اسرائیلی فوج کا غزہ کے کئی علاقوں پر ’قبضے‘ کے لیے وسیع آپریشن کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
اسرائیلی فوج نے غزہ کے کئی علاقوں پر قبضے اور حماس کو ’شکست دینے کے لیے‘ ایک وسیع آپریشن کا اعلان کیا ہے۔
ایکس پر اسرائیلی دفاعی فورسز نے عبرانی زبان میں پیغام دیا کہ اس نے غزہ کے پٹی کے سٹریٹیجک علاقوں پر قبضے کے لیے فوجی دستے فعال کیے ہیں۔
حماس کے زیرِ انتظام سول ڈیفنس اور وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات سے اسرائیلی حملوں میں قریب 250 افراد شہید ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے دو ماہ کے سیزفائر کے خاتمہ کے بعد مارچ سے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل روک رکھی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا کہ غزہ میں کئی لوگ بھوکے پیاسے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کا آپریشن اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک حماس کا خطرہ نہ ٹل جائے اور تمام یرغمالی واپس نہ آجائیں۔ اس نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی میں دہشتگردی کے 150 ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی اور مذاکرات کے لیے عالمی دباؤ کے باوجود اسرائیل کی غزہ پر بمباری جاری ہے۔ اس نے سرحد کے قریب فوجی دستوں کو الرٹ کیا ہے۔ آپریشن کے اعلان سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ جنگ بندی اور مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔
اخبار ٹائمز آف اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے تحت اسرائیلی فوج غزہ کے کئی علاقوں پر قبضہ کرے گی، عام شہریوں کو جنوبی غزہ منتقل کیا جائے گا، حماس پر حملے کیے جائیں گے اور حماس کی جانب سے امدادی سامان پر قبضے کو روکا جائے گا۔
رواں ماہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں کئی علاقوں پر قبضے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان کی حکومت نے کہا ہے کہ یہ آپریشن ٹرمپ کا دورۂ مشرق وسطیٰ مکمل ہونے کے بعد شروع کیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ جمعے کو ہی یہ دورہ مکمل کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ انسانی حقوق کے چیف وولکر ٹرک نے متنبہ کیا کہ اسرائیل کی جانب سے تناؤ میں حالیہ اضافے کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔
امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکہ کو اس صورتحال پر تشویش ہے۔
پیر کو اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ غزہ کی آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں خوراک کی کمی کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔
حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ میں فوجی مہم شروع کی تھی۔ حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 57 افراد اب بھی اس کی تحویل میں ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کئی علاقوں پر اسرائیلی فوج جائے گا غزہ کے کے لیے
پڑھیں:
عرب ممالک کی مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی مطالبات کی مذمت
دوحہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 جولائی ۔2025 )عرب ممالک نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے سرکاری اسرائیلی مطالبات کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے عرب نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو 14 اسرائیلی وزرا اور کنیسٹ کے اسپیکر عامر اوحانا کے دستخطوں کے ساتھ ارسال کردہ خط میں مطالبہ کیا گیا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کو فوری طور پر اسرائیل میں ضم کر دیا جائے.(جاری ہے)
اسرائیلی وزیر انصاف یاریو لیوین نے بھی اسی مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی خودمختاری نافذ کریںفلسطینی اتھارٹی نے ایک بیان میں ان مطالبات کو خطے کے استحکام کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے اردن کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی حکومت کے اراکین کی جانب سے دیے گئے ان بیانات کو انتہائی خطرناک اور شدید قابل مذمت قرار دیا. سعودی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر جاری بیان میں فلسطین کے مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری نافذ کرنے کے سرکاری اسرائیلی مطالبے کی شدید مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا سعودی وزارت خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سعودی عرب فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی ہر کوشش کو مسترد کرتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی حکام کو عالمی فیصلوں کے مطابق جواب دہ بنایا جانا چاہیے. مصری وزارت خارجہ نے بھی اسرائیلی مطالبات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی اور فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضے کو مضبوط کرنے کی کوشش قرار دیا دوسری جانب امریکی جریدے”نیویارک ٹائمز“نے ذرائع کے حوالے سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے ممکنہ معاہدے کی تفصیلات شائع کی ہیں اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع اور حماس سے قریبی تعلق رکھنے والے فلسطینی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس معاہدے میں دس اسرائیلی زندہ یرغمالیوں کی رہائی اور اٹھارہ زخمیوں کی منتقلی شامل ہے جن کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا. ان یرغمالیوں کی رہائی اور لاشوں کی منتقلی پانچ مراحل میں مکمل کی جائے گی جو ساٹھ دن کی مجوزہ جنگ بندی کے دوران انجام پائے گی اسرائیلی ذریعے کے مطابق اس منصوبے کے تحت حماس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اس بار یرغمالیوں کی رہائی کے وقت پہلے کی طرح کسی قسم کی ”رہائی کی تقاریب“ منعقد نہ کرے جیسا کہ اس سال کے اوائل میں ایک عارضی جنگ بندی کے دوران ہوا تھا حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اسے جنگ بندی سے متعلق نئی تجاویز موصول ہوئی ہیں جو ثالثوں کے ذریعے پیش کی گئی ہیں اور اس کا مقصد ایسا معاہدہ حاصل کرنا ہے جو اس تصادم کو ختم کرے اور اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کی ضمانت دے. حماس نے اپنے سرکاری ٹیلیگرام صفحے پر جاری ایک بیان میں کہاکہ ثالث تمام فریقوں کے درمیان خلا کو پاٹنے اور ایک فریم ورک معاہدہ حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کے آغاز کی خاطر بھرپور کوششیں کر رہے ہیں بیان میں کہا گیاکہ ہم اس معاملے کو اعلیٰ درجے کی ذمہ داری کے ساتھ لے رہے ہیں اور قومی مشاورت کر رہے ہیں تاکہ ثالثوں کی طرف سے موصول ہونے والی تجاویز پر غور کیا جا سکے اور ایسا معاہدہ حاصل کیا جا سکے جو جارحیت کے خاتمے، انخلا کی تکمیل، اور ہمارے عوام کے لیے فوری امداد کی ضمانت دے، خاص طور پر غزہ کی پٹی میں. اسی سلسلے میں امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام غزہ میں عارضی جنگ بندی کے لیے آمادہ نظر آ رہے ہیںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات نے کہ اسرائیل نے ساٹھ روزہ جنگ بندی کی شرائط سے اتفاق کر لیا ہے، غزہ کی پٹی میں امیدیں دوبارہ زندہ کر دی ہیں. قبل ازیں سوشل میڈیا پر جاری ایک پیغام میںصدر ٹرمپ نے کہا کہ میرے نمائندوں نے آج اسرائیلیوں کے ساتھ غزہ کے حوالے سے ایک طویل اور تعمیری ملاقات کی ہے انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے ساٹھ روزہ جنگ بندی کے لیے ضروری شرائط سے اتفاق کر لیا ہے اور اس مدت کے دوران ہم تمام فریقوں کے ساتھ مل کر جنگ کے خاتمے کے لیے کام کریں گے. انہوں نے کہاکہ قطری اور مصری، جنھوں نے امن کے لیے سخت محنت کی ہے اس حتمی تجویز کو پیش کریں گے ٹرمپ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ میں مشرقِ وسطیٰ کے مفاد میں یہ امید کرتا ہوں کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گی کیونکہ صورت حال بہتر ہونے والی نہیں بلکہ مزید خراب ہو جائے گی.