مفکر پاکستان شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اہلیہ سرداربیگم کی برسی 23 مئی کو منائی جائے گی
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
مکوآنہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 مئی2025ء)مفکر پاکستان شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اہلیہ سردار بیگم کی برسی 23 مئی کو منائی جائے گی۔ سردار بیگم جسٹس جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کی والدہ تھیں اور علامہ اقبال کی تیسری زوجہ تھیں۔ علامہ اقبال کی پہلی شادی زمانہ طالبعلمی میں کریم بی بی کے ساتھ ہوئی، جن کا تعلق گجرات کے ایک اعلی خاندان سے تھا۔
یہ شادی 4 مئی 1893 کو ہوئی لیکن کامیاب ثابت نہ ہو سکی، اور 1913 میں علیحدگی ہو گئی۔(جاری ہے)
علامہ اقبال تا عمر ان کے اخراجات اور نان نفقہ کے ذمہ دار رہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی دوسری شادی 1910 میں مختار بیگم کے ساتھ ہوئی جو 1924 میں پہلے بچے کی پیدائش کے دوران انتقال کرگئیں، جس کے بعد علامہ محمد اقبال کی تیسری شادی سردار بیگم سے ہوئی تھی جو جسٹس جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کی والدہ تھیں۔واضح رہے کہ سردار بیگم کی جمع پونجی سے جاوید منزل (موجودہ علامہ اقبال میوزیم) کی سات کنال زمین خریدی گئی تھی لیکن ان کو اس گھر میں صرف تین دن رہنا ہی نصیب ہوا۔ سردار بیگم کا انتقال 23 مئی 1935 کو ہوا اور ان کو لاہور میں بی بی پاک دامناں سے ملحقہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے علامہ محمد اقبال کی علامہ اقبال سردار بیگم
پڑھیں:
’’ یادوں کا سفر‘‘ (دوسرا اور آخری حصہ)
’’ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے اپنے چوتھی جماعت کے ہم جماعتوں میں بیٹھ کر یہ شیخی ماری کہ ہم تو رات کو چھمیا بائی کا گانا سننے اپنے والد کے ساتھ ان کے مکان پر جاتے ہیں (چھمیا بائی یعنی شمشاد بائی، پری چہرہ نسیم بانو کی ماں اور سائرہ بانوکی نانی) لڑکوں نے میرا جھوٹ سچ آزمانے کے لیے جب کہا ’’ اچھا تو چلو ہمیں بھی وہاں لے کر چلو، تو میں نے کہا، چلو۔۔۔ اور ہم سب اپنے اسکول کے بستے کاندھے پہ لٹکائے پہنچے چاوڑی بازار کی مرغوں والی گلی میں، دلّی کا وہی چاوڑی بازار جس کے بارے میں شیخ ناسخ نے کہا تھا:
قاوڑی قاف ہے یا خلد بریں ہے ناسخ
جمگھٹے حوروں کے پریوں کے پڑے رہتے ہیں
اب جو ہم شمشاد بائی کے ہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں نہ صرف حضرت بیخود دہلوی بلکہ حضرت احسن مارہروی بھی تشریف فرما ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی شمشاد بائی کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور بولیں’’ خیر اب تو تم آ گئے، لیکن کبھی اپنے والد کے بغیر یہاں یا کہیں اور جاتے نظر آئے تو تمہارے والد سے شکایت کی جائے گی۔ خبردار جو آیندہ ایسی حرکت کی۔ اور یہ لڑکے جو تمہیں یہاں تک لائے ہیں یہ دوست نہیں، تمہارے دشمن ہیں جو اسکول سے تمہیں یہاں لے آئے۔‘‘
ایک بات کی وضاحت کردوں کہ بہت عرصے تک شمشاد بائی کو شمشاد بیگم سے ملایا گیا، صرف نام کی مماثلت پر۔ شمشاد بیگم نے لاتعداد گیت گائے اور سارے ہی گیت امر ہوئے لیکن وہ تصویر نہیں کھنچواتی تھیں، یہ ان کا اپنے والد سے کیا ہوا وعدہ تھا کہ نہ وہ کسی کو انٹرویو دیں گی اور نہ تصویر کھنچوائیں گی۔
لتا اور آشا نے شمشاد بیگم کے بہت سے گیت چھینے اور دونوں بہنوں نے موسیقاروں سے ساز باز کر کے جو فلمیں شمشاد بیگم کو ملنی چاہیے تھیں وہ سب لتا اور آشا کو ملنے لگیں، لتا اور آشا نے صرف شمشاد بیگم ہی کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا، بلکہ اس دور میں جتنی بھی مشہور گائیکائیں تھیں جیسے سمن کلیان پو، انورادھا پوڈوال، ہیم لتا جیسے اعلیٰ پائے کی گلوکاراؤں سے گیت چھینے۔ دونوں بہنوں کا انداز ایک طرح سے غنڈہ گردی والا تھا۔
شمشاد بیگم اس صورت حال سے اتنی دل برداشتہ ہوئیں کہ تنہائی اوڑھ لی اور گوشہ نشین ہو گئیں، لیکن اس سے پہلے ان کا ایک انٹرویو ’’سنہرے دن‘‘ کے عنوان سے ریکارڈ کیا گیا جو بہت مقبول ہوا۔ اس میں لوگوں نے دیکھا کہ وہ نہایت سادہ ہیں اور لمبے بالوں کی ایک چوٹی باندھتی ہیں۔ اسی دوران چھمیا بائی یعنی شمشاد بائی کا انتقال ہو گیا۔ لوگ یہ سمجھے کہ شمشاد بیگم کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے شمشاد بائی کی تصویر لگا کر اسے شمشاد بیگم بنا دیا۔
اس تصویر میں چھمیا بائی کے بال کٹے ہوئے ہیں اور وہ ساڑھی باندھے ہوئے ہیں جب کہ شمشاد بیگم ہمیشہ کرتا شلوار پہنتی تھیں اور دوپٹہ بھی لیتی تھیں۔ میں نے ایک دوسرے مضمون میں بھی اس بات کی وضاحت کی تھی کہ جگہ جگہ جو شمشاد بیگم کی تصویر نظر آ رہی ہے وہ دراصل چھمیا بائی عرف شمشاد بائی کی ہے۔ چھمیا بائی کے انتقال کے بعد کہیں سے لوگوں کو پتا چلا کہ شمشاد بیگم تو زندہ ہیں اور اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی ہیں، تو پھر انھیں حکومت کی طرف سے 2009 میں پدم بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ انھوں نے کافی لمبی عمر پائی تھی۔
23 اپریل 2013 میں چورانوے سال کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ دی۔ ایک طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ یوٹیوب پر آپ شمشاد بیگم کی بائیو گرافی کو کلک کیجیے تو ویڈیو میں شمشاد بیگم کی اصل تصاویر کے ساتھ ساتھ چھمیا بائی عرف شمشاد بائی کی ساڑھی میں ملبوس کٹے ہوئے بالوں والی تصویر لگا دی جاتی ہے، حیرت ہوتی ہے انڈیا کے اس رویے پر کہ کسی نے کہیں بھی اس غلطی کو سدھارنے کی کوشش نہیں کی۔
بہرحال چلتے ہیں پھر کتاب کی طرف۔ اخلاق صاحب لکھتے ہیں ’’ اصل میں اینگلو عربک ہائی اسکول اجمیری گیٹ کے اس زمانے کے ہیڈ ماسٹر جبار غازی صاحب نہ صرف صاحب ڈرامہ، ڈائریکٹر اور خاموش اداکاری کے ماہر تھے بلکہ میک اپ میں بھی اس غضب کے ماہر تھے کہ خود میرے والد کی آنکھ دھوکا کھا گئی، اور وہ مجھے لڑکی کے روپ میں نہ پہچان سکے تو اور کوئی کیسے پہچانتا؟‘‘
ایک نجی محفل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ گانے والی لڑکی بہت چھوٹی تھی اور کچھ کچا پکا گا رہی تھی، مولوی صاحب (مولوی عبدالحق یعنی بابائے اردو) اخلاقاً تو کچھ دیر یہ رقص دیکھتے رہے اور کہا کہ، پھر آئیں گے کبھی فرصت نکال کے، پھر کچھ روپے جیب سے نکالے، بڑی بی کے ہاتھ پر رکھنے کے لیے لیکن بڑی بی نے کہا، نہ میاں پھر آئیں گے تو دیکھا جائے گا، ابھی ہم نے آپ کے لیے کیا ہی کیا ہے؟ حرام کا پیسہ ہم لوگ بالکل نہیں کھاتے۔ اس فقرے پر مولوی صاحب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
جگر صاحب ہمارے پہنچنے سے پہلے کچھ فلسفہ حسن و عشق پر گفتگو فرما رہے تھے، مشکل سے جگر صاحب دو منٹ بولے ہوں گے کہ مولوی صاحب نے فرمایا، اللہ ماشا اللہ آپ نثر بھی کہتے ہیں، جگر صاحب خاموش ہوگئے۔
اس پر حسن آراء نے ایک اور جام بھرا اور جگر صاحب کے ہاتھ میں دے کر کہا، ’’جگر صاحب! کوئی غزل سنائیے‘‘ جگر صاحب بولے ’’یہاں کوئی دلّی والا تو نہیں ہے‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا، کیوں؟ اس پر جگر صاحب بولے’’ نکل آیا۔ اب نہیں سناؤں گا، یہ دلّی والے صرف تنقید کرنا جانتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا، ’’داغ کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘ فرمایا، بقول اقبال! داغ جہاں آباد (دلّی کو پہلے جہاں آباد بھی کہا جاتا تھا) کہنے لگے کچھ بھی ہو میں آپ سے کوئی بحث کرنا نہیں چاہتا، بہرحال میں اب غزل نہیں سناؤں گا، آپ نے میرا موڈ خراب کر دیا۔ اس پر حسن آراء نے ایک اور جام بنا کر ان کی خدمت میں پیش کیا اور انھوں نے غزل کا آلاپ شروع کر دیا اور سب ہمہ تن گوش ہو گئے، جگر صاحب نے نئی غزل کا مطلع بہت لہک کر پڑھا۔
اب ان کا کیا بھروسہ وہ آئیں یا نہ آئیں
آ اے غم محبت لے لوں تیری بلائیں
سب نے داد دی لیکن یہ خاکسار خاموش رہا اس پر جگر صاحب نے کہا، دیکھا آپ نے دلّی والوں کا خناس، اسی لیے غزل نہیں سنا رہا تھا۔ میں نے عرض کیا، جگر صاحب! آپ کے خیال میں اس مطلع کے دوسرے مصرعے میں کوئی سقم ہے۔
مگر صاحب نے بڑی فراخ دلی سے فرمایا، جی ہاں ہے۔
میں نے عرض کیا، آپ یوں فرما سکتے تھے، آ اے غم محبت تجھ کو گلے لگائیں۔ اب جگر صاحب کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے، انھوں نے ’’ لے لوں تیری بلائیں‘‘ کی جگہ تجھ کو گلے لگائیں، نہ صرف سب کی موجودگی میں پسند فرمایا بلکہ دلّی والوں کو خناسی وغیرہ کہنے پر معذرت بھی کی۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیم کے وقت اپنے خطبے میں فرمایا ’’مسلمانو! تمہارے آبا و اجداد گنتی کی تعداد میں یہاں آئے تھے اور اسی جمنا کے کنارے انھوں نے وضو کیا تھا اور بغیر کسی خوف کے نماز ادا کی تھی اور یہ دلّی کی جامع مسجد تعمیر کی تھی جس کے لیے داغ نے کہا تھا۔
یا خدا مسجد جامع کا رہے نام بلند
کعبے والے کہیں وہ آئی اذان دلّی
اور آج تم ہو کہ لاکھوں کی تعداد میں اس جامع مسجد کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہو۔‘‘
غرض یہ کہ بیگم آصف علی نے اپنے انداز سے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے طریقے سے، آصف علی نے اپنے ڈھنگ سے اور مہاتما گاندھی نے اپنے ڈھنگ سے دلّی کے مسلمانوں کو اپنے ڈھب سے مسلمانوں کو سمجھا رہے تھے کہ پتھر اپنی جگہ پر بھاری ہوتا ہے، اپنے گھروں کو مت چھوڑو، لیکن یہ سب آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں۔ بھلا نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ بعد میں ثابت ہوا کہ ابوالکلام آزاد صحیح کہتے تھے۔