فلسطینیوں کی کسی بھی جبری بے دخلی کی ہرگز حمایت نہیں کریں گے ، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
اقوام متحدہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 مئی2025ء)اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کی ترجمان اولگا چیرفکو نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انھوں نے زور دیا کہ اقوامِ متحدہ، غزہ کے شہریوں کی جبری بے دخلی کے کسی منصوبے کی حمایت نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم غزہ کے شہریوں کی جبری بے دخلی کے مخالف ہیں ، اقوامِ متحدہ فلسطینیوں کی کسی بھی جبری نقل مکانی کی حمایت نہیں کرے گی۔
(جاری ہے)
غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کے لیے نئے امریکی منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے اولگا چیرفکو نے کہا کہ انسانی امداد کی ترسیل سے متعلق تمام منصوبے انسانی اصولوں، غیر جانب داری اور منصفانہ تقسیم کے تقاضوں کے مطابق ہونے چاہئیں تاکہ یہ امداد ان لوگوں تک پہنچے جو واقعی اس کے مستحق ہیں، بغیر اس کے کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔انھوں نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور شہریوں کو امداد تک رسائی دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ غزہ میں انسانی ضروریات سنگین حد تک بڑھ چکی ہیں اور واضح کیا کہ پورے غزہ کے باشندے خوراک کے محتاج ہیں اور غذائی قلت کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
بھارتی جارحیت؛ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کا بیان سامنے آگیا
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فیلیمن یانگ نے پاک بھارت کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تناؤ میں کمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فیلیمن یانگ نے پاکستان اور بھارت سے تحمل سے کام لینے اور کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کی ہے۔
فیلیمن یانگ نے عام شہریوں اور سویلین انفراسٹرکچر پر کیے گئے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تنازع کا حل مذاکرات اور سفارتی ذرائع سے ہی ممکن ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے مزید کہا کہ خطے میں کشیدگی کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔ جس سے دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز اقوامِ متحدہ کی ایک ٹیم نے آزاد کشمیر کے شہر مظفرآباد کا دورہ کیا تھا جہاں بھارت نے میزائل حملے کیے تھے۔
بھارت کے ان حملوں میں ایک مسجد بھی شہید ہوئی تھی جب کہ شہدا میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی۔
دوسری جانب بھارت کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں کسی بھی فوجی، شہری یا اقتصادی مقام کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔