اضافہ ریکارڈ
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 08 مئی ۔2025 )مارچ کی نسبت اپریل میں تجارتی خسارے میں 55.20 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا سرکاری دستاویزات کے مطابق اپریل کے دوران تجارتی خسارہ 3 ارب 38 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ریکارڈ ہوا، گزشتہ سال اپریل کے مقابلے بھی تجارتی خسارے میں 35.79 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا تھا.
(جاری ہے)
93 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی رواں مالی سال کے 10 ماہ میں برآمدات میں 6.25 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا، جولائی تا اپریل مجموعی برآمدات کا حجم 26 ارب 86 کروڑ ڈالر ریکارڈ ہوا، مارچ کی نسبت اپریل میں ملکی مجموعی درآمدات میں 14.52 فیصد اضافہ ہوا.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپریل میں ملکی مجموعی درآمدات کا حجم تقریبا 5 ارب 53 کروڑ ڈالر رہا، گزشتہ سال اپریل کے مقابلے درآمدات میں سالانہ بھی 14.09 فیصد اضافہ ہوا، رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں مجموعی درآمدات میں 7.37 فیصد اضافہ ہوا، جولائی تا اپریل ملکی مجموعی درآمدات کا حجم 48 ارب ڈالر سے زائد رہا.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فیصد اضافہ ریکارڈ تجارتی خسارے میں مجموعی برآمدات مجموعی درآمدات فیصد اضافہ ہوا ملکی مجموعی ریکارڈ ہوا کروڑ ڈالر اپریل کے کا حجم
پڑھیں:
ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ،پاکستان بزنس فورم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-06-20
کراچی(کامرس رپورٹر) پاکستان بزنس فورم نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران بار بار روپے کی قدر میں کمی کے باوجود ملک کی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ہے۔غیر جانب دار اور غیر منافع بخش تنظیم پی بی ایف کے مطابق روپے کی قدر میں کمی نے نہ تو پاکستان کی برآمدی مسابقت کو بہتر بنایا ہے اور نہ ہی پائیدار معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔1955 سے 1971 تک پاکستان کو معیشت کا سنہری دور قرار دیا جاتا ہے، جب روپے کی قدر ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 4.75 روپے مستحکم رہی۔ اس عرصے میں صنعتی ترقی، معتدل افراطِ زر اور مضبوط برآمدی ماحول دیکھنے میں آیا۔ تاہم 1971 کے بعد مسلسل گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔1975 تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 9.99 روپے تک گر گئی اور 2025 میں یہ تقریباً 284 روپے فی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس بڑی گراوٹ کے باوجود برآمدات میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کو بنیادی معاشی مسائل کے حل کے بجائے ایک وقتی حل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ سرکاری اور اوپن مارکیٹ کے ایکسچینج ریٹس میں فرق مصنوعی ڈالر قلت پیدا کرتا ہے، جس سے کرنسی ذخیرہ کرنے والے اور ٹیکس چور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، تیل اور خوردنی تیل جیسی بڑی درآمدی اشیاء پر انحصار کی وجہ سے کمزور کرنسی کے فوائد زائل ہو جاتے ہیں، نتیجتاً افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، پاکستان کی معیشت کی زیادہ تر پیداواری لاگت ڈالر سے منسلک ہے ، خام مال، مشینری، توانائی اور ٹیکنالوجی کی درآمدات پر انحصار کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی سے پیداواری لاگت بڑھتی ہے نہ کہ مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔فورم نے خبردار کیا ہے کہ جب تک بنیادی ڈھانچوں کی کمزوریوں کو دور نہیں کیا جاتا، روپے کی گراوٹ، افراطِ زر اور برآمدی زوال کا چکر جاری رہے گا۔ رپورٹ میں پالیسی سازوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کرنسی کی قدر میں ہیرا پھیری کے بجائے حقیقی اصلاحات، پیداواری صلاحیت میں اضافے، کم پیداواری اخراجات اور کاروباری مؤثریت پر توجہ دیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، برآمدی مسابقت صرف روپے کی قدر میں کمی سے حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے لیے پیداواری بہتری، شرحِ سود میں کمی، پالیسی استحکام، اختراعات اور کارکردگی میں اضافے کی ضرورت ہے۔فورم نے حکومت، صنعت اور مالیاتی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ خود انحصاری، تکنیکی ترقی اور پائیدار معاشی نمو پر مبنی طویل المدتی حکمتِ عملی تشکیل دیں تاکہ پاکستان معاشی استحکام، سرمایہ کاری اور برآمدی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔