Express News:
2025-06-27@03:31:10 GMT

ماں

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

بچپن سے سنتے، پڑھتے اور دیکھتے آئے ہیں کہ ماں دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہے۔ ماں کی گود وہ پہلا مکتب ہے، جہاں انسان زندگی کے سبق سیکھتا ہے، اور یہی وہ آغوشِ محبت ہے، جہاں ہر درد کا مداوا اور ہر خوف کا علاج موجود ہوتا ہے۔ حسن، خلوص، وفا، ایثار، اور بے لوث محبت کے سارے رنگ اگر ایک وجود میں سمٹ جائیں تو وہ ماں ہے۔

ماں کا رشتہ ان مول ہے، ماں کی محبت بے حساب ہے۔ اس کی قربانیوں کا شمار ممکن نہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ دینا بھی ناممکن ہے۔ ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر جب دنیا بھر میں لوگ اپنی ماؤں کے ساتھ تصاویر مشتہر کرتے ہیں یا ان کے لیے محبت بھرے جملے لکھتے ہیں، تو یہ ایک خوب صورت عمل ضرور ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماں جیسی عظیم ہستی کے لیے صرف ایک دن کافی ہے؟

ماؤں کی قربانی اور جدوجہد کا دائرہ صرف ہمارے بچپن یا بیماری تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہماری زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔ ماں صرف ایک دن کی محبت کی مستحق نہیں، بلکہ وہ ہر دن، ہر لمحے، ہر سانس کی محبت کی حق دار ہے۔ ’مدرز ڈے‘ کا مقصد صرف ایک دن محبت کا اظہار نہیں، بلکہ ہمیں یہ یاد دہانی کروانا ہے کہ ماں کی قدر ہر دن کرنا ضروری ہے۔

’مدرز ڈے‘ مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کی ابتدا امریکا کی اینا جارویس نے 1908 میں اپنی ماں کی یاد میں کی تھی، تاکہ ایک ایسا دن مخصوص کیا جا سکے، جس میں دنیا بھر کے بچے اپنی ماؤں کی قربانیوں اور محبت کا اعتراف کریں۔ مختلف ثقافتوں میں اس دن کو مختلف انداز سے منایا جاتا ہے، لیکن اس کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے کہ ماں کی عظمت کو سلام پیش کیا جائے۔

اسلامی تعلیمات میں بھی ماں کا مقام بہت بلند ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ قرآن اور احادیث میں بارہا والدین کے ساتھ حسن سلوک اور خاص طور پر ماں کی خدمت پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے ماں کے حقوق کو کتنا اہم مقام دیا ہے۔

لیکن جہاں ماؤں کے حقوق ہیں، وہیں کچھ فرائض بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں ہمارا اس وقت سے خیال رکھتی ہے اور محبت کرتی ہے، جب ہمارا اس دنیا میں نام و نشان بھی ہوتا۔ اس ہی لیے کہا جاتا ہے کہ ماں کی محبت دنیا والوں کی محبت سے نو ماہ زیادہ ہوتی ہے۔

زندگی کے تمام رنگ، تمام پہلو اور ہر روپ عورت کے وجود سے مکمل ہوتے ہیں۔ عورت نہ صرف زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، بلکہ وہ ہر شعبے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی عظمت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے۔

آج کے اس پرآشوب دور میں نئی نسل کی حفاظت ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے، لیکن یہ ماں ہی ہے جو جس کی بدولت انسانیت کا وجود آج بھی قائم ہے۔ اللہ نے عورت میں بہ حیثیت ماں وہ تین خوبیاں رکھی ہیں جن پر تمام انسانیت کا دارومدار آج بھی قائم ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو نئی زندگی کو جنم دیتی ہے، پھر محبت اس کو پروان چڑھاتی ہے اور اس کی نشوو نما کرتی ہے اور پھر وہ انسان اور معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اگرچہ بچے کی پیدائش اور پرورش ہر عورت کے لیے ممکن ہے، لیکن تبدیلی کا عمل صرف وہی عورت کر سکتی ہے، جو خود اپنی حیثیت اور اہمیت سے واقف ہو۔ ایسی باشعور عورتیں نہ صرف نسلوں کی تربیت کرتی ہیں بلکہ قوموں کی تقدیر بھی سنوارتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر کام یاب انسان کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔

بچے دنیا میں بالکل سادہ اور معصوم آتے ہیں، ماں کی گود ان کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے۔ وہ جیسے الفاظ سنتے ہیں، جیسا رویہ دیکھتے ہیں، ویسی ہی شخصیت تشکیل پاتے ہیں۔ بچہ ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر ابتدائی نقوش ماں ہی ثبت کرتی ہے۔ اس کے خیالات، اقدار اور اخلاقیات کی بنیاد جتنی مضبوط ہوگی، وہ اتنی ہی کام یاب شخصیت بنے گا۔

ترقی یافتہ معاشروں کی بنیاد ان عورتوں پر ہے جو اپنے بچوں میں اعلیٰ سوچ، نیکی، دیانت اور خودداری جیسے جوہر پیدا کرتی ہیں۔ جب تک عورت یہ ذمہ داری محسوس نہیں کرے گی، نسلیں پروان نہیں چڑھ سکتیں، کیوں کہ صرف جسمانی افزائش کافی نہیں، اصل ترقی فکری و اخلاقی تربیت سے ہوتی ہے۔

اس ضمن میں جارج برنارڈ شا کا ذکر اہم ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بچپن میں ان کے اکثر کام غلط ہوتے تھے، لیکن ان کی ماں ان کے ایک درست کام کو بڑے فخر سے بیان کرتی تھیں۔ اس محبت نے ان میں بہتری لانے کی تحریک دی اور وہ دن بہ دن کام یابی کی طرف بڑھتے گئے۔ یہ ماں کی حوصلہ افزائی تھی جس نے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی۔

اسی طرح تھامس ایڈیسن کی کہانی بھی ایک عظیم ماں کی بصیرت کا عکس ہے۔ ایک دن ایڈیسن اسکول سے ایک خط لایا، جس میں لکھا تھا کہ وہ ذہنی طور پر کمزور ہے اور اسے اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔ مگر اس کی ماں نے وہ خط پڑھ کر کہا ’’تم بہت جینیئس ہو، اس اسکول کے اساتذہ تمھیں نہیں پڑھا سکتے۔‘‘ یہی الفاظ ایڈیسن کی طاقت بنے، اور ایک دن وہ 1093 ایجادات کا مالک بن گیا، جن میں بلب بھی شامل ہے۔ ایڈیسن خود کہتا ہے ’’میری ماں نے مجھے وہ انسان بنایا جو میں آج ہوں۔‘‘

یہ تمام مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ عورت صرف زندگی دیتی نہیں، بلکہ اس کی تشکیل بھی کرتی ہے۔ وہ کردار بناتی ہے، قومیں اٹھاتی ہے اور دنیا کو بہتر بناتی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں ماں کا مقام دنیا کے ہر رشتے سے بلند ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ ماں کو والد سے بھی تین گنا زیادہ احترام کا مستحق قرار دیا گیا۔ ایک صحابی نے نبی کریم سے پوچھا ’’میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ آپ  نے فرمایا ’’تمھاری ماں‘‘ تین بار یہی جواب دیا، اور چوتھی بار فرمایا ’’تمھارا باپ‘‘

حضور اکرم نے ماں کی نافرمانی کو حرام قرار دیا اور اسے جنت کے دروازے بند ہونے کا سبب بتایا۔ ایک بار ایک صحابی نے بڑے گناہ کی توبہ کی صورت پوچھی تو نبی کریم  نے فرمایا ’’اپنی ماں سے نیکی کرو‘‘

 اسلام نے عورت، خصوصاً ماں کو وہ عزت بخشی ہے، جس کی مثال دنیا کے کسی اور نظام میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں ’’مدرز ڈے‘‘ کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی جاتی کہ ہمارے یہاں ماں کا دن ہر دن ہے، اور اس کی عظمت ہر وقت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

آج اگر ہم واقعی معاشرتی، اخلاقی اور تعلیمی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ماؤں کو شعور، عزت، تعلیم اور مواقع دینے ہوں گے۔ کیوں کہ جو ماں خود باشعور ہوگی، وہی ایک باشعور نسل پروان چڑھا سکتی ہے اور ایسی مائیں ہی ہیں جو کائنات میں رنگ بھرتی ہیں، زندگی کو سوز دیتی ہیں اور نسلوں کو روشنی عطا کرتی ہیں۔

’مدرز ڈے‘ منانا ایک خوب صورت روایت ضرور ہے، لیکن ہماری ذمہ داری اس سے بہت آگے بڑھ کر ہے۔ ماں وہ ہستی ہے، جو ہماری پیدائش سے پہلے بھی ہمیں سنبھالتی ہے اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک ہمارے لیے جیتی ہے۔ ماں کو صرف ایک دن کی نہیں، ہر دن کی خوشی چاہیے، ہر لمحے کی دعائیں اور ہر گھڑی کی عزت۔

لہٰذا اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ یہ دن صرف ماں سے اظہار محبت کا ایک موقع نہیں، بلکہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ماں کی قدر و قیمت ہمیشہ دل و دماغ میں تازہ رکھنی چاہیے۔ اگر ہم ہر دن کو ’مدرز ڈے‘ بنا دیں تو شاید تب بھی ماں کے احسانات کا بدلہ نہ چکا سکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کہ ماں کی صرف ایک دن کی محبت مدرز ڈے کرتی ہے جاتا ہے ہوتا ہے ہوتی ہے ہے اور ماں کے ہیں کہ ماں کا اور اس

پڑھیں:

طاقت کے زعم میں امن؟

امریکی صدر ٹرمپ نے نیدر لینڈزکے شہر دی ہیگ میں نیٹو اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران یورینیم افزودگی کا پروگرام دوبارہ شروع کرے گا، تو اسے فوجی کارروائی سے روکیں گے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر بالکل ٹھیک جا رہا ہے، میرے کہنے پر اسرائیلی طیارے ایران کی فضاؤں سے واپس آئے ہیں، غزہ کے معاملے پر بھی بڑی پیش رفت ہو رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہیروشیما کی مثال دینا نہیں چاہتا، ناگاساکی کی بھی نہیں لیکن بنیادی طور پر امریکی حملہ ہی وہی چیز تھی جس نے ایران اسرائیل جنگ کا خاتمہ کیا۔

 دی ہیگ میں ہونے والے نیٹو اجلاس کے دوسرے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جو خیالات سامنے آئے، ان کے تناظر میں اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ آیا وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں؟ تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ یہ عمل انتہائی پیچیدہ، کثیر الجہتی اور طویل المدتی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے، جو محض عسکری کارروائیوں یا دھمکیوں سے ممکن نہیں ہو سکتا۔ ٹرمپ کی حکمت عملی عمومی طور پر فوری نتائج، طاقت کے مظاہرے اور سیاسی فائدے پر مبنی ہوتی ہے، جب کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال تاریخی، مذہبی، سیاسی اور علاقائی تناؤ کا مرکب ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے نیٹو اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران دعویٰ کیا کہ ان کے دباؤ اور امریکی فضائی طاقت کے مظاہرے کے نتیجے میں ایران کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا اور اسرائیل نے فوری حملے سے گریز کیا۔ انھوں نے اسے اپنی قیادت کی کامیابی قرار دیا۔ بظاہر یہ ایک وقتی کامیابی ضرور ہو سکتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران اب اپنی جوہری پالیسی سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے گا یا اسرائیل اپنی فوجی جارحیت سے باز آ جائے گا۔

ایران کی سیاسی قیادت خاص طور پر سخت گیر حلقے اس دباؤ کو ایک ’’ غیر ملکی جارحیت‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسے داخلی سطح پر اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں، جس کا نتیجہ مزید مزاحمت اور خود انحصاری کی طرف لے جاتا ہے۔ایران اور اسرائیل کے درمیان مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دونوں ممالک کے مابین براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار نہ ہو اور اس میں تیسرے فریق کے طور پر کوئی غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد قوت ثالثی کا کردار ادا نہ کرے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا اسرائیل کی کھلی حمایت کا رجحان، جیسا کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، فلسطینیوں کی نظر میں امریکی کردار کو مکمل طور پر متنازعہ بنا چکا ہے۔ لہٰذا ایران جیسے ملک کے لیے امریکا کی ثالثی کبھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس پس منظر میں یہ قیاس کہ ٹرمپ ایران اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کر سکیں گے، نہایت خوش فہمی پر مبنی ہو گا۔

دوسری طرف اگر اسرائیل کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیلی حکومت کی پالیسی ہمیشہ سے دفاعی کے ساتھ ساتھ جارحانہ نوعیت کی رہی ہے۔ اس کے عسکری ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں نہ صرف ہمسایہ ممالک پر نظر رکھتی ہیں بلکہ اندرون فلسطین بھی مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں غزہ پر مسلسل بمباری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور فلسطینی شہریوں کی ہلاکتیں اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ یہ کہنا کہ اسرائیل کی غنڈہ گردی کسی امریکی صدر کی ایک تقریر یا دباؤ سے رک جائے گی، حقیقت سے فرار کے مترادف ہے۔ اسرائیلی پالیسی اس وقت تبدیل ہوگی جب اسے بین الاقوامی سطح پر سخت سیاسی، سفارتی اور معاشی دباؤ کا سامنا ہو اور جب اس کی داخلی سیاست میں امن کا بیانیہ فوقیت حاصل کرے۔

فلسطین پر جاری مظالم کی تاریخ طویل اور المناک ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، بین الاقوامی قوانین اور عالمی رائے عامہ سب فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے، یہودی آباد کاری کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور غزہ ایک قید خانے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

جب تک فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور جب تک اسرائیل پر بین الاقوامی سطح پر سخت دباؤ نہیں ڈالا جاتا، اس وقت تک فلسطینی عوام کے لیے کسی بھی قسم کے امن کی امید رکھنا محض فریب ہوگا۔ ٹرمپ کی پالیسی، جو مکمل طور پر اسرائیل نواز رہی ہے، اس مسئلے کے حل میں مزید رکاوٹ بن چکی ہے۔

اب اگر یوکرین اور روس کی جنگ کی بات کی جائے، تو یہ جنگ بھی محض دو ممالک کے درمیان نہیں بلکہ ایک عالمی کشمکش کی علامت ہے، جس میں امریکا، نیٹو، یورپی یونین اور دیگر علاقائی طاقتیں براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہیں۔ ٹرمپ نے کئی مواقعے پر دعویٰ کیا کہ وہ اگر دوبارہ صدر بنے تو 24 گھنٹوں میں اس جنگ کو روک سکتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ بظاہر ایک انتخابی نعرہ ہے جس میں زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔

یوکرین اپنی سرزمین پر روسی قبضے کے خلاف برسر پیکار ہے اور اسے نیٹو اور امریکا کی بھرپور مدد حاصل ہے۔ روس اپنی علاقائی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔ ایسے میں کسی ایک شخصیت کا دعویٰ کہ وہ اس پوری جنگ کو چند گھنٹوں میں ختم کر دے گا، محض سادہ لوحی ہے۔

ٹرمپ کی سابقہ خارجہ پالیسی کو دیکھا جائے تو وہ نیٹو پر مالی دباؤ ڈالنے، اتحادیوں سے رقم وصول کرنے اور امریکا کی عسکری قوت کو سودے بازی کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ انھوں نے کبھی بھی اصولی، اخلاقی یا بین الاقوامی قانون پر مبنی پالیسی پر زور نہیں دیا۔ ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ یوکرین جنگ جیسے پیچیدہ اور سنگین تنازعے کو سفارتی طور پر ختم کروا لیں گے، زمینی حقائق کے برعکس ہے۔

 یہ بھی ایک قابل غور بات ہے کہ نیٹو اجلاس میں دیگر ممالک کے رہنماؤں کی موجودگی کے باوجود ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی ’’امریکا اول‘‘ پالیسی کا اظہار کیا۔ ان کا سارا زور اس بات پر رہا کہ امریکا نیٹو کا سب سے بڑا مالی معاون ہے اور دیگر ممالک کو مزید مالی بوجھ اٹھانا چاہیے۔ اس سوچ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ترجیح مشترکہ عالمی فلاح یا امن نہیں بلکہ امریکا کے معاشی مفادات ہیں۔ ایسی سوچ کے ساتھ وہ عالمی ثالث کے طور پرکس طرح موثر کردار ادا کر سکتے ہیں، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔

دنیا کو اس وقت ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو طاقت اور سودے بازی کے بجائے انصاف، قانون اور انسانی حقوق کو اولیت دیں۔ فلسطین ہو یا یوکرین، ایران ہو یا اسرائیل، تمام تنازعات کا دیرپا حل اسی وقت ممکن ہے جب عالمی طاقتیں طاقت کے توازن کی بجائے حق و انصاف کے اصولوں پر عمل کریں۔ صدر ٹرمپ کی موجودہ پالیسی اور بیانات سے ایسا کوئی عندیہ نہیں ملتا کہ وہ اس راہ پر گامزن ہیں۔

اگرچہ انھوں نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی وقتی صورت حال پیدا کی، لیکن اس کو مستقل امن کہنا ایک مبالغہ ہوگا۔ امن کی راہ مذاکرات، اعتماد سازی، باہمی احترام اور انسانی حقوق کی بنیاد پر ہی نکل سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری ایک مربوط، غیر جانبدار اور دیرپا حکمت عملی اختیار کرے تاکہ دنیا کے ان سلگتے ہوئے مسائل کا مستقل حل نکل سکے۔امریکا کو بطور سپر پاور ایک ذمے دار کردار ادا کرنا چاہیے، نہ کہ صرف طاقت کا مظاہرہ اور سیاسی نعرہ بازی۔ فلسطینی عوام کو ان کے حقوق دلوانے، ایران کو عالمی برادری کے ساتھ جوڑنے، اسرائیل کو قانون کا پابند بنانے، اور یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے جامع اور سنجیدہ سفارت کاری درکار ہے۔

جب تک عالمی طاقتیں اس سمت میں پیش رفت نہیں کرتیں، تب تک مشرق وسطیٰ میں غنڈہ گردی، ظلم اور جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا اور ٹرمپ جیسے لیڈروں کے دعوے محض انتخابی نعرے ہی رہیں گے۔ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ دنیا کے طاقتور رہنما جب تک ذاتی سیاسی مفادات اور وقتی فوائد سے بالاتر ہو کر انسانیت کے مشترکہ مفاد کو اپنا مقصد نہیں بناتے، اس وقت تک نہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو گا، نہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ختم ہو گی، اور نہ ہی مظلوم فلسطینی عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ طاقت کے بل پر امن چاہتی ہے یا انصاف اور حق کی بنیاد پر ایک پائیدار دنیا کی تشکیل۔ یہ فیصلہ اب مزید مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ مضامین

  • خبر کے بھید
  • تدفین میں تا خیر
  • بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال
  • طاقت کے زعم میں امن؟
  • پاکستانی قوم کی محبت اور حمایت کو کبھی نہیں بھولیں گے، ایرانی سفیر
  • آدم ؑسے باہم محبت‘ اتحاد اور الٰہی بیداری کی پکار
  • بے رنگ اور بے روح بجٹ
  • عمران خان کو مائنس کر دیا گیا، علیمہ خان
  • ایران اسرائیل جنگ، ہوا کیا؟
  • اہلبیتؑ سے محبت و تکریم ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے،مریم نواز