Express News:
2025-07-06@14:48:59 GMT

جنگ اور مستحکم پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

ایک نئے موڑ پرآکر رکے ہیں ہم ! دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور ہندوستان کا ہم پر جنگ مسلط کرنا اسی تبدیلی کا ایک پہلو ہے۔ اس وقت ہندوستان، امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور امریکا بھی وہ نہ رہا جو آج سے تین ماہ قبل تھا۔ ہر طرف جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور دنیا نئی صف بندی کی طرف راغب ہے۔ اس نئی صفِ بندی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس کا علم ہمیں بھی نہیں، لیکن ہم توازن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا اور چین کے ساتھ برابری کے تعلقات کے خواہاں ہیں، مگر امریکا کا طرزِ عمل ایسا نہیں۔ امریکا اور چین کے مابین سرد جنگ نے ہمیں شدیدکوفت میں مبتلا کردیا ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی کا اہم عنصر ہے، ہندوستان سے ہمارے دیرینہ تنازعات ہیں، ہم نے خطے میں جن ممالک سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، ہم نے شرائط یہی عائد کیں کہ اس خطے میں وہ ہمارے ہندوستان کے ساتھ تنازعات کو سمجھے۔ جیسا کہ چین اور روس کے آپس میں تعلقات تھے اور اب امریکا، روس کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہوئے، روس اور چین کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکا، چین اور روس کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کے لیے، یوکرین کو یورپین یونین اور نیٹو سے دور رکھتے ہوئے بلی کا بکرا بنا رہا ہے۔ اس پس منظر میں یورپین یونین بذات خود تنہا کھڑی ہے۔ امریکا سے ان کے تعلقات انتہائی کشیدگی کا شکار ہیں۔

دنیا کے اس منظرنامے میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کو انتہائی معاشی مسائل درپیش ہیں، دہشت گردی کا سامنا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے اس ملک کو معاشی اعتبار سے جس اندھے کنویں میں دھکیلا تھا، ہم اس صورتحال سے ضرور نکل آئے ہیں مگر معاملہ اب بھی بہت حساس ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اس جنگ کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے ، لیکن اگر یہی جنگ اگلے دو ہفتے تک خدا نخواستہ جاری رہتی ہے تو جو معاشی استحکام ہم نے بڑی مشکل سے پایا تھا وہ ریزہ ریزہ ہوجائے گا، اگر ہماری معیشت دوبارہ کمزور ہوتی ہے تو ہم خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔

ہم سرد جنگ میں امریکاکی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنے رہے۔ امریکا نے یہاں آمریتوں کو پروان چڑھایا۔ جنرل ضیاالحق افغانستان میں، سوویت یونین کی مداخلت میں پارٹنر رہا۔ پھر یہ توازن ٹوٹا یہاں جمہوری قوتیں کمزور ہوئیں۔ آمریتوں نے مذہب کو جمہوریت کے خلاف استعمال کیا۔ دائیں بازوکی سوچ نے کشمیر پالیسی کو داخلی طور پر اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے خوب استعمال کیا۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی اسی بیانیہ کو آگے لے کر چلے۔ پھر بے نظیر نے اس بیانیہ سے لاتعلقی اختیارکی،کیونکہ اس وقت تک سرد جنگ کا خاتمہ ہوچکا تھا۔

دنیا میں ان تمام چیلنجزکا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط سیاسی قیادت کی ضرورت ہے اور ایسی سیاسی قوتیں جنم لیتی ہیں۔ ایک مضبوط سیاسی نظام سے، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات سے، مضبوط وفاقی ڈھانچے اور آزاد عدلیہ سے اور پاکستان میں ان تمام لوازمات کی کمی شدت سے رہی ہے۔ اس وقت بڑے بڑے سیاسی فیصلے ہورہے ہیں۔ یہ تمام فیصلے موجودہ دورکے وزیراعظم، صدر اور بلاول بھٹوکے تعاون سے کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں ان حقیقتوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ دشمن بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعات جیسا کہ جعفر ایکسپریس کا واقعہ اس بات کے عکاس ہیں۔ بلوچستان اور نہ ہی سندھ کو وڈیروں کی ایماء پر چھوڑا جاسکتا ہے، ایسا کرنے سے ہمارا دشمن اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ اس بدلتے منظر نامے کو ہمیں تیزی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو چلانا سیاستدانوں کا کام ہے نہ کہ آمروں کا ! وہ چاہے پھر جنرل ضیاالحق ہو، پرویز مشرف ہو یا پھر ہائبرڈ جمہوریت کی صورت ہو۔ اگر سندھ اور بلوچستان کے صوبوں کو ایسے غیرمقبول لیڈروں کے حوالے کیا گیا، تو یہ لوگ ہماری ساخت اور سالمیت کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ ہم پر ہندوستان نے جنگ مسلط کی ہے۔ یہ ہندوستان کی طرف سے ہم پر جارحیت کا قدم تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اتنی بڑی طاقت نہیں رہا کہ ہم ہندوستان کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔ ہم ایک ایٹمی طاقت ضرور ہیں مگر اس کا استعمال نہیں کرسکتے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک ایٹمی طاقت ہونے سے ہمارا دشمن ہم سے دور رہے گا مگر اس سے آگے ہم جا بھی نہیں سکتے۔ پاکستان کا مضبوط ہونا،آئین پر چلنا جمہوری پاکستان، معاشی طور پر مضبوط پاکستان اور مضبوط وفاق کا وجود دشمن کو ہم سے دور رکھے گا۔

یہ سال بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے ایک مشکل سال ہے۔ امریکا میں سیاسی اعتبار سے جو تبدیلی اس وقت آئی ہے، ان کی نظریاتی سوچ MAGA (Make America Greater Again) ہے اور وہ اس دنیا کو ایک نئے انداز اور نئے نظریے سے دیکھ رہے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس جن کی بیوی ہندوستانی ہیں، حال ہی میں انھوں نے یہ کہا کہ ’’ ہندوستان کو پاکستان کی طرف سے اس بات کی اجازت ملنی چاہیے کہ وہ پاکستان میں ان مخصوص اہداف کو نشانہ بنائے جہاں دہشت گرد پناہ لیے ہوئے ہیں‘‘ مگر وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان خود اس محاذ پر سالوں سے لڑ رہا ہے اور اس وقت بھی پاکستان بدترین دہشت گردی کا شکار ہے جس میں براہِ راست ہندوستان ملوث ہے۔

امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس کا ایک اور بیان سامنے آیا ہے ’’ ہم ہندوستان اور پاکستان کے مابین ثالثی کرنے کے خواہاں نہیں ہیں، البتہ ہم ایسا چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک جنگ کو آگے نہ لے کرجائیں۔‘‘ پاکستان کو اس وقت ثالثی کی ضرورت ہے لیکن امریکا اس پیج پر نہیں۔ پاکستان کو چین کی ٹیکنالوجی کی برتری نے محفوظ رکھا اور حکمتِ عملی کے تناظر میں ہمارے لیے یہ بہتر بھی رہا۔ یقینا جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے، وہ تمام بیانیہ، وہ تمام سوچیں اور رویے جو آج تک ہم لے کر چلے ہیں، ان پر نظرثانی کی ضرورت ہے، یہ ملک خدا کی نعمت ہے۔ اسے مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ صرف یہ سوچنا کہ ہمارے پاس deterrence ہے تو یہ ہماری کلاسیکل اور مانع سوچ ہے۔ سوویت یونین کے پاس بھی سیکڑوں نیوکلیئر بم اور ایٹمی ہتھیار تھے۔ نظریاتی ریاستیں اب تاریخ کا حصہ ہیں اور ضرورت ہے، اب زمینی حقائق کو سمجھنے کی۔

 ہندوستان نے ہم پر جنگ مسلط کی ہے۔ اس جنگ میں امریکا اور اسرائیل ان کے اتحادی ہیں۔ ماضی میں امریکا نے بہ حیثیت فرنٹ لائن اسٹیٹ پاکستان کو استعمال کیا اور اب نئے بین الاقوامی منظر نامے میں ہندوستان کی صورت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہمیں ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ ہندوستان کے ساتھ جنگ تو بے شک جنگ ہی ہے مگر وہ اس طرح سے مثبت رہی کہ یہ جنگ ہماری قوم کے لیے بیداری کا باعث ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی ضرورت ہے پاکستان کو کے ساتھ رہے ہیں ہے اور اس بات کے لیے

پڑھیں:

چین اور امریکا کی تجارت میں فرق

یونیورسٹی آف ایریزونا میں تاحیات معلم کے عہدے پر’لاریئٹ پروفیسر‘ کام کرنے والے معمر فلسفی نوم چومسکی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حالیہ برسوں میں تباہی کا پیمانہ جانچنے کیلئے بنائی گئی گھڑی ’ڈوُمس ڈے کلاک‘ تباہی کیلئے مقرر کیے گئے پوائنٹ کے قریب پہنچ چکی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے خاتمے کیلئے آمادہ ہے۔

28 اپریل 2025 کی سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے شائع ہونے والے نئے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں عالمی فوجی اخراجات 2718 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہزاروں ایٹمی بم موجود ہیں، جو کہ اس دنیا کو بار ہا ملیامیٹ کرنے یا تباہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔

دنیا کے مختلف حصوں میں چھوٹے بڑے مسائل موجود ہیں، کہیں پر بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل ممکن بنایا جا رہا ہے تو کہیں بات جنگوں تک پہنچ گئی ہے۔

اور جنگوں کی بات کی جائے تو ایشیا اور ملحقہ ممالک ان جنگوں کا مرکز سالہاسال سے چلے آرہے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر مشرق وسطی کم از کم گذشتہ 3 سالوں سے جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔

یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پورا ایشیا مغرب زدہ جنگوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور یہ سلسلہ تھمتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔

افغانستان، عراق، لبیا، شام، یمن، لبنان، ایران جہاں بھی جنگ کا کاروبار ہوتا نظر آتا ہے اس کے پیچھے یورپی یونین یا امریکا ضرور نظر آتا ہے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ آخر مغرب ہمیشہ جنگ کیلئے آمادہ کیوں نظر آتا ہے؟ ہمیشہ مغرب ہی مشرق پر حملہ آور کیوں ہوتا ہے اور اس سے مغرب کو کیا فائدہ ہے؟

اگر امریکا کی بات کی جائے تو امریکا اس وقت 2 قسم کی جنگوں سے دنیا کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک تجارتی جنگ اور دوسری جنگ کی تجارت پہلی جنگ میں امریکا نے دنیا کے کاروباری نظام کو اپنی خود سری اور خود پسندی کے بھینٹ چڑھایا اور دوسری جنگ یعنی جنگوں کی تجارت میں امریکہ نے ہتھیار بنا کر دنیا کو بیچنے کا دھندہ عروج پر پہنچایا اور جن علاقے یہ ہتھیار نہ خریدینے چاہیں ان پر پراکسی وار کے ذریعے جنگوں کو مسلط کیا گیا اور پھر دنیا کے قوانین کو پس پشت ڈال کر عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑا کر کئی ملکوں پر براہ راست حملے کئے اس کی تازہ مثال ایران ہے۔

ڈیفنس انڈسٹری یورپ کی ویب گاہ نے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے لیَے گئے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 میں امریکا نے 318 بلین ڈالرسے زائد کا جنگی سازو سامان بیچا، جو 2023 کے مقابلے میں 29 فیصد زیادہ تھا۔

جس میں 23 بلین ڈالر کے ایف 16 ترکیہ کو ، 18 اعشاریہ 8 بلین ڈالر کے ایف 15 اسرائیل کو اور 2 اعشاریہ 5 بلین ڈالر کے ٹینک رومانیہ کو بیچےہیں۔

یہ صرف چند بڑی اعداد و شمار ہیں۔ شکاگو پالیسی رویو نامی تنظیم نے لکھا امریکہ دنیا میں سب سے بڑا ہتھیار بیچنے والا ملک ہے۔

اب بات کرتے ہیں عالمی دنیا میں امریکہ کے مدمقابل چین کی، یوں تو چین نے گذشتہ سال 150 کے قریب ممالک کے ساتھ تجارت کی اور اپنے تعلقات بڑھائے۔

سی جی ٹی این پر جاری ایک رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق چین نے بیرونی تجارت کے نئے محرکات کو زور و شور سے فروغ دیا ہے، جس سے اس شعبے میں اعلیٰ معیار کی ترقی کے ذریعے عالمی اقتصادی نمو کو تقویت ملی ہے۔

2024 میں، چین کی برآمدات کا حجم 25.45 کھرب یوآن (3.51 کھرب ڈالر) تک پہنچ گیا، جو گزشتہ سال کی نسبت 7.1 فیصد زیادہ ہے، اور یہ لگاتار آٹھویں سال کی نمو میں بہتری کا اشارہ ہے۔

درآمدات کا حجم 18.39 کھرب یوآن (2.54 کھرب ڈالر) رہا، جس میں 2.3 فیصد کی شرح نمو ریکارڈ کی گئی، جو عالمی اوسط سے 1 فیصد زیادہ ہے۔

10 سال قبل صدر شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے  اجلاس کے عام مباحثے میں اپنی تقریر میں یہ خیال پیش کیا تھا کہ امن، ترقی، عدل، انصاف، جمہوریت اور آزادی تمام انسانیت کی مشترکہ اقدار اور اقوام متحدہ کے بلند مقاصد ہیں۔

ہمیں تمام انسانیت کی مشترکہ اقدار کو برقرار رکھنے اور بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، ایک مساوی، منظم اور کثیر القطبی دنیا کی تشکیل دینے، جامع  اقتصادی عالمگیریت کو فروغ دینے کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اور دنیا کو امن، سلامتی، خوشحالی اور ترقی کے روشن مستقبل کی طرف لے جایا جائے۔

صدر شی جن پھنگ کی زیر قیادت چین آج بھی دوطرفہ تجارت، باہمی ترقی اور کثیر الجہتی تعاون اور امن بقائے باہمی پر عمل پیرا ہے۔

ذرا دیر کو سوچئے کہ ہتھیاروں کی تجارت پر خرچ ہونے والا اگر آدھا پیسہ بھی تعلیم و تربیت پر صرف کیا جاتا تو یہ دنیا یقینا امن کا گہوراہ بن جاتی۔

یونیورسٹی آف آکسفورڈ کا سالانہ بجٹ 3.8 بلین ڈالر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی معیار کی ایک ایسی یونیورسٹی قائم کرنے کیلئے ابتدائی طور پر 20 بلین ڈالر چاہیے ہوں گے۔

آپ خود انداز لگا سکتے ہیں کہ صرف 1 سال کے جنگی اخراجات سے سیکڑوں یونیورسٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وقار حیدر

امریکا تجارت چین

متعلقہ مضامین

  • چین اور یورپی یونین کو ایک مستحکم دنیا کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا چاہیئے ، سی ایم جی کا تبصرہ
  • نریندر مودی ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈیڈ لائن کے آگے جھک جائیں گے، راہل گاندھی
  • پاکستان اور امریکا میں تجارتی مفاہمت، پاکستانی برآمدات کے لیے اُمید مضبوط
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدے پر بڑی پیش رفت
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان ڈیڈلائن سے ایک ہفتہ قبل تجارتی معاہدے پر مفاہمت طے پاگئی
  • چین اور امریکا کی تجارت میں فرق
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات مکمل، ٹیرف ریلیف اور خام تیل کی خریداری پر پیش رفت
  • مائننگ پالیسی میں بڑی پیشرفت، امریکا، چین اور روس کو مساوی مواقع
  • مسئلہ کشمیر میں امریکی دلچسپی: چند تاریخی حقائق
  • اللہ خیر کرے I Love Pakistan