پاک بھارت جنگ میں ترکیے اور آذربائیجان کا کردار
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
7 مئی کو شروع ہونے والی پاک بھارت کشیدگی کے دوران 2 ممالک کی حکومتوں اور خصوصی طور پر عوام نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ ان میں ایک ملک ترکیے اور دوسرا آذربائیجان ہے۔
ان 2 ممالک نے اس 4 روزہ جنگ کے دوران پاکستان کو اس قدر کھل کر سپورٹ کیا کہ اب بھارتی میڈیا ان دونوں ملکوں کے خلاف خصوصی طور پر زہر اُگل رہا ہے اور ان ملکوں کی سیاحتی صنعت کے بائیکاٹ کی بات کی جا رہی ہے۔
گزشتہ روز تُرک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے ایکس پیغام میں لکھا ’پاکستان اور ترکیے کی دوستی کی مثال دنیا بھر میں کم ہی ملتی ہے اور یہ سچی دوستی کی سب سے خوبصورت مثال ہے۔ پاک ترک دوستی زندہ باد‘۔
اسی طرح سے آذربائیجان میں پاکستان کے پرچم لہرائے گئے اور پاکستان کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔
جبکہ دوسری طرف بھارت میں نفرت کا ماحول اس قدر شدّت اختیار کر چکا ہے کہ بالی ووڈ اداکار عامر خان کو اُن کی 3 سال قبل آنے والی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کو ترکیے میں عکس بندی کے سبب سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عامر خان اپنے اُس دورہ ترکیے کے دوران ترک خاتون اوّل سے بھی ملے جس کی بنیاد پر عامر خان کے غدار ہونے کے حوالے سے بیانات دیے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے شہباز شریف کی ترکیہ اور آذربائیجان کو تجارتی تعاون کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کی تجویز
بھارتی سوشل میڈیا پر اس وقت آذربائیجان اور ترکیے کے خلاف انتہائی سخت الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں، توہین آمیز تبصرے کیے جارہے ہیں اور گالیاں دی جا رہی ہیں۔ بھارت میں اس وقت ترکیے اور آذربائیجان کی مصنوعات اور خدمات کے بائیکاٹ کی کالز دی جا رہی ہیں۔ کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز نے ترکیے اور آذربائیجان کے سفر کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسی پوسٹیں گردش کر رہی ہیں جو بھارتیوں کو ان ممالک کی مصنوعات نہ خریدنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کے دوران بعض ممالک ایک فریق اور بعض دوسرے ممالک فریقِ ثانی کا ساتھ دیتے ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اپنے تکبّر اور ہندتوا فاشزم کے سبب دنیا بھر کی حمایت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
اس جنگ کے دوران ایک بھارتی تجزیہ کار نے ایرانی سفیر کے بارے میں ایسے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے جس پر بھارت سرکار کو بعد میں معافی مانگنا پڑی۔ اسی طرح اس وقت جنگی جنون اور زخمی اناء کے ساتھ بھارتی تجزیہ کار ترکیے اور آذربائیجان کے خلاف زہرافشانی کر رہے ہیں۔
جنگ شروع ہونے پر سب سے پہلا فون ترک وزیر خارجہ کا تھاوزیراعظم شہباز شریف اور ترکیے کے صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ایک خصوصی نوعیت کا تعلق ہے جو کہ میاں نواز شریف اور ترک صدر کے درمیان بھی ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک وزیراعظم شہباز شریف ترکیے کے 2 سرکاری دورے کر چُکے ہیں جبکہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار 5 سے 7 دورے کر چُکے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کے عکاس ہیں۔
6 اور 7 مئی کی درمیانی رات جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو سب سے پہلا فون ترک وزیر خارجہ خاکان فیدان نے کیا تھا۔ اس کے بعد جنگ کے دوران اور بعد میں ترک وزیر خارجہ مسلسل پاکستان حکومت کے ساتھ رابطے میں رہے۔
پاکستان اور ترکیے کے درمیان ہائی لیول اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل (ایچ ایل ایس سی سی) ایک ادارہ ہے جس کی بُنیاد 2009 میں رکھی گئی اور اِس کا مقصد دونوں مُلکوں کے درمیان تزویراتی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہائی لیول ملٹری ڈائیلاگ گروپ
یہ ادارہ 2003 میں بنایا گیا جس کا مقصد دونوں مُلکوں کے درمیان فوجی تعاون کو فروغ دینا تھا۔
پاک تُرک دفاعی تجارتتُرکیے پاکستان کو دفاعی سازوسامان فراہم کرنے کے حوالے سے ایک اہم ملک ہے، جس میں ایف سولہ طیارے، فلیٹ ٹینکرز، آبدوزیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ترکیے میں تیار کردہ ڈرونز بیراکتار ٹی بی 2 کا بھی خریدار ہے۔
مشترکہ پیداوار: دونوں ممالک مشترکہ طور پر دفاعی ساز و سامان بھی بناتے ہیں۔ جیسا کہ جنگی بحری جہاز مِلجیم کوروِٹس جو ترکی اور پاکستان دونوں ممالک میں تیار کیے جاتے ہیں۔
مشترکہ جنگی مشقیں: دونوں ممالک مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیتے ہیں، جس میں اتاتُرک اور جناح سیریز مشقیں شامل ہیں جو انسدادِ دہشتگردی اور اسپیشل آپریشنز سے متعلق مشقیں ہوتی ہیں۔
انسدادِ دہشتگردی: دونوں ملکوں کے درمیان انسدادِ دہشتگردی پر تعاون کے حوالے سے معاہدات موجود ہیں جس میں خفیہ معلومات کا اشتراک، مشترکہ آپریشنز اور تربیت کے پروگرام شامل ہیں۔
آذربائیجانپاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے آرمینیا کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں اور اُس کی وجہ صرف آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ حالیہ پاک بھارت فوجی تنازعے کے دوران آذربائیجان کے عوام نے بے مثال انداز میں پاکستان کی حمایت کی۔ آذربائیجان میں پاکستانی جھنڈے لگائے گئے اور پاکستان کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پاکستان کے جانب سے بھارتی طیارے گرائے جانے پر آذربائیجان میں خوشی کا اظہار کیا گیا۔
ترکیے اور آذربائیجان کی جانب سے پاکستان کی یہ حمایت بھارت کے عوام کو شدید مشتعل کر رہی ہے۔
ترکیے کے ساتھ ہمارا تاریخی تعلق ہے: ایمبیسیڈر مسعود خالدپاکستان کے سابق سفارتکار ایمبیسیڈر مسعود خالد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ترکیے کا تعلق تو غیر منقسم ہندوستان کے زمانے سے ہے جب یہاں کے مسلمانوں نے تحریک خلافت میں حصّہ لیا۔ یہ تعلق بڑا روایتی اور گرم جوشی پر مبنی ہے۔ جبکہ آذربائیجان کے ساتھ ہمارے تعلقات اُس کی سوویت یونین سے آزادی کے بعد وجود میں آئے۔ ہم نگوروکاراباخ پر ہمیشہ آذربائیجان جبکہ وہ ہمیشہ ہمیں کشمیر پر ہماری حمایت مہیا کرتے ہیں۔
پاکستان ترکیے اور آذربائیجان کے درمیان تاریخی، نسلی اور لسانی رشتے ہیں: ملک ایوب سنبلملک ایوب سنبل بیجنگ میں چینی میڈیا سے وابستہ ایک صحافی، جیو پولیٹیکل تجزیہ کار، اور براڈکاسٹر ہیں اور آذربائیجان کے حوالے سے اُن کا نمایاں کام جس میں اُن کی کتاب نگوروکاراباخ تنازع پر شائع ہو چکی ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ملک ایوب سنبل نے کہا کہ پاکستان ترکیے اور آذربائیجان مذہبی، تاریخی، نسلی اور لسانی حوالوں سے جُڑی ہوئی اقوام ہیں۔ غیر عرب ممالک میں سے یہ 2 ملک ایسے ہیں جو پاکستان کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ پاکستان، ترکیے اور آذربائیجان مسلم ممالک ہونے کے ناتے مذہبی رشتے میں جُڑے ہوئے ہیں، نسلی طور پر پاکستان میں کئی نسلوں کو تعلق ان علاقوں سے ہے، اس کے علاوہ اردو زبان میں تین ہزار الفاظ ایسے ہیں جن کا مُبدا ترک زبان ہے اور آذربائیجان میں بھی ترک زبان ہی بولی جاتی ہے۔
ترکیے کے ساتھ ہمارے تعلقات غیر منقسم ہندوستان میں تحریک خلافت کے دور سے ہیں اور ہمارا ترکیے کے ساتھ تعلق ہمشہ مضبوط رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ترکیہ ہمارا تزویراتی شراکت دار بھی ہے۔ پاکستان میں اب بھی ترک ٹوپی پہنی جاتی ہے اور اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کبھی ترکیے کا دورہ نہیں کیا بلکہ اکتوبر 2019 میں مودی نے اپنا ترکیے کا دورہ منسوخ کر دیا کیونکہ صدر اردوان نے کشمیر پر پاکستان کے حق میں بیان دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے ترکیہ کی بھارتی جارحیت کی شدید مذمت اور پاکستان سے مکمل اظہارِ یکجہتی
آذربائیجان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ملک ایوب سنبل نے کہا کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگوروکاراباخ کے تنازعے کو لے کر پاکستان ہمیشہ آذربائیجان جبکہ بھارت آرمینیا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔
حال ہی میں بھارت نے آرمینیا کو آکاش میزائلوں کی دوسری کھیپ دی ہے جبکہ پاکستان نے آذربائیجان کو جے ایف 17 تھنڈر طیارے دیے ہیں۔
ملک ایوب سنبل نے بتایا کہ سابقہ سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آذربائیجان کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا۔ پاکستان نے آج تک آرمینیا کے ساتھ اس وجہ سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے کیونکہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان اختلافات ہیں۔ پاکستان نے نگوروکاراباخ کے مسئلے پر آرمینیا کے مقابلے میں ہمیشہ آذربائیجان کا ساتھ دیا ہے اور اسی طرح سے اُنہوں نے کشمیر کے مسئلے پر ہمیشہ ہمیں حمایت مہیا کی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آذربائیجان پاکستان ترکیے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ترکیے ترکیے اور ا ذربائیجان ا ذربائیجان کے پاکستان ترکیے ملک ایوب سنبل دونوں ممالک اور پاکستان کے حوالے سے ا رمینیا کے پاکستان کے پاکستان نے کے درمیان اور ترکیے کے دوران ترکیے کے ہے اور ا کے ساتھ اور ترک ہیں اور ہیں جو رہا ہے کے بعد
پڑھیں:
امن یا کشیدگی: پاکستان بھارت تعلقات کے مستقبل پر نظر ثانی
امن یا کشیدگی: پاکستان بھارت تعلقات کے مستقبل پر نظر ثانی WhatsAppFacebookTwitter 0 13 August, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد دنیا کے نقشے پر دو خودمختار ریاستیں ابھریں — پاکستان اور بھارت۔ ان دو ممالک کا قیام محض جغرافیائی علیحدگی نہ تھا؛ بلکہ یہ ایک پیچیدہ اور اکثر معاندانہ تعلق کا آغاز تھا، جو تاریخی رنجشوں اور سیاسی غلط فہمیوں سے جنم لیتا ہے۔ قریباً اسی سال گزر جانے کو ہیں۔ پاکستان اور بھارت اپنی اپنی یوم آزادی منانے میں مصروف عمل ہیں، لیکن ان دونوں ہمسایوں کے درمیان تلخی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ دنیا کے دیگر خطوں میں قومیں اپنی پرانی دشمنیوں کو شراکت داریوں میں بدل چکی ہیں، مگر بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو وہ کشادہ دلی اور تسلیم کرنے کا رویہ نہیں اپنایا جو ایک پڑوسی کو دوسرے کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔
اول روز سے ہی بھارت کا رویہ پاکستان کے حوالے سے شکوک، مخالفت اور اکثر کھلی دشمنی پر مبنی رہا ہے۔ اعتماد کی بنیاد پر پل تعمیر کرنے کے بجائے، بھارت نے تفریق کی آگ کو مزید بھڑکایا۔ اس رویے کے نتائج نہایت افسوسناک اور دیرپا ثابت ہوئے۔ کئی جنگیں لڑی گئیں، ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں، اور ترقیاتی مقاصد کے لیے مختص وسائل دفاع پر صرف ہونے لگے۔ سب سے تکلیف دہ زخم 1971 میں لگا، جب بھارت نے پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش کے قیام میں ناقابلِ انکار کردار ادا کیا۔ یہ واقعہ پاکستانی ذہن و دل پر گہرا نقش ہے اور آج بھی اس بات کی تلخ یاد دلاتا ہے کہ کس طرح جغرافیائی سیاسی دشمنیاں قوموں کو پارہ پارہ کر سکتی ہیں۔
یہ آج کی باہم جُڑی ہوئی دنیا کی ایک افسوسناک اور نایاب حقیقت ہے کہ دو ہمسایہ ممالک، جو جغرافیہ اور مشترکہ تاریخ کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، ایسی گہری دشمنی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں سابقہ دشمن ممالک نے صلح و مفاہمت کی راہ اختیار کی ہے۔ یورپ، جو کبھی ہولناک جنگوں کا میدان تھا، آج اتحاد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا نے علاقائی تعاون کے ذریعے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ حتیٰ کہ ویتنام اور امریکہ جیسے ممالک، جو کبھی شدید جنگ میں ملوث تھے، آج اقتصادی و سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ لیکن بھارت اور پاکستان آج بھی اربوں ڈالر ہتھیاروں، میزائلوں اور فوجی تیاریوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ اقتصادی ترقی اور سماجی بہتری کی طرف بڑھنے کے بجائے، دونوں ممالک اسلحہ کی دوڑ میں الجھے ہوئے ہیں۔
کیا یہ سلسلہ ہمیشہ یونہی چلتا رہے گا؟ کیا ٹکراؤ کے سوا کوئی اور راستہ نہیں؟ یہ سوال ہمیں سنجیدگی اور دیانتداری سے خود سے پوچھنا چاہیے؛کیا کشمیر، پانی کے تنازعات، اور دیگر پرانے مسائل کو مخلصانہ اور بامقصد مکالمے کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جنگیں — جیسے کہ عالمی جنگیں، سرد جنگ، اور ویتنام جنگ — بالآخر مذاکرات کی میز پر ختم ہوئیں۔ وہ قومیں جنہوں نے ناقابلِ بیان تباہیاں سہیں، آخرکار ایک دوسرے سے بات کرنے، سمجھوتہ کرنے اور امن قائم کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔ تو کیا یہ بہت زیادہ امید ہے کہ بھارت اور پاکستان بھی ایسی ہی دانشمندی اور پختگی کا مظاہرہ کریں؟
پاکستان کی جانب سے مسائل کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کے بارہا عزم کے باوجود، بدقسمتی سے بھارتی قیادت اکثر انتخابی جذبات اور سیاسی نمائش کے دباؤ میں آ جاتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ اس حقیقت کا سامنا کرے کہ مکالمہ کوئی کمزوری نہیں بلکہ پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔ مکالمے کا مطلب ہرگز ہتھیار ڈالنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب دوسرے فریق کی انسانیت کو تسلیم کرنا، شکایات کو سننا، اور قانون، سفارتکاری اور باہمی احترام کے تحت حل تلاش کرنا ہے۔ جب رابطے کے دروازے بند ہوں تو غلط فہمیاں بڑھتی ہیں اور انتہا پسندی کے لیے زمین ہموار ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، جب مکالمے کے دروازے کھلے ہوں، تو امید دوبارہ زندہ ہوتی ہے۔
پاکستان نے بارہا تمام بنیادی مسائل—جن میں کشمیر، سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم، تجارت، اور سرحد پار دہشت گردی شامل ہیں—پر مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم بھارت نے اکثر ان کوششوں کو یا تو رد کر دیا، یا ایسی پیشگی شرائط عائد کیں جنہوں نے حقیقی مذاکرات کو ناممکن بنا دیا۔ اس جمود کی قیمت سیاستدانوں کو نہیں، بلکہ دونوں طرف کے عام لوگوں کو چکانی پڑتی ہے—پنجاب کے کسانوں، کراچی اور دہلی کے طلبائ، لاہور اور ممبئی کے محنت کشوں کو، جن کا حق ہے کہ وہ بہتر زندگی گزاریں، نہ کہ دشمنی کا ورثہ پائیں۔
معاشی ترقی اس زہریلے سیاسی ماحول کے ہاتھوں دم توڑ رہی ہے۔ جنوبی ایشیا دنیا کے ان خطوں میں سے ایک ہے جہاں اقتصادی انضمام سب سے کم ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت اُس ممکنہ استعداد کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے جو دونوں ممالک رکھتے ہیں۔ اگر تعلقات کو معمول پر لایا جائے، تو دونوں ممالک کی صنعتیں بے پناہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ مشترکہ منڈیاں، کم شدہ محصولات (ٹیکس)، اور مشترکہ منصوبے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں، معیارِ زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور غیر ملکی امداد یا استحصالی قرضوں پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔
معاشیات سے ہٹ کر، دونوں ممالک صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے ذریعے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آج کے دور میں جب بیماریاں سرحدوں کو نہیں مانتیں، اور جب موسمیاتی تبدیلی مون سون کے نظام اور غذائی تحفظ دونوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے، تو مشترکہ تحقیق اور پالیسی کا ہم آہنگی کوئی عیش نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ عوامی صحت، ویکسین کی تیاری، پانی کے انتظام، اور آفات سے نمٹنے جیسے شعبوں میں مشترکہ کوششیں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لا سکتی ہیں۔
تعلیم ایک اور پُل کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ دونوں ممالک کے طلباء اور محققین تعلیمی تبادلوں میں شریک ہو کر ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور برسوں سے قائم تعصبات کو ختم کر سکتے ہیں۔ میڈیا، ادب اور فنون لطیفہ — جو زبان اور ثقافت کے لحاظ سے پہلے ہی ایک دوسرے سے گہرے طور پر جُڑے ہوئے ہیں — تصادم کے بجائے مفاہمت کے مؤثر ذرائع بن سکتے ہیں۔
لیکن ان تمام امکانات کی جڑیں اُس زمین میں نہیں پکڑ سکتیں جو نفرت سے زہریلی ہو چکی ہو۔ امن کے پھول تبھی کھِل سکتے ہیں جب سیاسی عزم کو پروان چڑھایا جائے۔ دونوں جانب کا میڈیا سنسنی خیزی کو ترک کرے اور امن، مشترکہ قدریں اور انسانیت کے یکساں خوابوں پر مبنی بیانیے کو فروغ دے۔ سول سوسائٹی کو خوف سے بلند ہو کر اپنی قیادت سے ایسا مستقبل طلب کرنا ہوگا جو وراثتی دشمنی سے پاک ہو۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ دشمنی پر ہی مبنی رہیں گے۔ لیکن تقدیر پسندی کوئی پالیسی نہیں، بلکہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ تاریخ ناگزیر حالات سے نہیں، بلکہ فیصلوں سے بنتی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ دانشمندی کے راستے کو چنا جائے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن صرف ممکن ہی نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ یہ بزدلی نہیں بلکہ جرا?ت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ گالیوں کا نہیں بلکہ گفت و شنید کا راستہ مانگتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، یہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کو تعاون سے جو فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، وہ تصادم سے ممکن نہیں۔
یہ دونوں ممالک کا قرض ہے اپنی آنے والی نسلوں پر۔ یہ اُن بے گناہوں کا قرض ہے جو ایسی جنگوں میں مارے گئے جنہیں انہوں نے کبھی چنا ہی نہیں تھا۔ اور یہ اُن لاکھوں افراد کا قرض ہے جو آج بھی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، تعلیم، صاف پانی، صحت اور عزتِ نفس کے متلاشی ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ کیا امن ممکن ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اُسے حاصل کرنے کا عزم رکھتے ہیں؟
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرفیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے آذربائیجان کے چیف آف جنرل سٹاف کی ملاقات بی ایل اے بے نقاب: دہشت گردی اور مودی کی پشت پناہی کا گٹھ جوڑ سردار ایاز صادق، جامعہ نعیمیہ اور حلقہ کی تبدیلی واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج آزادی کا مطلب کیا؟ — تجدیدِ عہد کا دن اوورسیز پاکستانی: قوم کے گمنام ہیرو اسلام میں عورت کا مقام- غلط فہمیوں کا ازالہ حقائق کی روشنی میںCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم