پاک بھارت جنگ میں ترکیے اور آذربائیجان کا کردار
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
7 مئی کو شروع ہونے والی پاک بھارت کشیدگی کے دوران 2 ممالک کی حکومتوں اور خصوصی طور پر عوام نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ ان میں ایک ملک ترکیے اور دوسرا آذربائیجان ہے۔
ان 2 ممالک نے اس 4 روزہ جنگ کے دوران پاکستان کو اس قدر کھل کر سپورٹ کیا کہ اب بھارتی میڈیا ان دونوں ملکوں کے خلاف خصوصی طور پر زہر اُگل رہا ہے اور ان ملکوں کی سیاحتی صنعت کے بائیکاٹ کی بات کی جا رہی ہے۔
گزشتہ روز تُرک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے ایکس پیغام میں لکھا ’پاکستان اور ترکیے کی دوستی کی مثال دنیا بھر میں کم ہی ملتی ہے اور یہ سچی دوستی کی سب سے خوبصورت مثال ہے۔ پاک ترک دوستی زندہ باد‘۔
اسی طرح سے آذربائیجان میں پاکستان کے پرچم لہرائے گئے اور پاکستان کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔
جبکہ دوسری طرف بھارت میں نفرت کا ماحول اس قدر شدّت اختیار کر چکا ہے کہ بالی ووڈ اداکار عامر خان کو اُن کی 3 سال قبل آنے والی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کو ترکیے میں عکس بندی کے سبب سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عامر خان اپنے اُس دورہ ترکیے کے دوران ترک خاتون اوّل سے بھی ملے جس کی بنیاد پر عامر خان کے غدار ہونے کے حوالے سے بیانات دیے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے شہباز شریف کی ترکیہ اور آذربائیجان کو تجارتی تعاون کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کی تجویز
بھارتی سوشل میڈیا پر اس وقت آذربائیجان اور ترکیے کے خلاف انتہائی سخت الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں، توہین آمیز تبصرے کیے جارہے ہیں اور گالیاں دی جا رہی ہیں۔ بھارت میں اس وقت ترکیے اور آذربائیجان کی مصنوعات اور خدمات کے بائیکاٹ کی کالز دی جا رہی ہیں۔ کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز نے ترکیے اور آذربائیجان کے سفر کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسی پوسٹیں گردش کر رہی ہیں جو بھارتیوں کو ان ممالک کی مصنوعات نہ خریدنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کے دوران بعض ممالک ایک فریق اور بعض دوسرے ممالک فریقِ ثانی کا ساتھ دیتے ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اپنے تکبّر اور ہندتوا فاشزم کے سبب دنیا بھر کی حمایت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
اس جنگ کے دوران ایک بھارتی تجزیہ کار نے ایرانی سفیر کے بارے میں ایسے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے جس پر بھارت سرکار کو بعد میں معافی مانگنا پڑی۔ اسی طرح اس وقت جنگی جنون اور زخمی اناء کے ساتھ بھارتی تجزیہ کار ترکیے اور آذربائیجان کے خلاف زہرافشانی کر رہے ہیں۔
جنگ شروع ہونے پر سب سے پہلا فون ترک وزیر خارجہ کا تھاوزیراعظم شہباز شریف اور ترکیے کے صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ایک خصوصی نوعیت کا تعلق ہے جو کہ میاں نواز شریف اور ترک صدر کے درمیان بھی ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک وزیراعظم شہباز شریف ترکیے کے 2 سرکاری دورے کر چُکے ہیں جبکہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار 5 سے 7 دورے کر چُکے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کے عکاس ہیں۔
6 اور 7 مئی کی درمیانی رات جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو سب سے پہلا فون ترک وزیر خارجہ خاکان فیدان نے کیا تھا۔ اس کے بعد جنگ کے دوران اور بعد میں ترک وزیر خارجہ مسلسل پاکستان حکومت کے ساتھ رابطے میں رہے۔
پاکستان اور ترکیے کے درمیان ہائی لیول اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل (ایچ ایل ایس سی سی) ایک ادارہ ہے جس کی بُنیاد 2009 میں رکھی گئی اور اِس کا مقصد دونوں مُلکوں کے درمیان تزویراتی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہائی لیول ملٹری ڈائیلاگ گروپ
یہ ادارہ 2003 میں بنایا گیا جس کا مقصد دونوں مُلکوں کے درمیان فوجی تعاون کو فروغ دینا تھا۔
پاک تُرک دفاعی تجارتتُرکیے پاکستان کو دفاعی سازوسامان فراہم کرنے کے حوالے سے ایک اہم ملک ہے، جس میں ایف سولہ طیارے، فلیٹ ٹینکرز، آبدوزیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ترکیے میں تیار کردہ ڈرونز بیراکتار ٹی بی 2 کا بھی خریدار ہے۔
مشترکہ پیداوار: دونوں ممالک مشترکہ طور پر دفاعی ساز و سامان بھی بناتے ہیں۔ جیسا کہ جنگی بحری جہاز مِلجیم کوروِٹس جو ترکی اور پاکستان دونوں ممالک میں تیار کیے جاتے ہیں۔
مشترکہ جنگی مشقیں: دونوں ممالک مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیتے ہیں، جس میں اتاتُرک اور جناح سیریز مشقیں شامل ہیں جو انسدادِ دہشتگردی اور اسپیشل آپریشنز سے متعلق مشقیں ہوتی ہیں۔
انسدادِ دہشتگردی: دونوں ملکوں کے درمیان انسدادِ دہشتگردی پر تعاون کے حوالے سے معاہدات موجود ہیں جس میں خفیہ معلومات کا اشتراک، مشترکہ آپریشنز اور تربیت کے پروگرام شامل ہیں۔
آذربائیجانپاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے آرمینیا کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں اور اُس کی وجہ صرف آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ حالیہ پاک بھارت فوجی تنازعے کے دوران آذربائیجان کے عوام نے بے مثال انداز میں پاکستان کی حمایت کی۔ آذربائیجان میں پاکستانی جھنڈے لگائے گئے اور پاکستان کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پاکستان کے جانب سے بھارتی طیارے گرائے جانے پر آذربائیجان میں خوشی کا اظہار کیا گیا۔
ترکیے اور آذربائیجان کی جانب سے پاکستان کی یہ حمایت بھارت کے عوام کو شدید مشتعل کر رہی ہے۔
ترکیے کے ساتھ ہمارا تاریخی تعلق ہے: ایمبیسیڈر مسعود خالدپاکستان کے سابق سفارتکار ایمبیسیڈر مسعود خالد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ترکیے کا تعلق تو غیر منقسم ہندوستان کے زمانے سے ہے جب یہاں کے مسلمانوں نے تحریک خلافت میں حصّہ لیا۔ یہ تعلق بڑا روایتی اور گرم جوشی پر مبنی ہے۔ جبکہ آذربائیجان کے ساتھ ہمارے تعلقات اُس کی سوویت یونین سے آزادی کے بعد وجود میں آئے۔ ہم نگوروکاراباخ پر ہمیشہ آذربائیجان جبکہ وہ ہمیشہ ہمیں کشمیر پر ہماری حمایت مہیا کرتے ہیں۔
پاکستان ترکیے اور آذربائیجان کے درمیان تاریخی، نسلی اور لسانی رشتے ہیں: ملک ایوب سنبلملک ایوب سنبل بیجنگ میں چینی میڈیا سے وابستہ ایک صحافی، جیو پولیٹیکل تجزیہ کار، اور براڈکاسٹر ہیں اور آذربائیجان کے حوالے سے اُن کا نمایاں کام جس میں اُن کی کتاب نگوروکاراباخ تنازع پر شائع ہو چکی ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ملک ایوب سنبل نے کہا کہ پاکستان ترکیے اور آذربائیجان مذہبی، تاریخی، نسلی اور لسانی حوالوں سے جُڑی ہوئی اقوام ہیں۔ غیر عرب ممالک میں سے یہ 2 ملک ایسے ہیں جو پاکستان کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ پاکستان، ترکیے اور آذربائیجان مسلم ممالک ہونے کے ناتے مذہبی رشتے میں جُڑے ہوئے ہیں، نسلی طور پر پاکستان میں کئی نسلوں کو تعلق ان علاقوں سے ہے، اس کے علاوہ اردو زبان میں تین ہزار الفاظ ایسے ہیں جن کا مُبدا ترک زبان ہے اور آذربائیجان میں بھی ترک زبان ہی بولی جاتی ہے۔
ترکیے کے ساتھ ہمارے تعلقات غیر منقسم ہندوستان میں تحریک خلافت کے دور سے ہیں اور ہمارا ترکیے کے ساتھ تعلق ہمشہ مضبوط رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ترکیہ ہمارا تزویراتی شراکت دار بھی ہے۔ پاکستان میں اب بھی ترک ٹوپی پہنی جاتی ہے اور اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کبھی ترکیے کا دورہ نہیں کیا بلکہ اکتوبر 2019 میں مودی نے اپنا ترکیے کا دورہ منسوخ کر دیا کیونکہ صدر اردوان نے کشمیر پر پاکستان کے حق میں بیان دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے ترکیہ کی بھارتی جارحیت کی شدید مذمت اور پاکستان سے مکمل اظہارِ یکجہتی
آذربائیجان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ملک ایوب سنبل نے کہا کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگوروکاراباخ کے تنازعے کو لے کر پاکستان ہمیشہ آذربائیجان جبکہ بھارت آرمینیا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔
حال ہی میں بھارت نے آرمینیا کو آکاش میزائلوں کی دوسری کھیپ دی ہے جبکہ پاکستان نے آذربائیجان کو جے ایف 17 تھنڈر طیارے دیے ہیں۔
ملک ایوب سنبل نے بتایا کہ سابقہ سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آذربائیجان کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا۔ پاکستان نے آج تک آرمینیا کے ساتھ اس وجہ سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے کیونکہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان اختلافات ہیں۔ پاکستان نے نگوروکاراباخ کے مسئلے پر آرمینیا کے مقابلے میں ہمیشہ آذربائیجان کا ساتھ دیا ہے اور اسی طرح سے اُنہوں نے کشمیر کے مسئلے پر ہمیشہ ہمیں حمایت مہیا کی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آذربائیجان پاکستان ترکیے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ترکیے ترکیے اور ا ذربائیجان ا ذربائیجان کے پاکستان ترکیے ملک ایوب سنبل دونوں ممالک اور پاکستان کے حوالے سے ا رمینیا کے پاکستان کے پاکستان نے کے درمیان اور ترکیے کے دوران ترکیے کے ہے اور ا کے ساتھ اور ترک ہیں اور ہیں جو رہا ہے کے بعد
پڑھیں:
طالبان کے وزیرِ خارجہ کا اگلے ہفتے بھارت کا دورہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) ایک بڑی اور اہم پیش رفت میں جو خطے کی جغرافیائی سیاست کو بدل سکتی ہے، طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی 9 اکتوبر کو بھارت کا دورہ کریں گے۔ یہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کابل سے نئی دہلی کا پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہو گا، جو بھارت اور طالبان کے درمیان تعلقات کے نئے مرحلے کو ظاہر کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ متقی کو بین الاقوامی سفری پابندیوں سے عارضی استثنیٰ دیا گیا ہے، جس کے تحت وہ 9 سے 16 اکتوبر کے درمیان نئی دہلی کا دورہ کر سکیں گے۔ یہ استثنیٰ اس دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جسے طالبان انتظامیہ اور خطے کی دیگر طاقتیں دونوں ہی اہم سمجھتی ہیں۔
(جاری ہے)
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سفارتی حلقے کئی مہینوں سے اس لمحے کی تیاری کر رہے تھے۔
جنوری سے ہی بھارتی حکام بشمول خارجہ سیکرٹری وکرم مِسری اور سینیئر آئی ایف ایس افسر جے پی سنگھ نے امیر خان متقی اور دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ کئی مذاکرات کیے، جو اکثر دبئی جیسے غیر جانبدار مقامات پر ہوئے۔ دبئی میں وکرم مِسری اور افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ملاقات میں افغانستان کے لیے بھارت کی جاری انسانی ہمدردی، خاص طور پر صحت کے شعبے اور پناہ گزینوں کی بحالی پر۔ پر مبنی امداد پر بات ہوئی۔اصل موڑ 15 مئی کو، بھارت کے پاکستان کے خلاف آپریشن سیندور کے فوراً بعد آیا، جب بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے امیر خان متقی سے فون پر بات کی۔ یہ 2021 کے بعد پہلی وزارتی سطح کی بات چیت تھی۔ اس موقع پر جے شنکر نے پہلگام دہشت گرد حملے کی طالبان کی مذمت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور افغان عوام کے ساتھ بھارت کی ''روایتی دوستی‘‘ کو دہرایا۔
بھارت کے طالبان سے بڑھتے تعلقاتاس سے قبل اپریل میں طالبان نے کابل میں بھارتی حکام کے ساتھ اعلیٰ سطحی اجلاس میں پہلگام حملے کی مذمت کی تھی، جہاں بھارت نے اس حملے کی تفصیلات شیئر کیں۔ بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم اشارہ تھا کہ بھارت اور افغانستان دہشت گردی کے معاملے پر ایک ہی صفحے پر ہیں۔
اس کے بعد بھارت نے افغانستان کو براہِ راست انسانی امداد میں اضافہ کیا، جس میں غذائی اجناس، ادویات اور ترقیاتی تعاون شامل ہے۔
ستمبر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد بھارت سب سے پہلے امداد بھیجنے والوں میں شامل تھا، جس نے فوری طور پر ایک ہزار خیمے اور 15 ٹن خوراک متاثرہ صوبوں کو روانہ کی۔ اس کے بعد مزید 21 ٹن امدادی سامان بھیجا گیا جس میں ادویات، صفائی کے کٹس، کمبل اور جنریٹر شامل تھے۔ اسے افغان عوام کی مدد کے لیے بھارت کے عزم کا اظہار قرار دیا گیا۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت تقریباً 50 ہزار ٹن گندم، 330 ٹن سے زائد ادویات اور ویکسینز، اور 40 ہزار لیٹر جراثیم کش ادویات فراہم کر چکا ہے۔ یہ مستقل کوششیں لاکھوں افغان عوام کو خوراک کی کمی، صحت کے مسائل اور انسانی بحران سے نمٹنے میں اہم سہارا فراہم کر رہی ہیں۔
پاکستان کے لیے دھچکا؟بھارتی تجزیہ کار اس دورے کو پاکستان کے لیے ایک دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
کیونکہ پاکستان طویل عرصے سے کابل پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس سال کے اوائل میں اسلام آباد کی جانب سے 80 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے نے طالبان کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر دیے تھے، جس سے بھارت کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔تجزیہ کاروں کے مطابق متقی کی نئی دہلی آمد کابل کی پاکستان پر انحصار کم کرنے اور اپنے تعلقات کو متنوع بنانے کی خواہش کی علامت ہے۔
بھارت کے لیے یہ دورہ ایک نازک لیکن حکمتِ عملی پر مبنی قدم بتایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ براہِ راست تعلقات بھارت کو افغانستان میں اپنے طویل مدتی مفادات کے تحفظ، خطے سے دہشت گردی کے خطرات روکنے، اور چین و پاکستان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورے کے دوران ہونے والی دوطرفہ ملاقات کو ایک ایسا موڑ سمجھا جا رہا ہے جو بھارت اور افغانستان کو محتاط تعاون کی نئی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، ایک ایسی راہ جو پورے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو دوبارہ ترتیب دے سکتی ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین