وزارت صحت کا ڈینگی کے خاتمے کیلئے متعلقہ حکام کو مراسلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
وزارت صحت کا ڈینگی کے خاتمے کیلئے متعلقہ حکام کو مراسلہ جاری WhatsAppFacebookTwitter 0 23 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر مختار بھرتھ کی ممکنہ ڈینگی وبا سے نمٹنے کے لئے سخت انتظامی اقدامات کی ہدایت جاری کی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر مختار بھرتھ کی ہدایت پر ڈینگی کیخلاف اقدامات کیلئے مراسلہ جاری کردیا گیا ہے۔ ترجمان وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مختار بھرتھ کی نے مراسلے میں ڈینگی کی روک تھام کے لئے متعلقہ حکام کو فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے۔
مراسلے میں ڈی ایچ او، سی ڈی اے، اور ڈپٹی کمشنر کو تفصیلی مائیکرو پلان اور سرویلنس شیڈول جمع کروانے کی بھی ہدایت درج ہیں۔مزید برآں متعلقہ حکام کو ڈینگی وائرس کے خاتمے کیلیے پیشگی مربوط اقدامات کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا۔
ڈاکٹر مختار بھرتھ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد، راولپنڈی میں فوگنگ، صفائی اور نگرانی کے نظام کو فوری بنیادوں پر یقینی بنانے کا کہا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مثر کنٹرول کے لئے عوام احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروفاقی بجٹ پیش کرنے کی تاریخ تبدیل،اب 10جون کو پیش کیا جائے گا وفاقی بجٹ پیش کرنے کی تاریخ تبدیل،اب 10جون کو پیش کیا جائے گا چیئرمین پی ٹی آئی کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات، سیاسی امور پر تبادلہ خیال میانوالی بڑی تباہی سے بچ گیا، سی ٹی ڈی کی جوابی فائرنگ سے 3خطرناک دہشتگرد ہلاک وزیراعظم نے نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل نو کر دی ہے، سیکرٹری داخلہ خرم آغا بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری ججز کا تبادلہ صدر مملکت کا آئینی اختیار ، کوئی کیسے دبائو ڈال سکتا ہے ؟، سپریم کورٹCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: متعلقہ حکام کو
پڑھیں:
سپریم کورٹ، زیرحراست ملزمان کے میڈیا پر اعترافی بیانات چلانے سے روکنے کیلئے اقدامات کا حکم
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 جولائی2025ء)سپریم کورٹٰ نے پولیس کی تحویل میں میڈیا کے ذریعے ملزم کے ریکارڈ کیے گئے اعترافی بیان کے قابل قبول ہونے کو مسترد کر دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کراچی میں ایک بچے کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو بری کردیا۔ٹرائل کورٹ نے اسے موت کی سزا سنائی تھی جبکہ ہائی کورٹ نے واقعاتی شواہد اور ٹی وی انٹرویو میں اس کے اعتراف جرم کی بنیاد پر اس کی توثیق کی تھی۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ایسے ملزم کا پولیس افسر کی تحویل میں میڈیا کے ذریعے اعتراف جرم اس کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا جب تک اسکا بیان مجسٹریٹ کی موجودگی میں نہ لیا جائے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ کسی رپورٹر کو ملزم کے انٹرویو کیلئے رسائی دی جائے، اسکا بیان ریکارڈ کیا جائے اور پھر اسے عوام میں پھیلایا جائے۔(جاری ہے)
اس مقدمے میں متعلقہ تھانے کے انچارج اور تفتیشی افسر نے ایک صحافی کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس کی تحویل میں موجود ملزم کا انٹرویو کرے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بیان کا ترمیم شدہ حصہ بعد میں ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر کیا گیا،یہ پہلا کیس نہیں ہے جس میں زیرِ حراست ملزم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنایا گیا ہو،ایسا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے اور بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے جو نہ صرف ملزم بلکہ متاثرین کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، کسی جرم کی خبریں ہمیشہ لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں، خاص طور پر جب کیس ہائی پروفائل ہو یا جرم کی نوعیت عام لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو۔عدالت نے قرار دیا کہ ایسے کیسز میں عوام کی غیر معمولی دلچسپی میڈیا ٹرائل کا باعث بن سکتی ہے اور اس کے نتائج نہ صرف ملزمان بلکہ دیگر متاثرین کے لیے بھی ناقابل تلافی ہو سکتے ہیں۔عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ میڈیا کے پاس بیانیہ تخلیق کرنے کی بے پناہ طاقت اور صلاحیت ہے جو سچ یا غلط ہو سکتی ہے۔ یہ صلاحیت بھی ملزمان اور ان کے خاندان کے افراد کی زندگیوں کو برباد کرنے اور انکی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے، میڈیا کے پاس جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر کسی کو ہیرو یا ولن بنانے کی انوکھی طاقت ہے اور ایسی طاقت کا ایسے معاشرے میں غلط استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں ریاست اظہار رائے کی ا?زادی کو دباتی ہے اور میڈیا کو کنٹرول کرتی ہے۔میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ اخلاقی ضابطوں پر سختی سے عمل کرے تاکہ ملزموں کے حقوق اور مفاد عامہ کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوجداری نظام انصاف ہر معاملے میں منصفانہ ٹرائل کے حق کو یقینی بنانا ہے۔ہر ملزم کو اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک کہ ایک مجاز عدالت کے ذریعے منصفانہ ٹرائل سے اسے مجرم ثابت نہ کر دیا جائے۔میڈیا پر نشر کیا گیا ملزم کا بیان قابلِ قبول نہ تھا کیونکہ یہ نہ تو کسی مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا اور نہ ہی قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے،ایسا اقدام شاید اپنی کارکردگی دکھانے یا عوامی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہو، لیکن یہ کسی طور پر عوامی مفاد میں نہیں تھا۔سپریم کورٹ آفس کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس فیصلے کی کاپی سیکرٹری وزارت داخلہ،سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات،چیئرمین پیمرا،صوبائی چیف سیکرٹریز کو بجھوائی جائے تاکہ اس فیصلے میں دی گئی ا?بزرویشنز کی روشنی میں وہ مناسب اور فوری اقدامات کر سکیں جو کہ فوجداری کیسز کے فریقین کے حقوق اور تفتیش و مقدمے کی شفافیت کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ عدالت نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو بری کردیا۔