Express News:
2025-11-10@08:33:18 GMT

ماں

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

بچپن سے سنتے، پڑھتے اور دیکھتے آئے ہیں کہ ماں دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہے۔ ماں کی گود وہ پہلا مکتب ہے، جہاں انسان زندگی کے سبق سیکھتا ہے، اور یہی وہ آغوشِ محبت ہے، جہاں ہر درد کا مداوا اور ہر خوف کا علاج موجود ہوتا ہے۔ حسن، خلوص، وفا، ایثار، اور بے لوث محبت کے سارے رنگ اگر ایک وجود میں سمٹ جائیں تو وہ ماں ہے۔

ماں کا رشتہ ان مول ہے، ماں کی محبت بے حساب ہے۔ اس کی قربانیوں کا شمار ممکن نہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ دینا بھی ناممکن ہے۔ ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر جب دنیا بھر میں لوگ اپنی ماؤں کے ساتھ تصاویر مشتہر کرتے ہیں یا ان کے لیے محبت بھرے جملے لکھتے ہیں، تو یہ ایک خوب صورت عمل ضرور ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماں جیسی عظیم ہستی کے لیے صرف ایک دن کافی ہے؟

ماؤں کی قربانی اور جدوجہد کا دائرہ صرف ہمارے بچپن یا بیماری تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہماری زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔ ماں صرف ایک دن کی محبت کی مستحق نہیں، بلکہ وہ ہر دن، ہر لمحے، ہر سانس کی محبت کی حق دار ہے۔ ’مدرز ڈے‘ کا مقصد صرف ایک دن محبت کا اظہار نہیں، بلکہ ہمیں یہ یاد دہانی کروانا ہے کہ ماں کی قدر ہر دن کرنا ضروری ہے۔

’مدرز ڈے‘ مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کی ابتدا امریکا کی اینا جارویس نے 1908 میں اپنی ماں کی یاد میں کی تھی، تاکہ ایک ایسا دن مخصوص کیا جا سکے، جس میں دنیا بھر کے بچے اپنی ماؤں کی قربانیوں اور محبت کا اعتراف کریں۔ مختلف ثقافتوں میں اس دن کو مختلف انداز سے منایا جاتا ہے، لیکن اس کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے کہ ماں کی عظمت کو سلام پیش کیا جائے۔

اسلامی تعلیمات میں بھی ماں کا مقام بہت بلند ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ قرآن اور احادیث میں بارہا والدین کے ساتھ حسن سلوک اور خاص طور پر ماں کی خدمت پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے ماں کے حقوق کو کتنا اہم مقام دیا ہے۔

لیکن جہاں ماؤں کے حقوق ہیں، وہیں کچھ فرائض بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں ہمارا اس وقت سے خیال رکھتی ہے اور محبت کرتی ہے، جب ہمارا اس دنیا میں نام و نشان بھی ہوتا۔ اس ہی لیے کہا جاتا ہے کہ ماں کی محبت دنیا والوں کی محبت سے نو ماہ زیادہ ہوتی ہے۔

زندگی کے تمام رنگ، تمام پہلو اور ہر روپ عورت کے وجود سے مکمل ہوتے ہیں۔ عورت نہ صرف زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، بلکہ وہ ہر شعبے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی عظمت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے۔

آج کے اس پرآشوب دور میں نئی نسل کی حفاظت ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے، لیکن یہ ماں ہی ہے جو جس کی بدولت انسانیت کا وجود آج بھی قائم ہے۔ اللہ نے عورت میں بہ حیثیت ماں وہ تین خوبیاں رکھی ہیں جن پر تمام انسانیت کا دارومدار آج بھی قائم ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو نئی زندگی کو جنم دیتی ہے، پھر محبت اس کو پروان چڑھاتی ہے اور اس کی نشوو نما کرتی ہے اور پھر وہ انسان اور معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اگرچہ بچے کی پیدائش اور پرورش ہر عورت کے لیے ممکن ہے، لیکن تبدیلی کا عمل صرف وہی عورت کر سکتی ہے، جو خود اپنی حیثیت اور اہمیت سے واقف ہو۔ ایسی باشعور عورتیں نہ صرف نسلوں کی تربیت کرتی ہیں بلکہ قوموں کی تقدیر بھی سنوارتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر کام یاب انسان کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔

بچے دنیا میں بالکل سادہ اور معصوم آتے ہیں، ماں کی گود ان کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے۔ وہ جیسے الفاظ سنتے ہیں، جیسا رویہ دیکھتے ہیں، ویسی ہی شخصیت تشکیل پاتے ہیں۔ بچہ ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر ابتدائی نقوش ماں ہی ثبت کرتی ہے۔ اس کے خیالات، اقدار اور اخلاقیات کی بنیاد جتنی مضبوط ہوگی، وہ اتنی ہی کام یاب شخصیت بنے گا۔

ترقی یافتہ معاشروں کی بنیاد ان عورتوں پر ہے جو اپنے بچوں میں اعلیٰ سوچ، نیکی، دیانت اور خودداری جیسے جوہر پیدا کرتی ہیں۔ جب تک عورت یہ ذمہ داری محسوس نہیں کرے گی، نسلیں پروان نہیں چڑھ سکتیں، کیوں کہ صرف جسمانی افزائش کافی نہیں، اصل ترقی فکری و اخلاقی تربیت سے ہوتی ہے۔

اس ضمن میں جارج برنارڈ شا کا ذکر اہم ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بچپن میں ان کے اکثر کام غلط ہوتے تھے، لیکن ان کی ماں ان کے ایک درست کام کو بڑے فخر سے بیان کرتی تھیں۔ اس محبت نے ان میں بہتری لانے کی تحریک دی اور وہ دن بہ دن کام یابی کی طرف بڑھتے گئے۔ یہ ماں کی حوصلہ افزائی تھی جس نے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی۔

اسی طرح تھامس ایڈیسن کی کہانی بھی ایک عظیم ماں کی بصیرت کا عکس ہے۔ ایک دن ایڈیسن اسکول سے ایک خط لایا، جس میں لکھا تھا کہ وہ ذہنی طور پر کمزور ہے اور اسے اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔ مگر اس کی ماں نے وہ خط پڑھ کر کہا ’’تم بہت جینیئس ہو، اس اسکول کے اساتذہ تمھیں نہیں پڑھا سکتے۔‘‘ یہی الفاظ ایڈیسن کی طاقت بنے، اور ایک دن وہ 1093 ایجادات کا مالک بن گیا، جن میں بلب بھی شامل ہے۔ ایڈیسن خود کہتا ہے ’’میری ماں نے مجھے وہ انسان بنایا جو میں آج ہوں۔‘‘

یہ تمام مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ عورت صرف زندگی دیتی نہیں، بلکہ اس کی تشکیل بھی کرتی ہے۔ وہ کردار بناتی ہے، قومیں اٹھاتی ہے اور دنیا کو بہتر بناتی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں ماں کا مقام دنیا کے ہر رشتے سے بلند ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ ماں کو والد سے بھی تین گنا زیادہ احترام کا مستحق قرار دیا گیا۔ ایک صحابی نے نبی کریم سے پوچھا ’’میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ آپ  نے فرمایا ’’تمھاری ماں‘‘ تین بار یہی جواب دیا، اور چوتھی بار فرمایا ’’تمھارا باپ‘‘

حضور اکرم نے ماں کی نافرمانی کو حرام قرار دیا اور اسے جنت کے دروازے بند ہونے کا سبب بتایا۔ ایک بار ایک صحابی نے بڑے گناہ کی توبہ کی صورت پوچھی تو نبی کریم  نے فرمایا ’’اپنی ماں سے نیکی کرو‘‘

 اسلام نے عورت، خصوصاً ماں کو وہ عزت بخشی ہے، جس کی مثال دنیا کے کسی اور نظام میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں ’’مدرز ڈے‘‘ کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی جاتی کہ ہمارے یہاں ماں کا دن ہر دن ہے، اور اس کی عظمت ہر وقت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

آج اگر ہم واقعی معاشرتی، اخلاقی اور تعلیمی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ماؤں کو شعور، عزت، تعلیم اور مواقع دینے ہوں گے۔ کیوں کہ جو ماں خود باشعور ہوگی، وہی ایک باشعور نسل پروان چڑھا سکتی ہے اور ایسی مائیں ہی ہیں جو کائنات میں رنگ بھرتی ہیں، زندگی کو سوز دیتی ہیں اور نسلوں کو روشنی عطا کرتی ہیں۔

’مدرز ڈے‘ منانا ایک خوب صورت روایت ضرور ہے، لیکن ہماری ذمہ داری اس سے بہت آگے بڑھ کر ہے۔ ماں وہ ہستی ہے، جو ہماری پیدائش سے پہلے بھی ہمیں سنبھالتی ہے اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک ہمارے لیے جیتی ہے۔ ماں کو صرف ایک دن کی نہیں، ہر دن کی خوشی چاہیے، ہر لمحے کی دعائیں اور ہر گھڑی کی عزت۔

لہٰذا اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ یہ دن صرف ماں سے اظہار محبت کا ایک موقع نہیں، بلکہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ماں کی قدر و قیمت ہمیشہ دل و دماغ میں تازہ رکھنی چاہیے۔ اگر ہم ہر دن کو ’مدرز ڈے‘ بنا دیں تو شاید تب بھی ماں کے احسانات کا بدلہ نہ چکا سکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کہ ماں کی صرف ایک دن کی محبت مدرز ڈے کرتی ہے جاتا ہے ہوتا ہے ہوتی ہے ہے اور ماں کے ہیں کہ ماں کا اور اس

پڑھیں:

پاک افغان مذاکرات

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں فریقین سرحد پار سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے کسی قابل عمل منصوبے پر نہ پہنچ سکے۔ دوسری جانب چمن بارڈر پر افغانستان سے کچھ عناصر نے پاکستانی علاقے پر بلااشتعال فائرنگ کی۔ وزارت اطلاعات نے واضح کیا ہے کہ جنگ بندی بدستور برقرار رہے گی اور پاکستان سرحدی امن و استحکام کے برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ سے خطے کے سیاسی، سیکیورٹی اور سفارتی منظرنامے میں ایک اہم مقام رکھتے آئے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان مذہبی، لسانی اور ثقافتی رشتوں کی گہری جڑیں ہیں، مگر ساتھ ہی یہ رشتے بد اعتمادی، مداخلت اور بارڈر سیکیورٹی کے مسائل سے بھی گندھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوں گے، کیونکہ کابل میں ایک ایسا نظام قائم ہوا جسے پاکستان کے بعض حلقے اپنے لیے نسبتاً موافق تصور کرتے تھے، مگر افسوس کہ یہ توقعات جلد ہی کمزور پڑگئیں۔ آج پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات ایک بار پھر تناؤ، عدم تعاون اور باہمی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ استنبول میں ہونے والے حالیہ مذاکرات کا بے نتیجہ ختم ہونا، اسی بحران کی تازہ جھلک پیش کرتا ہے۔

آٹھ گھنٹے طویل مذاکرات کے باوجود فریقین کسی واضح اور قابلِ عمل منصوبے پر متفق نہ ہو سکے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بنیادی اختلافات بدستور برقرار ہیں۔ یہ مذاکرات دراصل سرحد پار دہشت گردی، امن و امان کی صورتحال اور جنگ بندی کے مؤثر نفاذ کے طریقہ کار پر مرکوز تھے۔

افغان طالبان کی حکومت سے پاکستان کا سب سے بڑا مطالبہ یہی رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ پاکستان کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان کے اندر محفوظ پناہ گاہوں میں موجود ہیں، جہاں سے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حملے کرتے ہیں۔ دوسری جانب افغان طالبان کا موقف ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتے اور دہشت گردی کی ذمے داری ان کے دائرہ اختیار سے باہر کے عناصر پر عائد ہوتی ہے۔

استنبول مذاکرات میں اگرچہ ایک اہم پیش رفت یہ رہی کہ دونوں فریقوں نے جنگ بندی کے نفاذ کے لیے ایک نگرانی اور تصدیقی نظام قائم کرنے پر اصولی اتفاق کیا، مگر عملی طور پر یہ اتفاق ابھی ابتدائی نوعیت کا ہے۔ اس نظام کی تشکیل، اس کے فریم ورک اور اس کے نفاذ کی نوعیت پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات میں اعتماد کا فقدان بدستور حائل ہے۔

اسی دوران بلوچستان کے ضلع چمن میں افغان علاقے کی سمت سے بلااشتعال فائرنگ اور راکٹ حملے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن اس واقعے نے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ کر دیا۔ پاکستان نے واضح کیا کہ جنگ بندی برقرار ہے اور سرحدی امن و استحکام کے لیے اس کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔ دفترِ خارجہ نے افغان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحمل کا مظاہرہ کرے گا، مگر ساتھ ہی اپنے دفاعی اقدامات کے لیے تیار رہے گا۔ ان بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات فی الحال کشیدگی کے ایک نازک موڑ پر ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد خطے میں طاقت کے توازن میں بنیادی تبدیلیاں آئیں۔ طالبان کا فوکس داخلی استحکام پر ہے، مگر ان کی پالیسیوں میں علاقائی ہم آہنگی کی کمی نظر آتی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ کابل حکومت سرحدی نگرانی میں تعاون کرے اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کے خلاف عملی اقدامات کرے، لیکن افغان طالبان اس مطالبے کو اپنی خود مختاری کے خلاف سمجھتے ہیں، یہ نکتہ دونوں کے درمیان سب سے بڑا فاصلہ پیدا کر رہا ہے۔

پاکستان کے لیے سرحد پار دہشت گردی کا مسئلہ قومی سلامتی سے براہ راست منسلک ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ملک کے مختلف حصوں، خاص طور پر خیبرپختونخوا، بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں شدت پسند حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ان حملوں کی ذمے داری اکثر ٹی ٹی پی قبول کرتی رہی ہے، جس کے بارے میں پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس کے جنگجو افغانستان میں موجود ہیں، اگر کابل حکومت اپنے وعدوں پر قائم رہتی اور ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرتی تو ممکن ہے کہ حالات اتنے بگڑتے نہیں، مگر طالبان قیادت کا رویہ عموماً خاموشی یا تردید تک محدود رہا ہے، جس سے پاکستان کے اندر مایوسی بڑھ رہی ہے۔

دوسری جانب طالبان حکومت خود بھی عالمی تنہائی کا شکار ہے، اسے تسلیم کرنے والا کوئی بڑا ملک تاحال سامنے نہیں آیا۔ ایسے میں پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے بجائے سفارتی تعاون کا ماحول پیدا کرنا زیادہ موزوں حکمتِ عملی ہو سکتی ہے، مگر پاکستان کے داخلی حالات اور سیکیورٹی خدشات اسے ایسا کرنے نہیں دیتے۔

استنبول مذاکرات کا انعقاد بذاتِ خود ایک مثبت پیش رفت تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق مکمل قطع تعلق کے بجائے بات چیت کا راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم مذاکرات کا بے نتیجہ ختم ہونا، اس بات کا اشارہ ہے کہ محض سفارتی بیانات یا عمومی اتفاقِ رائے سے عملی بہتری ممکن نہیں۔ جب تک دونوں فریق زمینی حقائق کا ادراک نہیں کریں گے اور اعتماد سازی کے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائیں گے، اُس وقت تک یہ مذاکرات کاغذی وعدوں سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

افغان طالبان کو بھی سمجھنا ہوگا کہ پاکستان ان کے خلاف نہیں بلکہ اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے بات کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کو مشترکہ دشمنوں دہشت گرد گروہوں، اسمگلنگ نیٹ ورکس اور سرحد پار غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف مل کر کام کرنا ہوگا۔

افغانستان کے ساتھ جاری مذاکرات کی ناکامی نے ایک بار پھر خطے میں پائے جانے والے عدم اعتماد اور مفادات کے تصادم کو نمایاں کر دیا ہے۔ بظاہر امن و تعاون کے نام پر ہونے والے یہ مذاکرات اب اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ کابل کی قیادت مذاکرات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے محض وقت حاصل کرنے کی ایک حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اس رویّے نے نہ صرف بات چیت کے عمل کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ خطے میں استحکام کے امکانات کو بھی کمزور کر دیا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چاہے وہ انسانی بنیادوں پر امداد ہو یا سیاسی و سفارتی تعاون، اسلام آباد نے ہر موقع پر یہ امید رکھی کہ ایک مستحکم افغانستان ہی خطے کے امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ تاہم حالیہ حالات میں یہ افسوسناک تاثر ابھر رہا ہے کہ افغان طالبان، جنھیں کبھی پاکستان کی حمایت حاصل تھی، اب بھارت کے اثر میں آ کر پاکستان مخالف ایجنڈے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ نہ صرف دو برادر اسلامی ممالک کے تعلقات کے لیے تشویش ناک ہے بلکہ احسان فراموشی کی بدترین مثال بھی کہلائی جا سکتی ہے۔

 افغان طالبان کے لیے یہ وقت امتحان کا ہے۔ ان کی حکومت اگر واقعی ایک ذمے دار ریاست کے طور پر تسلیم ہونا چاہتی ہے تو اسے اپنی سرزمین پر مکمل کنٹرول دکھانا ہوگا۔ آخرکار، یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان اور افغانستان کا مستقبل ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ اگر ایک ملک میں امن نہیں ہوگا تو دوسرے کے لیے بھی پائیدار استحکام ممکن نہیں۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور منشیات جیسے مسائل دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن ہیں۔ ان کے خلاف کامیابی صرف اس وقت ممکن ہے جب کابل کھلے دل، خلوص اور اعتماد کے ساتھ بیٹھے۔

استنبول مذاکرات اگرچہ فوری نتائج نہ دے سکے، مگر یہ عمل ایک تسلسل کا متقاضی ہے۔ امن کی راہ ہمیشہ مشکل ہوتی ہے، مگر یہی وہ راستہ ہے جو خطے کو ترقی، خوشحالی اور استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔ افغان رہنماؤں کو وقتی سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر مستقبل کی نسلوں کے لیے امن کی بنیاد رکھنی چاہیے، اگر آج ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا تو آنے والے دنوں میں یہ سرحد محض جغرافیائی لکیر نہیں بلکہ بداعتمادی کی دیوار بن جائے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ افغان طالبان جذبات کے بجائے عقل، سفارت کے بجائے مفاہمت اور الزام تراشی کے بجائے اشتراکِ عمل کا راستہ اختیار کریں۔ یہی راستہ ان کے لیے بھی بہتر ہے اور خطے کے امن کے لیے بھی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ، انسانیت کا امتحان
  • کوچۂ سخن
  • ذرا سنبھل کے
  • ستائیسویں ترمیم
  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • ڈپریشن ایک خاموش قاتل
  • ہیں کواکب کچھ
  • امریکی شہریت بھی کام نہیں آ رہی
  • پاک افغان مذاکرات
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق اسپیکر نینسی پلوسی کو “شیطان عورت” کا لقب دے دیا