Daily Ausaf:
2025-11-12@12:23:21 GMT

الفاظ کی جنگ ، سچائی کا امتحان

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

جس قوم کے پاس دلیل نہ ہو، ثبوت نہ ہو اور سچائی کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہو، وہ جھوٹ، پروپیگنڈے اور نفسیاتی چالوں کا سہارا لیتی ہے۔ یہی کچھ بھارت بالخصوص بھارتی میڈیا، سرجیکل اسٹرائیک کے ڈرامے کے بعد کر رہا ہے۔ جب دشمن کو میدان جنگ میں شکست ہوئی، جب اس کے جھوٹ بے نقاب ہوئے، جب پوری دنیا نے اس کی عسکری ناکامی پر انگلیاں اٹھائیںتو اس نے ایک نفسیاتی جنگ کا نیا محاذ کھول دیا۔ جس کا مقصد پاکستان کے حوصلے پست کرنا اور اپنے عوام کو جھوٹی تسلی دینا ہے۔ مگر بھارتی میڈیا شاید یہ بھول گیا ہے کہ پاکستان صرف ایک زمین کا ٹکڑا نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک جذبہ، اور ایک غیرت مند قوم کا نام ہے جسے نہ جھوٹ سے مرعوب کیا جاسکتا ہے، نہ نفسیاتی حملوں سے دبایا جا سکتا ہے۔ پاکستان، جو اپنی خودمختاری کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا ان واقعات پر مکمل نظر رکھے ہوئے تھا۔ جب بھی بھارتی قیادت نے کوئی نیا دعویٰ کیا، پاکستان نے اس کا جواب نہ صرف سفارتی انداز میں دیا بلکہ ثبوتوں کے ساتھ سچ پیش کیا۔ بالاکوٹ کا واقعہ ہو یا لائن آف کنٹرول پر ہونے والے مبینہ حملے، پاکستان نے ہر موقع پر دنیا کے سامنے شفاف مؤقف رکھا۔
میڈیاجو کسی بھی مہذب ریاست میں شعور اور امن کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے وہ بھارت میں ایک جنگی مشین بن چکا ہے۔ نیوز چینلز پر میزبان اینکرز نہ صرف عوام کو اشتعال دلاتے ہیں بلکہ حقائق کو مسخ کر کے ایسا ماحول بناتے ہیں کہ گویا دشمن پر حملہ کرنا ان کا قومی فریضہ ہے۔ اس زہر آلود صحافت نے بھارت کے اندر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں سچ کہنا جرم اور جھوٹ بولنا حب الوطنی سمجھا جاتا ہے۔اس کے برعکس پاکستانی میڈیا نے ذمہ داری، سنجیدگی اور وقار کا مظاہرہ کیا۔ یہاں نہ تو عوام کو جنگ کا خواب دکھایا گیا، نہ ہی افواج کے نام پر فخریہ بیانات کی گونج سنائی گئی۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک پرامن ہمسایہ بننے کی کوشش کی لیکن جب خودمختاری پر حملہ ہو تو جواب دینا قومی فرض بن جاتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت کی اندرونی سیاست کس قدر پاکستان مخالف بیانیے پر انحصار کرتی ہے۔ جب بھی وہاں انتخابات قریب ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی واقعہ گھڑ کر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر ’’دشمن‘‘ کی طرف موڑ دی جائے۔ معیشت کی گراوٹ، بے روزگاری، کسانوں کے مسائل، اقلیتوں پر ظلم ان سب سے نظر چرانے کے لیے ایک بیرونی دشمن کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور بھارتی میڈیا بخوشی اس سازش کا حصہ بن جاتا ہے۔سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ ابتدا ء سے ہی مشکوک تھا۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستانی حدود میں داخل ہو کر دہشت گردوں کے کیمپ تباہ کیے، مگر نہ کوئی وڈیو، نہ تصویر، نہ کوئی آزاد ذرائع سے تصدیق ہوئی۔ جب پاکستان نے غیر ملکی صحافیوں کو جائے وقوعہ پر لے جا کر زمینی حقائق دکھائے تو بھارتی جھوٹ کا پول کھل گیا۔ ایک ایسی قوم جو اپنی اقلیتوں کو تحفظ نہیں دے سکتی، جو اپنی سرحدیں محفوظ نہیں رکھ سکتی اور جس کے اپنے عوام سوال کرنے لگیں کہ آخر اتنی بڑی فوج کس کام کی ہے وہ قوم جھوٹے فخر کی چادر اوڑھ کر اپنے زخم چھپاتی ہے۔ بھارتی میڈیا مسلسل جھوٹی کامیابیوں کی داستانیں سنا کر اور جعلی وڈیوز کے ذریعے اپنی عوام کو بہلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں ایک ایسے میڈیا نے یرغمال بنایا ہوا ہے جو نہ صحافت جانتا ہے، نہ سچ بولنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ انہیں ایسی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہوتی ہیںاور جب حقیقت سامنے آتی ہے تو یا تو اسے دبا دیا جاتا ہے یا اس پر نئی جھوٹی کہانی کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم اس نفسیاتی جنگ سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اسے شکست دینے کا فن بھی جانتی ہے۔
ہم نے دنیا کی بڑی طاقتوں کا سامنا کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی اور اب جھوٹ کے اس طوفان کے سامنے بھی ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں کیونکہ ہم حق پر ہیں۔ ہماری افواج، ہمارے صحافی، ہمارے عوام سب یک زبان ہو کر دشمن کے جھوٹ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سچ کبھی دبایا نہیں جا سکتا، اور جھوٹ کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔یہ نفسیاتی جنگ صرف پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ خود بھارتی اداروں کے خلاف بھی ہے۔ سچائی کو دبا کر جو ماحول پیدا کیا جا رہا ہے وہ ایک دن بھارتی جمہوریت کو اندر سے کھوکھلا کر دے گا۔ اگر وہاں اب بھی کوئی ذی شعور طبقہ موجود ہے تو اسے چاہیے کہ اس جھوٹ کی فیکٹری کو بند کرے ورنہ آنے والی نسلیں ان کے کردار کو معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں نہ بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے سے خوف ہے اور نہ ہی ان کے جنگی نعروں سے۔ ہم اپنے ایمان، اپنے نظریے اور اپنے جذبے کے ساتھ زندہ قوم ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ دشمن کا ہر نفسیاتی وار ہماری یکجہتی اور حوصلے کو مزید مضبوط بناتا ہے۔
آج بھارت کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا میڈیا ہے اور وہی اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان ان تمام چالوں کو نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان کا مؤثر جواب بھی دینا جانتا ہے۔ ہمارا دفاع صرف بارود پر نہیں بلکہ حب الوطنی، قربانی، اتحاد اور سچائی پر مبنی ہے۔ پاکستانی قوم جانتی ہے کہ دشمن چاہے میدان جنگ میں ہو یا میڈیا کے محاذ پر، اسے صرف حکمت، صبر اور اصولوں سے شکست دی جا سکتی ہے۔ ہم نے دنیا کو دکھا دیا کہ ہم صرف جوابی کارروائی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اخلاقی بلندی پر بھی یقین رکھتے ہیں۔آخر میں بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ صرف بندوق سے نہیں، سچائی سے بھی جیتی جاتی ہے۔ نفسیاتی جنگ نہ قوموں کو کمزور کرتی ہے، نہ جھوٹ کو سچ میں بدلتی ہے۔ یہ صرف اس قوم کی ذہنی پسماندگی کا آئینہ ہوتی ہے جو سچ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔پاکستان ان شاء اللہ سرخرو رہے گا کیونکہ وہ سچ، اصول اور حوصلے کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارتی میڈیا چاہے جتنا بھی شور مچائے، سچ دبے گا نہیں اور نفسیاتی جنگ جیتنے کا خواب، ایک دن خود بھارت کے گلے کا طوق بن جائے گا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بھارتی میڈیا نفسیاتی جنگ دیا جاتا ہے پاکستان نے عوام کو رہا ہے

پڑھیں:

ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق

ریاض احمدچودھری

تقسیم ہند کے وقت ریاست جونا گڑھ کے حکمران نواب سر مہابت خانجی نے مملکت خدادا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ انکا یہ فیصلہ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے عین مطابق تھا جس میں562ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں۔ نواب سر مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ جونا گڑھ کی اسٹیٹ کونسل کے سامنے جو مسلمانوں، ہندوئوں، پارسیوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی پیش کیا جس نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ منظور کیا۔یوں 15ستمبر1947 کو الحاق کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے قائداعظم محمد علی جنا ح نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے جبکہ ریاست جونا گڑھ کی طرف سے نواب مہابت خانجی نے دستخط کئے۔ پاکستان کی اس وقت کی قانون ساز اسمبلی نے اس الحاق کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ بھارت جس نے قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا تھا، اس فیصلے پر تلملا اٹھا۔ کانگریسی رہنمائوں نے نواب صاحب کو مختلف ترغیبات دے کر اس فیصلے کو تبدیل کرانے کی بے انتہا کوششیں کیں حتیٰ کہ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا مگر نواب جونا گڑھ ثابت قدم رہے۔ نواب کا مؤقف تھا کہ اگرچہ ریاست جوناگڑھ کا خشکی کا کوئی راستہ پاکستان سے نہیں ملتا مگر سمندر کے ذریعے یہ تعلق ممکن ہے کیونکہ اس ریاست کا کراچی سے سمندری فاصلہ 480 کلومیٹر ہے۔ اس ریاست کے ماتحت دوریاستیں تھیں (1)منگروال (2)بابری آباد۔ ان دوریاستوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا جس پر نواب جونا گڑھ نے ان دونوں ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی۔ ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے حکومت ہندوستان سے مدد کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی ہندوستانی فوجوں نے 9 نومبر، 1947ء کو ریاست جوناگڑھ پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ایک جلاوطن گروپ نے ایک عارضی حکومت قائم کی جس کا سربراہ سمل داس گاندھی (Samaldas Gandhi) کو مقرر کیا گیا جو مہاتما گاندھی کا بھتیجاتھا۔ حکومت ہندوستان نے اسے مجاہد آزادی کا خطاب دیا موجودہ دور میں لاتعداد اسکول، کالج اور ہسپتال اس کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں۔
بھارتی حکومت نے جب یہ دیکھا کہ اس کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تو اس نے ریاست جونا گڑھ کی آئینی اور قانونی حکومت کا تختہ الٹنے اور ریاست پر غیر قانونی تسلط جمانے کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔ بعد ازاں9 نومبر 1947 کو بھارت نے جونا گڑھ پر فوجی طاقت کے بل پر تسلط قائم کیا۔ بھارتی فوجیوں نے جونا گڑھ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا اور مسلمانوں کی املاک کو بھاری نقصان پہنچایا۔حکومت پاکستان نے بھارتی جارحیت پر سخت احتجاج کیا اور اپنا کیس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس منعقدہ 11فروری 1948 میں پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ بھارت جونا گڑھ سے اپنی فوجیں واپس بلائے تاہم بھارت ٹس سے مس نہ ہوا۔ بعد ازاں حکومت پاکستان نے فروری 1971 میں جونا گڑھ کے مسئلے کو مسئلہ کشمیر سے منسلک کرکے اقوام متحدہ میں پیش کیا مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور بے اصولی کے باعث اس کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔بھارت نے جونا گڑھ پر غاصبانہ قبضے کے وقت یہ دلیل دی تھی کہ یہ علاقہ جغرافیائی طور پر بھارت سے متصل ہے تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جو جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے ساتھ متصل ہے اور جہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہش مند ہیں ، پر بھی بھارت گزشتہ 78برس سے قابض ہے اور کشمیری بھارتی تسلط سے آزادی کے مطالبے کی پاداش میں روز بھارتی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
1748ء میں ریاست جونا گڑھ (Junagadh State) کا قیام عمل میں آیا۔ 1807ء میں یہ برطانوی محمیہ ریاست بن گئی۔ 1818ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشرا کا علاقہ برطانوی راج کے انتظامیہ کے براہ راست تحت کبھی نہیں آیا۔ اس کی بجائے برطانیہ نے اسے ایک سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا، جو 1947ء تک قائم رہیں۔ موجودہ پرانا شہر جو انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران ترقی پایا سابقہ نوابی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ریاست کے نواب کو 13 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جواہر لال نہرو (14 فروری 1950ء ) کو خط لکھا جس میں بھارتی وزیراعظم کے سامنے جونا گڑھ پر پاکستان کا سرکاری موقف واضح کیا کہ جونا گڑھ کے مسئلہ کو مردہ نہ سمجھا جائے بلکہ سلامتی کونسل میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کے بعد جونا گڑھ کے مسئلے پر بات کی جائے گی۔”یہ بتانا ضروری ہے کہ جوناگڑھ سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد نمٹا جائے گا اور اسے ایک مردہ مسئلہ نہیں بنایا جا سکتا”ـ
بد قسمتی سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو پچھلی سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک درجن کے قریب قراردادیں بھی منظور ہو چکی ہیں لیکن کشمیری آج بھی انصاف کے حصول کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔اگر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے اقوام متحدہ کو بھیجے گئے بھارتی الزامات کے جواب میں درج کروائی گئی شکایات کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان نے صرف مقبوضہ جموں و کشمیر پر بات نہیں کی تھی بلکہ اس کے علاوہ جونا گڑھ سمیت پاکستان کے بھارت کے ساتھ متعدد مسائل کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ حل طلب تھے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی جھوٹ کا پول کھل گیا، عوام نے سوشل میڈیا پر مودی سرکار کے فالس فلیگ ڈرامے کا پردہ فاش کر دیا
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کی اسلام آباد جی-11 کچہری میں دہشت گردانہ حملے کی بھرپور الفاظ میں مذمت
  • روس: آئی ایس آئی کے جاسوسی نیٹ ورک کی گرفتاری کے بھارتی دعوے بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ قرار
  • جسٹس اطہر من اللہ کا نظامِ عدل میں سچائی کی کمی پر دوٹوک مؤقف
  • ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق
  • سری لنکا کے خلاف سیریز شاہینوں کا نیا امتحان
  • ’پاکستان جیسا پیار کہیں نہیں ملا‘، بابا گورونانک کی تقریبات میں شرکت کے بعد سکھ یاتریوں کی واپسی شروع
  • کِم کارڈیشیئن کا وکیل بننے کا خواب، خواب ہی رہ گیا
  • پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ
  • غزہ، انسانیت کا امتحان