کراچی میں گرمی کی لہر ،پارہ 38 ڈگری تک جانے کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران شہر کا درجہ حرارت ایک سے دو ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ سکتی ہے
شہری شدید گرمی کے دوران غیر ضروری طور پر دھوپ میں نکلنے سے گریز کریں، محکمہ موسمیات
محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ کراچی میں گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہونے والا ہے۔ آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران شہر کا درجہ حرارت ایک سے دو ڈگری سینٹی گریڈ بڑھنے کا امکان ہے، جس کے بعد پارہ 38 ڈگری تک جا سکتا ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں آج بھی موسم گرم اور مرطوب رہے گا، تیز ہوائیں چلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گرمی کی شدت 40 ڈگری سے زائد محسوس کی جائے گی۔محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت شہر کا درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ ہے، تاہم گرمی کی شدت 34 ڈگری سینٹی گریڈ تک محسوس کی جا رہی ہے۔ مغربی سمت سے ہوائیں 20 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں، جبکہ ہوا میں نمی کا تناسب 69 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ شدید گرمی کے دوران غیر ضروری طور پر دھوپ میں نکلنے سے گریز کریں اور پانی کا زیادہ استعمال کریں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ڈگری سینٹی گریڈ محکمہ موسمیات کے دوران گرمی کی
پڑھیں:
ٹرمپ کا عندیہ: ایران پر عائد امریکی پابندیاں جلد ہٹائے جانے کا امکان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات نے بین الاقوامی منظرنامے میں نئی گرما گرمی پیدا کر دی ہے۔
اگرچہ یہ ملاقات رسمی نوعیت کی نہیں تھی، لیکن عشائیے کی شکل میں ہونے والے اس تبادلہ خیال کے دوران کئی حساس اور عالمی سطح پر اثر انداز ہونے والے معاملات زیر بحث آئے، جن میں ایران کے ساتھ تعلقات، مشرق وسطیٰ میں قیام امن، پاک بھارت کشیدگی، روس-یوکرین جنگ اور عالمی معیشت جیسے موضوعات شامل تھے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایک سوال کے جواب میں واضح طور پر عندیہ دیا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا ابتدائی خاکہ طے پا چکا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان آئندہ مہینوں میں مزید سنجیدہ سفارتی بات چیت متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایران کو طاقت کے استعمال کے بجائے امن کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں اور جب مناسب وقت آئے گا تو اقتصادی پابندیاں بھی اٹھا لی جائیں گی تاکہ ایران ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
اس موقع پر نیتن یاہو نے بھی ایران سے متعلق ایک محتاط لیکن اہم بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی بیرونی طاقتوں کا کام نہیں بلکہ یہ فیصلہ صرف ایرانی عوام کو کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا مقصد خطے میں طویل مدتی استحکام اور پرامن بقائے باہمی کا فروغ ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر بھی بات کی اور کہا کہ ان میں سے بیشتر اب غیر فعال ہو چکی ہیں،تاہم انہوں نے زور دیا کہ امریکا طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دے رہا ہے، کیونکہ اصل کامیابی میز پر بیٹھ کر بات چیت سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ میدان جنگ سے۔
ملاقات کے دوران ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا ذکر بھی ہوا۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی مداخلت سے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکا جا سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی کوششوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کو جنگ کے بجائے باہمی تجارت کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی گئی ہے، جو جنوبی ایشیا کے امن کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔
صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے یہ امید بھی ظاہر کی کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری طویل کشیدگی اب اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ یہ امریکا اور اسرائیل دونوں کے لیے ایک بڑی مشترکہ کامیابی ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل کے ہمسایہ ممالک بھی اس بار کشیدگی کم کرنے میں ایک مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع پر صدر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین پر حملوں کا تسلسل دنیا کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے اور امریکا یوکرین کی فوجی مدد جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی جارحیت کو روکنے کے لیے اضافی دفاعی ساز و سامان فراہم کیا جائے گا تاکہ یوکرین خود کو بچا سکے۔
معاشی حوالے سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ بھارت کے ساتھ ایک جامع تجارتی معاہدہ حتمی مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دیگر ممالک کے ساتھ ٹیرف یعنی محصولات کی شرح پر نظرثانی کی جا رہی ہے تاکہ عالمی تجارتی توازن کو بہتر بنایا جا سکے۔
گفتگو کے اختتام پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل نے حالیہ دنوں میں جو مشترکہ اقدامات کیے ہیں، وہ ایک عظیم کامیابی کی بنیاد ہیں۔ آنے والے وقت میں ان پالیسیوں کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر پر ظاہر ہوں گےاور امریکا نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ عالمی قیادت میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے نبھا رہا ہے۔