سندھ میں یونیسف اساتذہ اور طلباء کو جدید تعلیم و تربیت دینے میں مصروف
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 مئی 2025ء) بابا جزیرہ کراچی کے ساحل کے ساتھ واقع کئی چھوٹے جزیروں میں سے ایک ہے۔ تقریباً 400 سال پرانا سمجھا جانے والا یہ چھوٹا سا مگر گنجان آباد علاقہ 30 ہزار سے زیادہ لوگوں کا مسکن ہے جس میں بڑی تعداد ماہی گیروں کی ہے۔
ان لوگوں کے پاس زندگی کرنے کو حسب ضرورت وسائل نہیں ہوتے اور کیماڑی بندرگاہ تک چلنے والی فیری ہی ان کا کراچی سے رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔
یہاں بچوں کے لیے قائم چند سرکاری سکولوں میں گورنمنٹ ہائی سکول یونس آباد بھی شامل ہے جہاں طلبہ کی بڑی تعداد جزیرے کی گنجان آبادی کی عکاس ہے جنہیں پڑھانے کے لیے گنے چنے چند اساتذہ تعینات ہیں۔
اس سکول میں ساتویں جماعت کی 15 سالہ طالبہ جویریہ کہتی ہیں کہ سکول میں جتنے طلبہ زیرتعلیم ہیں ان کے لیے اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے اور کچھ عرصہ پہلے تک ان کا تدریسی طریقہ لیکچر دینے اور تختہ سیاہ پر لکھنے تک ہی محدود تھا۔
(جاری ہے)
مثال کے طور پر استاد تختہ سیاہ پر سوال لکھ کر طلبہ سے اس کا جواب پوچھتے اور پھر اسے خود ہی اسے لکھ دیتے۔ اس طرح طبلہ رٹے پر انحصار کرتے اور صرف امتحان پاس کرنے کے لیے تدریسی مواد کو یاد کرنے تک ہی محدود رہتے تھے۔چونکہ یہ اساتذہ جدید تدریسی طریقوں سے واقف نہیں تھے، اس لیے ان کا پڑھانے کا انداز روایتی اور زیادہ تر تختہ سیاہ پر سوال و جواب لکھنے تک ہی محدود تھا جس سے تعلیمی معیار پر سوالات اٹھنے لگے۔
سکول میں جویریہ کی نئی استاد اور تجربہ کار معلمہ فرزانہ بتاتی ہیں کہ جب یہ طلبہ اگلی جماعتوں میں جاتے تو ان کی سمجھ بوجھ سطحی ہوتی تھی اور وہ تعلیمی مواد کو یاد کرنے اور اسے دہرانے تک ہی محدود رہتے تھے۔
کچھ عرصہ قبل سندھ میں بہتر تعلیم کے ذریعے ترقی میں تکنیکی معاونت کے پروگرام (ایس ٹی اے - ڈی ای ای پی) کے زیراہتمام جدید تدریسی طریقے متعارف کرانے سے صورتحال بدل گئی ہے۔ اس پروگرام کا مقصد تعلیم میں طلبہ کی دلچسپی بڑھانا اور تعلیمی نتائج کو بہتر بنانا ہے۔ یورپی یونین کی مالی معاونت سے چلائے جانے والے اس پروگرام پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے ذریعے عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔
یونیسف نے سکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ (ایس ای ایل ڈی) کو سکولوں کے اساتذہ کی پیشہ وارانہ اہلیت میں بہتری لانے کا مںصوبہ تیار کرنے میں معاونت کی ہے۔ اسے متواتر پیشہ وارانہ ترقی (سی پی ڈی) کا منصوبہ بھی کہا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں ایک نظرثانی شدہ حکمت عملی کے تحت دیہی سکولوں کو شہری علاقوں کے سکولوں کے ساتھ ملایا گیا تاکہ دیہی سکولوں کے محدود وسائل، اساتذہ کی کمی، اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع کے فقدان جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔
اس حکمت عملی کے تحت کچھ اساتذہ کو تربیت دے کر رہنما کا کردار سونپا جاتا ہے جو اپنے سکولوں کے گروہ میں دیگر اساتذہ کی معاونت کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اساتذہ کی کارکردگی کا متواتر جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے صوبہ سندھ کے 14 اضلاع میں اساتذہ کی دوران ملازمت تربیت کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکے اور کمرہ جماعت میں ایسے تدریسی طریقوں کو فروغ دیا جا سکے جو جدید تعلیمی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں۔
کمرہ جماعت کا مشاہدہ، اساتذہ کی کارکردگی کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ اور اس حوالے سے تعمیری آراء اس اقدام کے بنیادی جزو ہیں۔اس تبدیلی کا مرکز ایسے تدریسی طریقے متعارف کرانا ہے جو بچوں کی تعلیمی ترقی کے لیے سازگار ہوں۔ اس سلسلے میں دلچسپ مشقوں اور معاون سرگرمیوں پر مبنی کتابیں متعارف کرائی گئی ہیں۔
فرزانہ کہتی ہیں کہ اس اقدام کے ذریعے طلبہ پر مرتکز تدریسی نمونہ متعارف کروایا گیا ہے جو لیکچر پر مبنی روایتی طریقہ تدریس سے یکسر مختلف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ بطور رہنما استاد منوڑا اور بھٹ کے جزیروں پر قائم ان سکولوں میں بھی پڑھاتی ہیں جو نئی حکمت عملی کت تحت ان کے سے سکول سے منسلک کیے گئے ہیں۔
نئی تدریسی حکمتِ عملی نے طلبہ کی تعلیم پر واضح اور مثبت اثر ڈالا ہے اور کمرہ جماعت کے علاوہ مجموعی تعلیمی تجربے میں بھی تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔اس حکمت عملی کے تحت نصاب میں فنون لطیفہ اور تھیٹر کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور ان ذرائع کو طلبہ کا فہم و ادراک بڑھانے کے لیے موثر طور سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔
جویریہ بتاتی ہیں کہ اب ان کے تربیت یافتہ اساتذہ تختہ سیاہ پر سوالات کا جواب خود لکھنے کے بجائے طلبہ کو سوال سمجھنے اور اسے حل کرنے کو کہتے ہیں۔
علاوہ ازیں، انہیں حقیقی زندگی کی مثالوں کے ذریعے بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ نتیجتاً اب طلبہ رٹہ لگانے کے بجائے دلچسپ کہانیوں اور گروہی سرگرمیوں کے ذریعے سیکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ نئے طریقہ تدریس کی بدولت طلبہ کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے اور اب وہ مختلف مواقع پر ہونے والی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ طلبہ کے لیے مشاورتی سیشن بھی متعارف کرائے گئے ہیں جس سے انہیں اپنی خواہشات کا اظہار کرنے اور مستقبل کے لیے موزوں رہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔
جویریہ کہتی ہیں کہ تدریس کے ان تمام نئے طریقوں نے کمرہ جماعت کے اندر اور باہر طلبہ کی شرکت بڑھانے، ان کی خوداعتمادی میں اضافے اور سیکھنے کا نیا جذبہ پیدا کرنے میں مدد دی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تک ہی محدود اساتذہ کی سکولوں کے حکمت عملی کے ذریعے طلبہ کی ہیں کہ کے لیے ہے اور
پڑھیں:
قوم یوم استحصال منا رہی‘ مخصوص گروہ ملک کیخلاف سازشوں میں مصروف: عظمیٰ بخاری
لاہور (نوائے وقت رپورٹ +نیوز رپورٹر+ کلچرل رپورٹر) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے تحریکِ انصاف کے ناکام لانگ مارچ اور محدود شرکت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیچاری عالیہ حمزہ کو 4 ، 5 گاڑیوں کے ساتھ ٹریفک روک کر ویڈیوز بنانا پڑ رہی ہیں اور اْسے تاریخی ریلی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ افسوسناک بھی ہے اور مزاحیہ بھی۔ بجائے اس کے کہ لاکھوں کارکن دکھائے جائیں، بہن عالیہ ٹریفک کے ساتھ کلپ بنا رہی ہیں۔ پورے مارچ میں صرف پندرہ لوگ ہیں، اور وہی 'خان تیرے چاہنے والے' کہلا رہے ہیں۔ عوام نے اس تماشے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ سائیڈوں سے گاڑیاں گزار کر اپنے راستے بنا رہے تھے، کیونکہ انہیں معلوم ہے یہ صرف ویڈیو شو ہے۔ اگر ویڈیوز ہی بنانی ہیں تو کم از کم عوامی حمایت تو دکھائیں۔ صرف ٹریفک بلاک کر کے احتجاج کا دعویٰ نہ کریں۔ یہ تماشے اب عوام پر اثر انداز نہیں ہوتے، عوام باشعور ہو چکے ہیں اور اب جھوٹے نعروں کے پیچھے نہیں چلتے۔ علاوہ ازیں یوم استحصال کی تقریب سے خطاب میں وزیر اطلاعات و ثقافت نے کہا ہے کہ 5 اگست کا دن ہر پاکستانی کے لیے اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا کسی کشمیری کے لیے ہے۔ یہ دن بھارتی ظلم، بربریت اور مودی سرکار کی فاشسٹ سوچ کا ثبوت ہے۔ کشمیری قوم نہ جھکی ہے، نہ کبھی جھکے گی۔ ان کے عزم، حوصلے اور قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور اب بھارت کے ظلم کے مٹنے کا وقت آ چکا ہے۔7 مئی کو بھارت نے ناپاک جسارت کی، لیکن ہم نے چند گھنٹوں میں دشمن کو منہ کی کھانے پر مجبور کر دیا۔ بھارت اس وقت دنیا میں سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ جب نواز شریف اور شہباز شریف نے عالمی سطح پر آواز بلند کی تو کشمیر کا مقدمہ کبھی نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ عظمٰی بخاری نے یاد دلایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہ ماننے پر مجبور ہوا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جس کا حل ضروری ہے۔ اگر بھارت نے دوبارہ کشمیر پر ناپاک جسارت کی تو پاکستان دنیا کو یہ سچ بتانے میں دیر نہیں کرے گا۔ شرپسند عناصر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ جب قوم یومِ استحصال کشمیر منا رہی ہے تو ایک مخصوص گروہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ ریاست پاکستان اتنی طاقتور ہے کہ چند گھنٹوں میں اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن کو پسپا کر سکتی ہے۔ ریاست کو چند شرپسند عناصر سرنگوں نہیں کر سکتے، قوم متحد ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ اپنے بچوں کو فتنہ اور شرپسند سیاست سے دور رکھیں۔