سیز فائر، پاکستان اور انڈیا نے 2 اہلکار قیدیوں کا تبادلہ کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بی ایس ایف کے پورنم کمار شاء کو بھارتی حکام کے حوالے کیا گیا، جبکہ پاکستان رینجرز کے محمد اللہ کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔ دونوں اہلکاروں کے تبادلے کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان رینجرز پنجاب اور بھارتی بی ایس ایف میں قیدیوں کا باہمی تبادلہ کر لیا گیا۔ واہگہ بارڈر اور اٹاری پر پاکستان اور بھارت کے ایک ایک قیدی کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بی ایس ایف کے پورنم کمار شاء کو بھارتی حکام کے حوالے کیا گیا، جبکہ پاکستان رینجرز کے محمد اللہ کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔ دونوں اہلکاروں کے تبادلے کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حکام کے حوالے کیا گیا
پڑھیں:
شدید کشیدگی کے درمیان پاکستان اور بھارت نے قیدیوں کا تبادلہ کیا
جنگ بندی کے درمیان پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا جب کہ پاکستان نے بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے کانسٹیبل کو اور بھارت نے پنجاب رینجرز کے محمد اللہ کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا۔
رپورٹ کے مطابق بی ایس ایف کے اہلکار پورنم کمار کو 23 اپریل 2025 کو گنڈا سنگھ والا/فیروز پور سیکٹر میں پاکستانی حدود میں غیر ارادی طور پر داخل ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
واقعے کے بعد پاکستانی حکام نے قانونی و حفاظتی تقاضے مکمل کیے، جس کے بعد آج واہگہ/اٹاری سرحد پر باقاعدہ طور پر اس کی واپسی عمل میں لائی گئی۔
بی ایس ایف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ بیان میں تصدیق کی گئی کہ پاکستان رینجرز نے پورنم کمار کو بحفاظت واپس انڈیا کے حوالے کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’میرا سندور لوٹادو‘، گرفتار بھارتی اہلکار کی اہلیہ کا مودی سرکار سے مطالبہ
انڈین حکام نے اس اقدام کو سراہا ہے اور اسے ایک مثبت اشارہ قرار دیا ہے۔
پاکستان کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ دونوں ملکوں کے بارڈر بند ہیں اورمحدود جنگی جھڑپوں کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ابھی تک کشیدہ ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ایسے حالات میں پاکستان کی جانب سے انسانی بنیادوں پر ایک بھارتی فوجی کو واپس کرنا نہ صرف بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری ہے بلکہ ایک مثبت پیغام بھی ہے کہ خطے میں امن و تعاون کی گنجائش اب بھی موجود ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ قدم دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی کی ایک چھوٹی مگر اہم کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔