اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مئی 2025ء) بھرت مونی دریا کے کنارے پانچواں وید "نٹ شاستر" لکھنے میں منہمک ہے۔ بھرت مونی نے سوچا کہ ایک ایسی بھی صنف ہو جو بے زبان ہو لیکن جسم کی حرکات اور چہرے کے تاثرات کے ذریعے ادا ہو اور پھر نٹ شاستر میں"نٹہ"یعنی رقص وجود میں آیا۔
ویدوں اور نٹ شاستر میں رقص و موسیقی کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔
نٹ شاستر سنسکرت زبان کا ایک قدیم اور معتبر صحیفہ ہے جسے "بھرت مونی" نے تقریباً دو ہزار قبل مسیح میں تصنیف کیا۔ یہ تصنیف صرف رقص ہی نہیں بلکہ قدیم ناٹک کے رہنما اصول مرتب کرنے والی دستاویز میں شمار ہوتی ہے۔ برصغیر میں رقص صدیوں سے ثقافت کا حصہ رہا۔ تاہم برطانوی راج کے دوران، رقص کو اکثر غیر مہذب یا غیر سنجیدہ سمجھا گیا، تب بھی آزاد ریاستوں کے نوابین نے رقص اور فنکاروں کو نہ صرف عزت و توقیر دی بلکہ مال و زر سے بھی نوازا۔(جاری ہے)
لیکن وقت کے ساتھ برطانوی تسلط بڑھتا گیا اور ہندوستانی فن و ثقافت روبہ زوال ہونے لگے۔آزادی کے بعد، ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں اس فن کو زندہ کرنے کی کوششیں ہوئیں، مگر پاکستان میں خاص طور پر ضیا الحق کے آمرانہ دور میں رقص پر پابندی عائد کر دی گئی، جس نے اس کی ترقی کو سخت نقصان پہنچایا۔ یہاں کلاسیکی رقص کو غیر اسلامی سمجھا جاتا رہا، تاہم ناہید صدیقی، نگہت چوہدری، نجمہ بلوچ، شیما کرمانی اور دیگر فنکاروں نے بالخصوص کتھک کے ذریعے، اس فن کی شمع کو روشن رکھا۔
بھارت میں فنون لطیفہ بالخصوص تھیٹر اور رقص کو حکومت کی خاص سرپرستی حاصل رہی اور حکومت کی جانب سے آٹھ کلاسیکی رقص کی اقسام کو باضابطہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ہر رقص کسی نہ کسی علاقے، زبان، مذہب اور ثقافتی روایت سے جڑا ہوا ہے اور ان سب کی جڑیں نٹ شاستر سے جڑی ہیں۔
بھرت ناٹیم
جنوبی بھارت، خاص طور پر تمل ناڈو کا رقص، جو قدیم مندروں میں وشنو اور شیو کی پوجا کے دوران پیش کیا جاتا تھا۔
اس میں زاویہ دار حرکات، نیم بیٹھا ہوا انداز (آرا منڈی)، چہرے کے تاثرات (ابھینئے)، ہاتھوں کے اشارے (مندرائیں) اور پیروں کی تھپتھپاہٹ (تتکار) اہم عناصر ہیں جو کرناٹک موسیقی پر پرفارم کیے جاتے ہیں۔ زمین سے جڑا یہ رقص سخت محنت کا متقاضی ہے۔ بھرت ناٹیم ایک مخصوص تہہ دار ساڑھی پہن کر کیا جاتا ہے۔ بھاری زیورات، گہرے میک اپ خصوصاً آنکھوں کی بناوٹ کو کاجل سے مزید نمایاں کیا جاتا ہے۔ گھنگھرو بھی اس رقص کا لازمی جز ہیں۔اس میں "بھاؤ" (جذبہ) اور "راس" (تاثر) کا امتزاج بہت اہم ہے۔ "راس" وہ داخلی ربط ہے جو فنکار اور ناظرین کے درمیان پیدا ہوتا ہے۔ "نواراسا" یعنی نو بنیادی جذبات جیسے شِرِنگار (محبت)، کرون (غم) اور ہاسیہ (خوشی) کو چہرے کے مخصوص تاثرات سے پیش کیا جاتا ہے۔
کتھک
کتھک شمالی ہندوستان، خصوصاً اتر پردیش کا رقص ہے۔
کتھک سنسکرت کے لفظ "کتھا" سے آیا ہے یعنی کہانی۔ اس رقص کی ابتدا مندروں میں رادھا کشن کی مذہبی کہانیاں سنانے سے ہوئی۔ بعد ازاں مغلیہ درباروں میں اسے ایک درباری فن کی حیثیت حاصل ہوئی۔یہ رقص کلاسیکل موسیقی جس میں طبلہ اور ستار نمایاں حیثیت رکھتے ہیں پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں چکر، چشم طشتری، چشم و ابرو کے اشارے، گھنگھرو کی تال اور نرم سیال حرکات کے ذریعے رامائن، مہابھارت، صوفی کلام اور درباری روایات کو مجسم کیا جاتا ہے۔
کتھک میں کہانی گوئی، جذبات کا تدریجی ارتقاء اور تال کی پیچیدگی اسے ممتاز بناتے ہیں۔اس رقص کے لیے چوڑی دار پاجامہ و پشواز، گھاگرا چولی خاص پہناوے اور پاؤں میں گھنگھرو اس رقص کی شان میں اضافہ کرتے ہیں۔اوڈیسی
اوڑیسہ کا رقص، جو جگن ناتھ مندر کی عبادات سے شروع ہوا۔ اس کی شناخت تین جھکاؤ والی حرکات، گردن و کمر کے مخصوص زاویوں، اور نرم، لچک دار انداز سے ہوتی ہے۔
یہ رقص جے دیو کی نظموں، کرشن لیلا اور اوڈیسی موسیقی پر مبنی ہوتا ہے۔ سلک کی ساڑھی، چاندی کے زیورات اور سر پر تاج اس کے مخصوص پہناوے ہیں۔کچھی پوڑی
آندھرا پردیش کا کلاسیکی رقص، جو مندروں میں برہمن مرد اداکاروں کی جانب سے عبادتی انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔ بھرت ناٹیم سے ملتے جلتے انداز کے ساتھ اس میں اداکاری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
کرناٹک موسیقی پر مبنی یہ رقص رامائن و مہا بھارت کی کہانیوں کو پیش کرتا ہے۔منی پوری
شمال مشرقی بھارت، منی پور کا مخصوص رقص، جو کرشن بھکتی تحریک سے جڑا ہے۔ منی پوری موسیقی اور پکھاوچ میں پرویا یہ رقص نرم، شائستہ اور روحانیت سے لبریز ہوتا ہے۔ اس رقص کی حرکات، گول فراک جیسی ساڑھی، سر پر دوپٹہ اور ہلکے زیورات اسے نہایت لطیف بنا دیتے ہیں۔
کتھاکلی
کیرالہ کا تھیٹر نما رقص، جس میں صرف مرد فنکار حصہ لیتے ہیں۔ کرناٹک اور پیرا دیسی (لوک) موسیقی پر کیے جانے والے اس منفرد رقص میں رنگین چہرے، بھاری لباس، درشتی سے بھرپور حرکات اور خاموش تاثراتی تھیٹر ڈرامہ بھی شامل ہوتا ہے۔ رامائن و مہابھارت کی کہانیوں کو ڈرامائی انداز کے ساتھ پیش کرنے والا یہ رقص دیکھنے والے کو وجدانی کیفیت میں لے جاتا ہے۔
موہنی آٹم
موہنی کا مطلب "دل موہ لینے والی" جبکہ آٹم کا مطلب رقص۔ کیرالہ کا ایک اور اہم رقص، جسے مندر کی عبادات سے جوڑا جاتا ہے، جس میں موہنی (وشنو کا نسوانی روپ) اور رادھا کشن کے عشق کو کرناٹک موسیقی میں پرو کر ایک روحانی وجد میں پیش کیا جاتا ہے۔ سنہری کناروں سے مزین سفید لباس، نرم حرکات اور نسوانی لطافت اس رقص کی نمایاں خوبیاں ہیں۔
ساتریا
آسام سے تعلق رکھنے والا رقص، جو شنکر دیو کی بھکتی تحریک سے پیدا ہوا۔ مٹھوں میں عبادات کے دوران مرد و خواتین اس رقص کے ذریعے کرشن کی کہانیاں اور وشنو کی بھکتی پیش کرتے ہیں۔
رابندر رقص
روایتی کلاسیکی رقص کے ساتھ ساتھ، رابندر ناتھ ٹیگور کی تخلیق کردہ ایک منفرد صنف رابندر رقص بھی قابل ذکر ہے۔ یہ کوئی مخصوص کلاسیکی صنف نہیں، بلکہ ایک جمالیاتی امتزاج کی ایک نئی جہت ہے، جس میں مغربی بیلے، جاوی، جاپانی، بنگالی لوک اور ہندوستانی کلاسیکی رقص کے عناصر کو شامل کیا گیا ہے۔
ٹیگور نے شانتِی نکیتن اور وِشوا بھارتی یونیورسٹی میں رقص کو تعلیم، جمالیات اور روحانی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کے "رقص ناتک" جیسے چترنگدا، شاپموچن، چنڈالیکا اور شیور نرتن رقص، موسیقی اور ڈرامے کا حسین امتزاج ہیں۔ یہ رقص کلاسیکی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہوئے بھی "ابھینئے" (جذباتی اظہار) پر بھرپور زور دیتا ہے۔یہ تمام رقص کی اقسام بھرت مونی کی مرہون منت ہیں، جس نے نٹ شاستر میں ان کی بنیاد رکھی اور تمام اقسام کے لیے ایک فریم ورک مہیا کیا۔
فنون لطیفہ چاہے وہ موسیقی ہو یا تھیٹر یا رقص ہو، معاشرے کا روشن دان ہوتے ہیں، جہاں سے تازہ ہوا اور روشنی آتی ہے اگر انہیں ہی بند کر دیا جائے تو معاشرہ میں حبس بڑھنے لگتا ہے۔ معاشرے کی کھڑکیاں اور روشن دان کھلے رہیں گے تو تازہ فضا میں سانس لینا آسان ہو گا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پیش کیا جاتا کلاسیکی رقص کیا جاتا ہے اس رقص کی کے ذریعے ہوتا ہے کے ساتھ رقص کے رقص کو یہ رقص
پڑھیں:
طوفانِ الاقصیٰ، تاریخ کا نقطۂ عطف
اسلام ٹائمز: اسرائیلی حکومت جنگ کے اختتام کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان کم ہے کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک جب تک ٹرمپ امریکی سیاست میں فعال رہیں، تل ابیب مغربِ ایشیا میں توازنِ طاقت کو بگاڑنے کی کوششوں سے باز آئے۔ طوفان الاقصیٰ ایک آپریشن نہیں بلکہ تاریخ کا نقطۂ عطف ہے۔ اس نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بیانیے کو روکا، عرب دنیا کی بے حسی کو چیلنج کیا، اور محورِ مقاومت کو نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ اسلامی دنیا کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو 1979 کے انقلابِ اسلامی ایران یا 2006 کی جنگِ لبنان کو جدید اسلامی و عالمی تاریخ میں حاصل ہے۔ اب مغربِ ایشیا کی سیاست اب مابعد طوفان الاقصیٰ دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں بندوق اور بیانیہ دونوں طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کر رہے ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام سے الہام لیکر طوفان الاقصیٰ آپریشن کو منظم اور کامیاب کرنیوالے یحییٰ سنوار کی روح کو لاکھوں سلام۔ طوفانِ الاقصیٰ کا اثر یہ ہوا کہ عرب اور اسلامی ممالک اور تل ابیب کے تعلقات کی معمول پر واپسی میں رخنہ پڑا اور گریٹر اسرائیل کے علاوہ مسجد اقصیٰ کی تباہی کا منصوبہ بھی ناکام ہوا۔ اس بارے میں مغربِ ایشیا کے امور کے ماہر وحید مردانہ کا کہنا ہے کہ طوفان الاقصیٰ ایک ناگزیر آپریشن تھا، آنے والے برسوں میں ہم مغربی ایشیا اور کسی حد تک پوری دنیا میں نمایاں تبدیلیاں دیکھیں گے۔
کیا یہ ضروری تھا؟: تسنیم نیوز سے گفتگو میں وحید مردانہ نے طوفان الاقصیٰ کے متعلق کہا کہ سب سے پہلا سوال جو وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ آیا طوفان الاقصیٰ آپریشن سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے تھا؟ کیا ان تمام قربانیوں کا کوئی حقیقی جواز تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب اس آپریشن سے پہلے کے حالات میں تلاش کرنا چاہیے، یعنی یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت خطے میں حالات مزاحمتی محور کے حق میں تھے یا اس کے خلاف، اور عمومی رجحان کیا دکھائی دے رہا تھا۔
صہیونی رجحانات کا بڑھنا اور صدی کی ڈیل: انہوں نے وضاحت کی کہ طوفان الاقصیٰ سے پہلے خطے کی سیاسی سمت واضح طور پر اسرائیل کے مفاد میں تبدیل ہو رہی تھی، 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی طاقت کے عروج پر تھے، وہ پرانی روایات توڑتے ہوئے صدی کی ڈیل منصوبے پر عمل پیرا تھے، ایک ایسا جامع منصوبہ جس میں مغربی کنارے کا اسرائیل یا اردن سے الحاق، غزہ کو نیوم پروجیکٹ کے تحت صحرائے سینا میں ضم کرنا، اور اسلامی ممالک کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات کو معمول پر لانا شامل تھا۔ اسی دوران واشنگٹن نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا: وحید مردانہ کے مطابق اگر یہ عمل جاری رہتا، تو انجام کار اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کی بحالی مسجد الاقصیٰ کی تباہی پر منتج ہوتی، وہی خطرہ جس سے شہید یحییٰ سنوار نے خبردار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ فلسطین کے مکمل زوال اور سقوط پر ختم ہونا تھا۔ انتفاضہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی، کیونکہ مغربی کنارے کے عوام کے ذہنوں پر اسرائیلی اثر بڑھ چکا تھا، اور خود مختار فلسطینی انتظامیہ (PA) نے بھی مزاحمت کو دبا رکھا تھا۔
حماس کے لیے فیصلہ کن لمحہ: انہوں نے کہا کہ حماس کے سامنے دو ہی راستے تھے، یا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فلسطین کو ختم ہوتے دیکھتی، یا پھر اقدام کرتی۔ اگر طوفان الاقصیٰ اس وقت نہ ہوتا تو چند ماہ یا سال بعد بہرحال یہ ناگزیر ہو جاتا، کیونکہ بائیڈن کے آنے کے باوجود صدی کی ڈیل ختم نہیں ہوا تھا اور ٹرمپ کی ممکنہ واپسی کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔
اسرائیلی حکمتِ عملی: وحید مردانہ کے مطابق اگر حماس انتظار کرتی، تو اسرائیل کی چمن زنی (mowing the grass) یعنی سبز دکھانے کی پالیسی کے تحت ہر دو سال بعد غزہ پر جنگ مسلط ہوتی رہتی۔ اس صورت میں حماس کے لیے کسی اچانک اور چونکا دینے والے ردعمل کا عنصر ختم ہو جاتا۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پیشگی اقدام کریں تاکہ امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ سے پہل کا موقع چھین سکیں۔
سوریہ، لبنان اور یمن کی تبدیلیاں: جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شام اور لبنان کے حالات کو طوفان الاقصیٰ کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ شام اور غزہ کے معاملات کو براہِ راست جوڑنا درست نہیں، اگرچہ ان میں اثرات ضرور تھے۔ حزب اللہ کے لیے لبنان کی سلامتی اور محورِ مقاومت کی بقا سب سے اہم تھی۔ اسی تناظر میں سید حسن نصراللہ کی شہادت نے مغربِ ایشیا کو گہرے تغیر سے دوچار کیا۔ مگر مجموعی تصویر کو ایک ساتھ دیکھنا چاہیے۔
یمن، مزاحمت کی نئی قوت: انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا تغیر یمن کے ابھرنے کی صورت میں سامنے آیا۔ انصاراللہ کی قیادت میں یہ غریب اور تنہا ملک چند سالوں میں ایک فیصلہ کن اور اثر انگیز قوت بن گیا، حتیٰ کہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے سامنے ڈٹ گیا اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہ وہ بات تھی جو کچھ سال پہلے تک محض خواب سمجھی جاتی تھی۔
ایران کا کردار اور استحکام: انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنا علاقائی مقام خود کی طاقت سے حاصل کیا، جبکہ اسرائیل نے یہ حیثیت امریکہ، مغرب اور عرب اتحادیوں کی مدد سے پائی۔ فرق یہ ہے کہ ایران کی بنیادیں کہیں زیادہ مضبوط اور دیرپا ہیں۔
مستقبل کا نقشہ، مزاحمت اور علاقائی سیاست: وحید مردانہ کے بقول تاریخ میں ہمیشہ اقوام اور نظریات کی بلندی و زوال جنگوں کے نتیجے میں طے ہوئی ہے۔ مستقبل قریب میں مغربِ ایشیا اور کسی حد تک دنیا میں بڑی تبدیلیاں یقینی ہیں۔ اس جنگ کے نتائج دونوں فریقوں کے لیے جیت اور ہار کا تعین کریں گے۔ غزہ کی جنگ اس تمام عمل کی کنجی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر غزہ اور حماس برقرار رہتی ہیں، تو محورِ مقاومت نئی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے بحالی کا کام کرے گا۔ بصورتِ دیگر علاقائی کھیل مزید پیچیدہ ہو جائے گا، کیونکہ اسرائیل اور مزاحمتی قوتوں کو اپنے نئے سیاسی جغرافیے کو مستحکم کرنا ہوگا اور یہ آسان کام نہیں۔ اسرائیل، اگر غالب آتا ہے، تو مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے حتیٰ کہ ترکی جیسے ممالک میں بھی شخصیات کے قتل (targeted assassinations) تک کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
طوفانِ الاقصیٰ، تاریخ کا نقطۂ عطف: انہوں نے اختتام پر کہا کہ چونکہ صہیونی حکومت خطے میں جنگوں کے خاتمے کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، اس لیے امکان نہیں کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک یعنی ٹرمپ کی موجودگی کے دوران وہ مغربی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی پالیسی سے پیچھے ہٹے گی۔ طوفانِ الاقصیٰ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں تھی، یہ ایک فکری و تزویراتی دھماکہ تھا جس نے مغربی ایشیا کے سیاسی، مذہبی اور سفارتی توازن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وحید مردانہ کے مطابق یہ ایک ناگزیر اقدام تھا، ایسا لمحہ جو اگر مؤخر کیا جاتا، تو فلسطین مکمل طور پر ختم ہو جاتا اور اسرائیل کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات کی معمول پر واپسی ایک ناقابلِ تلافی حقیقت بن جاتی۔
اسرائیلی حکومت جنگ کے اختتام کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان کم ہے کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک جب تک ٹرمپ امریکی سیاست میں فعال رہیں، تل ابیب مغربِ ایشیا میں توازنِ طاقت کو بگاڑنے کی کوششوں سے باز آئے۔ طوفان الاقصیٰ ایک آپریشن نہیں بلکہ تاریخ کا نقطۂ عطف ہے۔ اس نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بیانیے کو روکا، عرب دنیا کی بے حسی کو چیلنج کیا، اور محورِ مقاومت کو نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ اسلامی دنیا کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو 1979 کے انقلابِ اسلامی ایران یا 2006 کی جنگِ لبنان کو جدید اسلامی و عالمی تاریخ میں حاصل ہے۔ اب مغربِ ایشیا کی سیاست اب مابعد طوفان الاقصیٰ دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں بندوق اور بیانیہ دونوں طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کر رہے ہیں۔