اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان ایئر فورس (PAF) کو اپنی بیجنگ ایئر شو میں شاندار کارکردگی کے بعد برطانوی اخبار ٹیلیگراف کی جانب سے فضاؤں کا بادشاہ قرار دیا گیا ہے۔ اس اعزاز کا مطلب ہے کہ پاکستان کی ایئر فورس عالمی سطح پر اپنے مؤثر دفاعی آپریشنز اور اعلیٰ جنگی مہارت کے لحاظ سے ایک اہم مقام رکھتی ہے۔

پاکستان ایئر فورس کی عالمی سطح پر پذیرائی

ٹیلیگراف نے اپنی رپورٹ میں پاکستان ایئر فورس کی نہ صرف تکنیکی مہارت بلکہ اعلیٰ جنگی حکمت عملی کا بھی ذکر کیا، جو اسے دنیا کی مؤثر ترین فضائی افواج میں سے ایک بناتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایئر فورس نے حالیہ برسوں میں اپنے طیاروں اور جدید ہتھیاروں کے ساتھ دفاعی صلاحیت کو مزید مستحکم کیا ہے۔

فضائی حکمتِ عملی کی کامیابی

پاکستان ایئر فورس کی فضائی حکمتِ عملی اور جدید طیاروں کی موجودگی نے اسے عالمی سطح پر ایک طاقتور قوت کے طور پر ابھارا ہے۔ F-16 طیارے سے لے کر JF-17 تھنڈر تک، پاکستان کے جنگی طیارے عالمی سطح پر جنگی طاقت کے لحاظ سے اپنی حیثیت کو مزید مستحکم کر چکے ہیں۔

پاکستان ایئر فورس کی کارکردگی پر عالمی سطح پر اعتماد

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ایئر فورس نے آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْص اور دیگر دفاعی آپریشنز میں اپنی پختہ حکمت عملی اور ٹیکنیکی مہارت کے ذریعے دشمن کے متعدد حملوں کو ناکام بنایا، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔

پاکستانی ایئر فورس کا عزم اور حوصلہ

پاکستان ایئر فورس کا یہ اعزاز نہ صرف اس کی دفاعی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ یہ پاکستانی قوم اور پاک فضائیہ کے عزم و حوصلے کا مظہر بھی ہے۔ پاکستان ایئر فورس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان ایئر فورس کی عالمی سطح پر گیا ہے

پڑھیں:

امن کی آڑ میں گھسنے کی کوشش

اسلام ٹائمز: بین الاقوامی فورس کی غزہ میں تعیناتی منصوبے کے آگے بڑھنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اس میں فلسطینیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ٹائم ٹیبل، مشترکہ اہداف اور اختیارات فلسطینیوں کو منتقل کیے جانے کے مرحلے کی وضاحت کے بغیر یہ منصوبہ دراصل "نئے انداز میں غاصبانہ قبضے" کی صورت اختیار کر جائے گا۔ جب اس منصوبے میں منتخب مقامی اداروں اور بہت سے فلسطینی گروہوں کی کوئی جگہ نہیں ہو گی تو غزہ اور خطے کی عوام کی نظر میں تشکیل پانے والی نئی انتظامیہ کی مشروعیت پر سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔ موجودہ حالات میں فلسطین اتھارٹی یا دیگر مقامی سیاسی ڈھانچوں جیسے ادارے اس نئے سیٹ اپ میں کسی کردار کے حامل نہیں ہیں۔ فلسطینیوں کی نمائندگی کا نہ ہونا غزہ کی عوام کے لیے قابل قبول سیاسی ڈھانچہ تشکیل پانے میں بھی بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔ تحریر: مبین مرشدی
 
امریکہ نے غزہ میں بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کا ایک ابتدائی مسودہ تیار کر لیا ہے جس کے تحت امریکہ اور اس کے ہمراہ ممالک کو غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھالنے اور سیکورٹی امور کی دیکھ بھال کے لیے وسیع اختیارات سونپ دیے جائیں گے۔ یہ منصوبہ اگرچہ بظاہر عام شہریوں کی حفاظت اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے بنایا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذریعے امریکہ کو فلسطین کے حکومتی امور میں براہ راست مداخلت کا بہترین موقع فراہم ہو جائے گا۔ اس منصوبے کے لیے تیار کیے گئے ابتدائی مسودے کی بنیاد پر تعینات ہونے والی بین الاقوامی فورس اسلامی مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے اور غزہ کے فوجی مراکز کو کنٹرول کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کا براہ راست نتیجہ مقامی دفاعی صلاحیتوں کے کمزور ہو جانے اور غاصب صیہونی رژیم کی پوزیشن مضبوط ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
 
اسی طرح توقع کی جا رہی ہے کہ یہ بین الاقوامی فورس 2027ء تک غزہ میں ہی رہے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ غزہ میں تشکیل پانے والا یہ نیا انتظامی ڈھانچہ براہ راست امریکہ کی زیر نگرانی کام کرے گا جس کے نتیجے میں غزہ کی سیاسی خودمختاری محدود ہو کر رہ جائے گی۔ دوسری طرف اس منصوبے میں امریکہ کی زیر نگرانی اسرائیلی فوج کی سرگرمیاں بھی شامل ہیں اور یہ اسرائیل کو دی جانے والی ایک بہت بڑی رعایت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی جنگ بندی کا زیادہ تر مقصد غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی یقینی بنانا اور امریکہ کے سیاسی مفادات کا تحفظ ہے۔ اس منصوبے میں 16 ممالک شریک ہیں جبکہ 20 غیر حکومتی ادارے بھی شامل ہیں۔ یوں امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ ایک ملٹی نیشنل فورس کو مغربی ایشیا میں اپنا فوجی اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرے۔
 
فلسطینیوں کی آواز سے بے توجہی
بین الاقوامی فورس کی غزہ میں تعیناتی منصوبے کے آگے بڑھنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اس میں فلسطینیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ٹائم ٹیبل، مشترکہ اہداف اور اختیارات فلسطینیوں کو منتقل کیے جانے کے مرحلے کی وضاحت کے بغیر یہ منصوبہ دراصل "نئے انداز میں غاصبانہ قبضے" کی صورت اختیار کر جائے گا۔ جب اس منصوبے میں منتخب مقامی اداروں اور بہت سے فلسطینی گروہوں کی کوئی جگہ نہیں ہو گی تو غزہ اور خطے کی عوام کی نظر میں تشکیل پانے والی نئی انتظامیہ کی مشروعیت پر سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔ موجودہ حالات میں فلسطین اتھارٹی یا دیگر مقامی سیاسی ڈھانچوں جیسے ادارے اس نئے سیٹ اپ میں کسی کردار کے حامل نہیں ہیں۔ فلسطینیوں کی نمائندگی کا نہ ہونا غزہ کی عوام کے لیے قابل قبول سیاسی ڈھانچہ تشکیل پانے میں بھی بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔
 
مزاحمت سے جدا نہ ہونے والے ہتھیار
مغربی حکام کے اوہام کے برعکس غزہ میں اسلامی مزاحمت نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی غیر مسلح ہونے پر تیار نہیں ہے کیونکہ وہ مسلح ہونے کو اپنا "قومی اور قانونی حق" تصور کرتی ہے۔ یہ موقف غزہ پر نظارت یا اسلحہ کے کنٹرول جیسے اقدامات کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ جب حماس نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ ہتھیار پھینکنے پر کوئی سودے بازی نہیں کرے گی تو اب یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ اسلامی مزاحمت سے ہتھیار واپس لینے کا عمل سہولت سے اور مکمل طور پر انجام پا سکے گا۔ کئی سالوں تک جنگ اور فوجی کاروائیوں کے باوجود حماس نے اب تک اپنا فوجی ڈھانچہ اور ہلکے ہتھیاروں سمیت اسلحہ اور فوجی سازوسامان محفوظ بنایا ہوا ہے۔ صیہونی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حماس کے غیر مسلح ہونے کے لیے اس کا صرف تسلیم ہو جانا کافی نہیں ہے۔
 
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ غزہ کی عوام کو فریب دینے کے لیے ان کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا، مقامی سیکورٹی سیٹ اپ کی تشکیل اور سیاسی یقین دہانیاں بھی ضروری ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہو جاتا اس وقت تک بین الاقوامی فورس بھی غزہ میں تعینات نہیں کی جا سکے گی کیونکہ وہ اسلامی مزاحمت کی طاقت کے سامنے مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اصل میں ایک بامعنی سیاسی عمل اور غزہ کی سیکورٹی کے لیے جائز متبادل فراہم کیے بغیر حماس کا غیر مسلح ہو جانا ناممکن ہے۔ سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس نے "مسلح جدوجہد" کو اپنے تشخص کا حصہ بنا رکھا ہے اور جنگ کے درمیان غیر مسلح ہو کر نہ صرف اپنی سیکورٹی کھو بیٹھے گی بلکہ اس کے سیاسی جواز پر بھی سوال اٹھ کھڑے ہوں گے۔ لہذا بین الاقوامی فورس کی مرکزیت میں ٹرمپ کا منصوبہ بہت تیزی سے بند گلی کا شکار ہو جائے گا۔
 
تشخص چھن جانے کے مقابلے میں استقامت
غزہ کی تعمیر نو کو اسلامی مزاحمت کا تشخص چھین لینے یعنی اسے غیر مسلح کر کے اس کا سیاسی سماجی کردار ختم کر دینے، سے گرہ لگانا تعمیر نو کے عمل کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ ایسی تعمیر نو جو سیکورٹی اور خودمختاری کا خاتمہ کر دیتی ہو فلسطینی اسے ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ لہذا اگر تعمیر نو کو اسلامی مزاحمت کی نشانیاں ختم کر دینے سے مشروط کر دیا گیا تو نہ صرف اس کا جواز ختم ہو جائے گا بلکہ وہ تناو اور عدم استحکام واپس لوٹ آنے کا باعث بن جائے جائے گی۔ اسلامی مزاحمت کے فعال کردار کو نظرانداز کر کے تعمیر نو کا جو بھی منصوبہ پیش کیا جائے گا اس کی کوئی سماجی اور سیاسی حیثیت نہیں ہو گی۔ مقامی گروہوں کی شراکت داری کے بغیر تعمیر نو کی ہر کوشش وسیع پیمانے پر عدم اعتماد کا باعث بنے گی اور اس سے ایک "مصنوعی غزہ" تشکیل پانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • بالی ووڈ کا اصل بادشاہ کون ہے؟ انوراگ کشیپ نے سوال پر خاموشی توڑ دی
  • برطانوی وزیر ٹریڈ پالیسی کی ملاقات، دوطرفہ تجارت کے وسیع مواقع موجود: احسن اقبال
  • برطانوی چیف آف جنرل سٹاف کی جی ایچ کیو آمد، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات
  • امن کی آڑ میں گھسنے کی کوشش
  • غزہ میں بین الاقوامی امن فورس کی تعیناتی
  • اجتماع عام نظام کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ‘ ساجدہ تنویر
  • امیر قطر نے پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے کو خوش آئند اور بروقت قرار دیدیا
  • لیجنڈری فٹبال اسٹار ڈیوڈ بیکہم کو ’سر‘ کا خطاب دے دیا گیا
  • امریکا غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کیلئے سرگرم (اقوام متحدہ سے منظوری مانگ لی)
  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا