کراچی سے نکلنے والے معتبر جریدے ’آج‘ نے میرے ادبی ذوق کی بنیادیں ہی درست نہیں کیں بلکہ بہت سے سیاسی معاملات کی تفہیم کے حوالے سے بھی شعور میں اضافہ کیا، اور تو اور میں نے نریندر مودی اور اس کے پشتی بان انتہا پسند گروہوں کی اصلیت بھی ’آج‘ کے ذریعے ہی جانی تھی۔ اس بات کی وضاحت و صراحت کے لیے میں نے جنگ کے دنوں میں اپنے بے ترتیب کتب خانے سے ’آج‘ کا 23 سال پرانا پرچہ ڈھونڈنے کا کشٹ اٹھایا ہے جس میں ارندھتی رائے کے مضمون کا ’جمہوریت‘ کے عنوان سے ترجمہ شائع ہوا تھا۔

یہ مضمون گجرات کے فسادات میں اس ریاست کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کی ایما پر مسلمانوں کے منظم قتل عام کے بارے میں ہے۔ اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ یہ فسادی وزیراعلیٰ جس کے امریکا میں داخلے پر بھی پابندی لگ گئی تھی وہ مسلسل تیسری دفعہ انڈیا کا وزیراعظم بن جائے گا۔ ارندھتی رائے کا یہ کاٹ دار مضمون ہندوتوا اور اس کے سیاسی چہرے مہرے کی سیاست سمجھنے کے لیے آج شاید پہلے سے بھی زیادہ اہم ہے۔

ارادہ تو فقط ارندھتی رائے کے مضمون کے چنیدہ حصوں پر بات کرنے کا باندھا تھا لیکن جس طرح مقطع میں سخن گسترانہ بات آن پڑتی ہے تو اس مضمون پر بات کرنے سے پہلے ’آج‘ ہی میں شائع ہونے والے دو مضامین بھی دھیان میں آن پڑے۔ تینوں مضامین کو ’آج‘ کے مدیر اور ممتاز مترجم اجمل کمال نے اردو میں منتقل کیا ہے۔

سب سے پہلے ہم ممتاز انڈین فکشن نگار امیتابھ گھوش کے مضمون پر بات کریں گے جس کا عنوان ہے:

افغانستان اور وسط ایشیا میں محبت اور جنگ

شہنشاہ بابر کی داستان حیات

یہ تزک بابری کے انگریزی ترجمے پر ان کا طویل مضمون ہے جس میں کتاب اور مصنف کی تاریخ میں منفرد حیثیت اجاگر کی گئی ہے۔ یہ تحریر جس زمانے میں لکھی گئی اسے اس زمانے سے جوڑا گیا ہے اور اس کا ربط موجودہ زمانے سے بھی نکلتا ہے۔ بڑے فکشن نگار کے نان فکشن کا کمال دیکھنے کا ذوق ہو تو یہ مضمون ضرور ملاحظہ کیجیے۔

نریندر مودی اینڈ کمپنی کو مغلوں اور ان سے وابستہ یادگاروں سے بڑی کد ہے۔ اس نفرت کی پہلی کڑی بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد تھی جسے ڈھا کر ہندوستان میں مستقل عناد کی بنیاد ڈالی گئی، اس بارے میں امیتابھ گھوش نے مذکورہ مضمون میں لکھا:

’چند سال پہلے ہندوستان کے انتہا پسند ہندو مغل دور حکمرانی کے بعض پہلوؤں کو نمایاں کرکے سیاسی تنازعے کا ایک آتشیں طوفان برپا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ 1992 میں ایک منظم ہندو ہجوم نے محض چند گھنٹوں میں ایودھیا کے شہر میں واقع سولہویں صدی کی ایک مسجد کو مسمار کردیا جس کے نتیجے میں ہندوستانی جمہوریہ کی تاریخ کا ایک سنگین ترین بحران پیدا ہوا۔‘

امیتابھ گھوش کے مضمون سے متعلق آج کے مدیر نے اپنے نوٹ میں بتایا:

’بابری مسجد پر اٹھائے گئے تنازعے کے پس منظر میں، جس نے المناک واقعات کے ایک پورے سلسلے کو جنم دیا، یہ مضمون ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، اس سے ایک بار پھر واضح ہوتا ہے کہ دیوانگی اور تشدد پیدا کرنے والی قوتیں تاریخ کے ایک نامکمل اور مسخ کردہ تصور کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔‘

امیتابھ گھوش نے بابر کے بعد مغلیہ دور کے ہندو ازم پر اثرات کے بارے میں بھی روشنی ڈالی ہے:

’کچھ بھی ہو یہ بات اختلاف رائے سے ماورا ہے کہ بابر کے بعد آنے والے مغل بادشاہوں کے دور میں ہندوؤں کی مذہبی سرگرمی غیر معمولی طور پر پھلی پھولی۔ ہندو مت اپنی موجودہ شکل میں خصوصاً شمالی ہندوستانی شکل میں مغل حکمرانوں کے دور میں ہی ڈھلا اور اس عمل کو حکمرانوں اور ان کے امرا اور اہلکاروں کی شرکت اور حمایت حاصل رہی، اگر سولہویں صدی میں کرشن بھگتی اور کرشن سے متعلق مذہبی افکارو رسوم کو باقاعدہ دبایا گیا ہوتا تو ہندو مت آج ہماری جانی پہچانی شکل میں نہ ہوتا، ایک زندہ معاصر مذہب کے طور پر ہندو مت ان سرگرمیوں کے بغیر آج موجود نہ ہوتا جو مغل دور حکومت میں انجام دی گئیں۔ یہ ایک غمناک ستم ظریفی ہے کہ جن ہندو مذہبی جنونیوں نے بابری مسجد کو تباہ کیا انہوں نے دراصل اس وسیع المشربی کی ایک علامت پر حملہ کیا تھا جس کی بدولت ان کے مذہبی اعتقادات کا وجود ممکن ہوا تھا۔‘

کھلے ذہن سے تجزیہ کرنے پر ہی آپ امیتابھ گھوش جیسے نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ دل و دماغ بند ہو تو آپ تہذیبی ناشکرے پن کا مظاہرہ کرکے کھلی حقیقتوں سے نظریں چراتے ہیں۔

امیتابھ گھوش کے مضمون میں بابری مسجد ایک اہم حوالے کے طور پر موجود ہے لیکن اس کا مرکز تزک بابری، اس کے مشمولات اور بابر کی ہمہ گیر شخصیت ہے جبکہ سکیتو مہتا کے مضمون ’ممبئی‘ میں بابری مسجد کا انہدام متن میں مرکزی حیثیت اس لیے رکھتا ہے کہ اس واقعے نے ممبئی شہر کو فرقہ ورانہ منافرت کی آگ میں جھونک دیا۔ یہ مضمون معروف برطانوی جریدے ’گرانٹا‘ کے اس خاص شمارے میں شائع ہوا جسے پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے ترتیب دیا گیا تھا۔ ’آج‘ میں اس کا ترجمہ 1998 میں چھپا تھا۔

نفرت کی آگ جنہوں نے بھڑکائی ہو وہ جلد یا بدیر ان کے خیموں میں بھی پہنچتی ہے۔ دوسرا یہ لگتی کہیں پر ہے لیکن اس کی لپیٹ میں دور دراز کے مقامات بھی آجاتے ہیں۔ بابری مسجد کے واقعے سے بھڑکنے والی آگ کے شعلوں کو بال ٹھاکرے کی شیو سینا نے بمبئی میں ہوا دی۔ ’آج‘ میں اس مضمون کے بارے میں مختصر تعارف پڑھ لیں تو پھر باقی بات کرتے ہیں:

’سکیتو مہتا کے تحریر کردہ مضمون ’ممبئی‘ میں دسمبر 1992 اور جنوری 1993 کے ان تباہ کن فسادات کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے ایودھیا کی بابری مسجد کے مسمار کر دیے جانے کے بعد بمبئی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔‘

اب سکیتو مہتا کا بیان دیکھ لیجیے:

’چار سال پہلے اس شہر نے اپنے آپ سے جنگ شروع کردی تھی۔ 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں واقع ایک مسجد، بابری مسجد جنونی ہندوؤں کے ایک ہجوم کے ہاتھوں مسمار کردی گئی تھی۔ ایودھیا یہاں سے سیکڑوں میل دور اتر پردیش میں واقع ہے، لیکن اس کے ملبے نے ان دیواروں کے لیے بنیاد فراہم کی جو بمبئی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اٹھ آئیں۔ فسادات کے ایک سلسلے میں 1400 افراد ہلاک ہوگئے۔‘

سکیتو مہتا نے مسلمانوں کو زندہ جلانے والے شخص سے ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں:

’راگھو کو یاد تھا، یہی وہ جگہ تھی جہاں اس نے اور اس کے دوستوں نے دو مسلمانوں کو پکڑا تھا۔ ’ہم نے انہیں جلا دیا۔‘ اس نے بتایا ’ہم نے ان پر گھاسلیٹ ڈال کر آگ لگا دی۔‘

’کیا وہ چلائے تھے‘

نہیں، کیوں کہ ہم نے انہیں جلانے سے پہلے بہت مارا تھا۔ ان کی لاشیں دس دن تک یہاں ایک گڑھے میں پڑی سڑتی رہیں، انہیں کوے کھاتے رہے۔ کتے کھاتے رہے، پولیس نے ان کو نہیں اٹھایا کیوں کہ جوگیشوری پولیس کہتی تھی کہ یہ گورگاؤں پولیس کا علاقہ ہے، اور گورگاؤں پولیس کہتی تھی کہ ریلوے پولیس کا علاقہ ہے۔

راگھو کو ایک مسلمان بوڑھا بھی یاد تھا جو شیوسینا کے لڑکوں پر گرم پانی پھینکا کرتا تھا، انہوں نے اس کے گھر کا دروازہ توڑ کر اسے باہر گھسیٹا، ایک پڑوسی سے کمبل لیا، اسے کمبل میں لپیٹا اور آگ لگا دی۔ ’بالکل فلم کا سین تھا۔‘ وہ بولا۔

بال ٹھاکرے کی مسلمان دشمنی، ایک خاتون ان لفظوں میں عیاں کرتی ہے:

’اس شخص کے اعصاب پر مسلمان سوار ہیں۔ وہ مستقل ہمیں دیکھتا رہتا ہے: ہم کس طرح کھاتے ہیں، کیسے عبادت کرتے ہیں، اگر اس کے اخبار کی سرخی میں مسلمان لفظ نہ آئے تو اس کی ایک بھی کاپی نہیں بکے گی۔‘

بابری مسجد کے انہدام نے انڈین معاشرے کو جس طرح تقسیم کیا اس کے باب میں چوٹی کے دو لکھاریوں کی رائے آپ نے جان لی جنہوں نے بڑی فکری دیانت سے حالات کا تجزیہ کیا ہے۔ اس مسجد کو رام کی جنم بھومی قرار دے کر جب ہندو بنیاد پرست اسے ڈھانے کے لیے راہ ہموار کررہے تھے تو انڈیا کے ممتاز مؤرخوں اور سماجی سائنس دانوں نے تاریخی حقائق بیان کرکے اس خطرناک رستے پر چلنے سے منع کیا تھا۔ مشعل بکس، لاہور نے ان اہل فکرو دانش کے مضامین ترجمہ کروا کر بھارت میں ہندو مسلم محاذ آرائی کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیے تھے۔ اس تصنیف میں بیدار مغز دانشوروں کی تحریریں دوبارہ پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ ہندوستانی سماج کا یہ پہلو ہمارے لیے کتنا قابلِ رشک ہوتا تھا کہ وہاں انگریزی محاورے کے مطابق بیلچے کو بیلچہ کہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن مودی کی حکمرانی کے مسلسل گیارہ برسوں میں ایسی جرات مندانہ آوازیں بہت کم رہ گئی ہیں اور اب دانش کے نام پر جاوید اختر جیسے آر یا پار قسم کے لال بجھکڑ ہی نظر آتے ہیں۔

اب ہم آجاتے ہیں ارندھتی رائے کے اس مضمون کی طرف جس کا حوالہ زیر نظر تحریر کے شروع میں آیا تھا۔ ارندھتی رائے کی تحریر کا پہلا پیراگراف ہی قاری کو دہلا کر رکھ دیتا ہے:

’کل رات میری ایک دوست نے بڑودہ سے فون کیا، وہ رو رہی تھی، اسے مجھ کو یہ بتانے میں پندرہ منٹ لگے کہ معاملہ کیا ہے۔ معاملہ بہت پیچیدہ نہیں تھا، بس یہ کہ اس کی ایک دوست سعیدہ کو ہجوم نے پکڑ لیا تھا، صرف یہ کہ اس کا پیٹ چاک کرکے اس میں جلتا ہوا گودڑ بھر دیا گیا تھا، صرف یہ کہ اس کے مرنے کے بعد کسی نے اس کے ماتھے پر اوم کھود دیا تھا۔‘

گجرات میں مسلمانوں کے منظم قتلِ عام کا سلسلہ گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے 58 ہندو مسافروں کے زندہ جلائے جانے کے بعد شروع ہوا جس کا الزام بغیر تحقیقات کے مسلمانوں پر عائد کردیا گیا تھا۔

ارندھتی رائے نے مودی کو مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کرکے سوال قائم کیے اور گجرات میں انسانیت سوز واقعات کا تذکرہ کیا ہے، انہوں نے اس وقت کے شاعر وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جنہوں نے ظلم عظیم کے بعد بھی مودی کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے زخموں پر پھاہا رکھنے کے بجائے ان کے بارے میں بڑی ہلکی گفتگو کی۔ ارندھتی نے انتہا پسندی کے فروغ میں بی جے پی کی ان کوششوں کا تذکرہ کیا ہے جو سیاسی اعتبار سے بار آور ثابت نہیں ہوئیں، اس کے لیے اس نے ایودھیا مندر منصوبے کے احیا کا سہارا بھی لیا لیکن اس کا بھی اسے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا جس کے بعد اس نے گجرات کو اپنی نفرت کا گڑھ بنایا۔ ارندھتی رائے کے بقول ’گجرات ہندوستان کی بڑی ریاستوں میں سے واحد ریاست جس میں بی جے پی کی حکومت ہے، پچھلے چند برسوں سے ایک ایسی دیگچی کی حیثیت رکھتی ہے جس میں ہندو فسطائیت ایک تفصیلی سیاسی تجربے کا آمیزہ تیار کررہی ہے، پچھلے مہینے اس کے ابتدائی نتائج عام ملاحظہ کے لیے پیش کیے گئے۔‘

ارندھتی رائے کے اس مضمون میں کانگریس کے سابق پارلیمنٹ اور مودی کے مخالف احسان جعفری کے قتل کا تذکرہ بھی ہے جن کا سر کاٹ کر ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے تھے۔ وہ ولی دکنی کے مزار کی مسماری اور استاد فیاض علی خاں کے مزار کی بے حرمتی کا حوالہ بھی دیتی ہیں۔ ان کے بقول ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، اب پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ عورتوں کو ننگا کیا گیا، ان کو اجتماعی طور پر ریپ کیا گیا، بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو قتل کیا گیا ہے۔ 240 درگاہوں اور 180 مسجدوں کو تباہ کیا گیا۔

اس ظلم نے مودی کو گجرات میں ہیرو بنا دیا اور بی جے پی اس مقبولیت کو کیش کروانے کے لیے قبل از وقت انتخابات کی طرف دیکھنے لگی۔

اپوزیشن نے مودی سے استعفے کا مطالبہ کیا تو ارندھتی رائے نے سوال اٹھایا:

’مجرموں سے استعفیٰ طلب نہیں کیا جاتا، ان پر فرد جرم عائد کرکے انہیں ان کی سزا تک پہنچایا جاتا ہے۔‘

ہٹلر کے بارے میں بال ٹھاکرے کی پسندیدگی کی خبر سکیتو مہتا کی تحریر سے ملتی ہے تو ارندھتی رائے نے ہمیں آر ایس ایس کے بانیان کی تحریروں میں ہٹلر کے لیے تحسین کا بتایا ہے لیکن ساتھ میں وہ یہ بتانا بھی ضروری خیال کرتی ہیں کہ ہندوستان میں ایک ہٹلر نہیں ہے: ہمارے پاس ایک گشتی ٹولا، ایک متحرک سمفونک آرکسٹرا ہے، کئی سروں اور بہت سے بازوؤں والا سنگھ پریوار، جو بی جے پی، آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک کے ذمے ایک مختلف ساز بجانے کا کام ہے۔

ارندھتی رائے نے کانگریس پر بھی گرفت کی ہے ان کے بقول ہر معاملے میں بیج کانگریس نے بویا اور بی جے پی اس کی ہولناک فیصل کاٹنے کےلیے آ موجود ہوئی۔

انہوں نے گجرات فسادات کے بعد سیاسی جماعتوں کے کردار پر تنقید کی، مرکز میں بی جے پی کی اتحادی جماعتوں میں سے کوئی بھی اس کی حمایت سے دستکش نہیں ہوئی اور سب نے اپنے سیاسی مفاد کو عزیز جانا۔

نریندر مودی نان فکشن کے ساتھ ساتھ فکشن میں بھی ارندھتی رائے کے تیز دھار قلم کی زد میں آئے ہیں۔ ان کے ناول The Ministry of Utmost Happiness کا ارجمند آرا نے بے پناہ شادمانی کی مملکت کے عنوان سے عمدہ ترجمہ کیا ہے جو میں نے ’آج‘ کے خصوصی شمارے (103) میں ہی پڑھا تھا، اس میں شامل مسٹر مودی کے بارے میں اس اقتباس پر ذرا آپ بھی نظر ڈال لیجیے:

’گجرات کا للا اب بھی گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ اس میں اکڑ پیدا ہو چکی تھی اور وہ صدیوں کی مسلم حکمرانی کا انتقام لینے کی بات بار بار دہرانے لگا تھا۔ اپنی ہر عوامی تقریر میں وہ کسی نہ کسی طور اپنے سینے کی پیمائش (چھپن انچ) کا ذکر کیا کرتا، کسی عجیب وجہ سے یہ بات بھی لوگوں کو متاثر کرتی تھی۔‘

صاحبو! انڈیا میں بنیاد پرست، نفرت کی سیاست کو فروغ دے کر وہاں کے حکمران بن گئے اور اپنی نمائندگی کے لیے انہوں نے نریندر مودی جیسا ہیرا چن لیا جو گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر ان کی امیدوں پر پورا اترا تھا اور وزیراعظم بن کر بھی ہندوتوا کو فروغ دے رہا ہے خواہ اس کے لیے ملک میں انتشار پھیلے یا خطے کا امن خطرے میں پڑ جائے، ان کی بلا سے۔

انڈین ادیبوں اور دانشوروں نے انتہا پسندی کے مہیب خطرے کی بو بروقت سونگھ لی تھی اور اس سے خبردار بھی کیا تھا لیکن ان کی بات کسی نے سنی نہیں کیونکہ ممتاز ادیب اور شاعر محمد سلیم الرحمان

کے بقول ’جو لوگ اپنے عہد کے ضمیر کی گہرائیوں میں اتر کر پیش گوئی کرتے ہیں کہ برے دن آنے والے ہیں ان کی دانائی پر کوئی کان نہیں دھرتا۔‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews بنیاد پرست پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت کشیدگی سیز فائر ہندوتوا ہندوستان وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بنیاد پرست پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت کشیدگی سیز فائر ہندوتوا ہندوستان وی نیوز ارندھتی رائے نے ارندھتی رائے کے کا تذکرہ کیا مسلمانوں کے کے بارے میں کی تحریر جنہوں نے کے مضمون یہ مضمون انہوں نے بی جے پی کے بقول دیا گیا کیا گیا لیکن اس کیا ہے کے لیے اور اس کی ایک کے ایک کے بعد

پڑھیں:

حامد میر نے بھارتی اینکر پرسن ارنب گوسوامی کو کھلا چیلنج دے دیا

جیو نیوز کے سینیئر صحافی حامد میر نے بھارتی اینکر پرسن ارنب گوسوامی کو کھلا چیلنج دے دیا۔

حامد میر نے کہا کہ ایک اور جھوٹ، مسٹر گوسوامی نے کل ایک بے بنیاد دعویٰ کیا، ارنب اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں، اگر وہ سچے ثابت ہوئے تو میں کسی تیسرے ملک میں انہیں ایک کروڑ روپے دینے کو تیار ہوں۔

بھارت نے پاکستان میں ڈرون کیوں بھیجے؟ حامد میر نے بھارتی عزائم بتادیے

سینئر صحافی حامد میر کے مطابق بھارت ڈرون بھیج کر پاکستان میں خوف پھیلانا چاہتا ہے۔

سینیئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ ارنب گوسوامی کے اس دعوے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِن دنوں اُن کے حواسوں پر میں کس قدر سوار ہوں۔

بھارتی اینکر پرسن ارنب گوسوامی نے ایک پروگرام کے دوران حامد میر پر اختلافات کی بنیاد پر اپنے ادارے سے 3 افراد کو نوکری سے نکالنے کا الزام لگایا تھا۔

ارنب گوسوامی نے دعویٰ کیا تھا کہ ان افراد کے پاس حامد میر کے پاس ہونے والی اطلاعات سے متصادم اطلاعات تھیں اور انہوں نے حامد میر کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا، جس کی بنیاد پر انہوں نے ان تین افراد کو ادارے سے نکال دیا۔

متعلقہ مضامین

  • جنگ اور مستحکم پاکستان
  • چیئرمین سی ڈی اے کا جناح سکوائر مری روڈ انڈر پاس منصوبے کا دورہ،،منصوبے کی پیش رفت کا جائزہ ،بروقت تکمیل کی ہدایت
  • پاک نیوی کا برطانوی اخبار کی رپورٹ پر ردعمل: بھارتی ایئرکرافٹ کی کراچی آمد کی خبر بے بنیاد قرار
  • حامد میر نے بھارتی اینکر پرسن ارنب گوسوامی کو کھلا چیلنج دے دیا
  • بھارت نے پاکستان میں ڈرون کیوں بھیجے؟ حامد میر نے بھارتی عزائم بتادیے
  • حامد میر نےپاکستان میں ڈرون بھیجنے کے بھارتی عزائم بیان کردیے
  • پاکستان کی فضائی حدود میں بھارتی ڈرونز کی دراندازی، پاک فوج نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے مار گرایا،اسحاق ڈار
  • پیشہ ور صحافی اب کوئی اور کام دیکھیں
  • وزیر اعلیٰ پنجاب کا بھارتی ڈرون بروقت گرانے پر پاک فوج کو خراج تحسین